شہر کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، سڑکیں اور عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ سب سے بدنصیب شہر ہے۔ تین کروڑ سے زیادہ آبادی کے اس وسیع و عریض شہر کو اس کی رات کی زندگی اور متحرک ثقافت کی وجہ سے روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ تاہم گزشتہ چند دہائیوں سے یہ شہر بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے۔ ایک عرصے تک تو اس پر ایم کیو ایم نام کی دہشت گرد تنظیم کو مسلط رکھا گیا، اور اُس نے ریاستی سرپرستی میں ایسی دہشت اور تشدد کو فروغ دیا جس کی دنیا میں کہیں مثال نہیں ملتی۔ پھر جب اس تنظیم نے اپنے جنم دینے والوں کو ہی آنکھیں دکھانا شروع کیں تو اسے ختم تو نہیں البتہ کمزور کردیا گیا، اور اب ایک بار پھر اسے مسلط کرنے کے کئی تجربے ہوچکے ہیں جو تاحال کامیاب نہیں ہوسکے۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے، سردست کراچی جرائم اور بدحالی کی آماج گاہ بن چکا ہے۔
کراچی کی تباہی کی بنیادی وجہ بلدیاتی اداروں کا نہ ہونا بھی ہے۔ بلدیاتی ادارے شہریوں کو اپنی شکایات کا اظہار کرنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔ ان بلدیاتی اداروں کے بغیر سرکاری اہلکاروں کے لیے کوئی جوابدہی نہیں ہے، اور اس کے نتیجے میں شہر کا بنیادی ڈھانچہ اور خدمات متاثر ہوتی ہیں اور ہورہی ہیں۔ یہ ادارے اس وقت کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔
کراچی میں منتخب بلدیاتی اداروں کی کمی نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ شہر کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، سڑکیں اور عمارتیں خستہ حالی کا شکار ہیں، شہر کا سیوریج سسٹم تباہ ہے اور پانی کی قلت عام ہے۔ شہر میں جرائم میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ شہر منشیات کے استعمال اور اس کی اسمگلنگ کا مرکز بنا ہوا ہے۔لیکن ریاست اور اس کے ادارے اپنا کھیل رچا رہے ہیں اور تاحال کراچی میں بڑی مشکل سے ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ 15جنوری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج میں ردو بدل آج بھی جاری ہے،حال ہی میں جاری کردہ الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے بعد کراچی میں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی میں دو نشستوں کا فرق رہ گیا ہے۔کراچی کی 246 میں سے 235 پر الیکشن ہوئے جن میں سے الیکشن کمیشن نے 215 بلدیاتی نشستوں پر امیدواروں کی کامیابی کے نوٹیفکیشن جاری کردیے۔ الیکشن کمیشن نے کراچی کی 20نشستوں کے نتائج مختلف وجوہات کی بنا پر جاری نہیں کیے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی 84 اور جماعت اسلامی کی کے ایم سی سٹی کونسل میں 82 نشستیں ہوگئیں جبکہ پی ٹی آئی کی 40 نشستیں ہیں۔مسلم لیگ (ن) 5، جمعیت علمائے اسلام کی ایک نشست، جبکہ ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ اس طرح پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی مجموعی نشستیں 91ہوجائیں گی۔جب کہ توقع ہے کہ جن 20 نشستوں کے نتائج ابھی تک جاری نہیں ہوئے ہیں اور11 نشستوں کے انتخابات ہونے ہیں اگر پیپلز پارٹی اور الیکشن کمیشن نے مزید کوئی کھیل نہیں کھیلا تو توقع ہے کہ جماعت اسلامی کو آخر میں 100کے قریب نشستیں مل جائیں گی، اس طرح جماعت اسلامی حقیقتاً شہر کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی۔
جماعت اسلامی کراچی نے جس طرح صرف اپنی تحریک کی بنیاد پر الیکشن کمیشن کو مجبوراً الیکشن کرانے پر مجبور کیا تھا اسی طرح اپنا مینڈیٹ بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ اب گیارہ نشستوں پر انتخابات کے لیے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔اس ساری صورت حال پرامیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ”پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کی تمام تر فسطائیت اور جمہوریت دشمن اقدامات کے باوجود جماعت اسلامی بلدیاتی انتخابات میں کراچی کی سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے، لیکن پھر بھی ہم چاہتے ہیں کہ کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے سب اتفاقِ رائے سے چلیں۔ کراچی ترقی کرے گا تو پورا ملک ترقی کرے گا۔ جماعت اسلامی نے تمام پارٹیوں سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں اور ہماری سیٹیں بھی سب سے زیادہ ہیں، لیکن افسوس کہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی ہمارے مینڈیٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ الیکشن سے قبل من پسند آر اوز اور ڈی آر اوز کی تقرری، ناقص حلقہ بندیاں اور ووٹر لسٹوں میں گڑبڑ، بعد میں ان ہی آر اوز اور ڈی آر اوز کے ذریعے نتائج میں تبدیلی اور دھاندلی، اور اب دوبارہ گنتی کے نام پر ہماری سیٹیں چوری کی جارہی ہیں اور الیکشن کمیشن نے شرمناک حد تک پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا ہے، 10مارچ کو صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا جائے گا اور جب تک 11یوسیزمیں انتخابی شیڈول اور رکے ہوئے نتائج حق اور انصاف کی بنیاد پر جاری نہیں کیے جائیں گے دھرنا جاری رہے گا۔ “
اس سے قبل امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق بھی اعلان کرچکے ہیں کہ کراچی کے عوامی مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے اگر ضرورت پڑی تو ملک بھر میں دھرنے دیے جائیں گے۔
حافظ نعیم الرحمٰن کا الیکشن کمیشن کے رویّے پر کہنا ہے کہ ”11یوسیز میں ملتوی شدہ انتخابات نہ کرانا پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے ، الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی میں دھاندلی کرنے اور سنگین بے ضابطگیوں و الیکشن قوانین کی خلاف ورزیوں پر بھی جماعت اسلامی کی تحریری شکایات کا کوئی نوٹس نہیں لیا، صفورہ ٹاؤن اور گلشن حدید کی یوسیز میں فارم 11 دکھائے بغیر دوبارہ گنتی کرائی گئی، ووٹوں کے تھیلے پھٹے ہوئے اور سیل شدہ لفافوں کی سیلیں ٹوٹی ہوئی نکلیں، تھیلے کھول کر ترازو کے نشان والے بیلٹ پیپر ضائع کیے گئے، ہم نے دھاندلی کے تمام ثبوت، حقائق اور تصاویر الیکشن کمشنر کو بھیجیں لیکن دوبارہ گنتی کو روکا نہیں گیا۔ اختر کالونی، چنیسر گوٹھ، نئی کراچی میں نتائج تبدیل کیے گئے، یہ ساری دھاندلی سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی نے اپنے مقرر کردہ آر اوز اور ڈی آر اوز کے ذریعے کی، اور پریذائیڈنگ افسران پر بھی دباؤ ڈال کر اور ان کو نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دے کر تبدیل شدہ اور دھاندلی زدہ نتائج پر دستخط کروائے اور انگوٹھے کے نشانات لگوائے گئے۔ پیپلز پارٹی کو معلوم ہے کہ کراچی کے عوام نے اسے مسترد کردیا ہے اور وہ کراچی میں اپنا میئر نہیں لا سکتی، اس لیے وہ اب حکومتی اختیارات و وسائل اور ریاستی مشنری کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کے جمہوری عمل کو مکمل نہیں ہونے دے رہی۔“
حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ”پی ٹی آئی کے دوستوں نے بھی بعض جگہ ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ لیاقت آباد کی یوسی 4 ہم جیتے ہوئے ہیں لیکن اس میں گڑبڑ کی گئی اور الیکشن کمیشن نے اسے ہولڈ کردیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میٹروول کی یوسی میں ہم نے پی ٹی آئی کا ساتھ دیا جہاں پیپلز پارٹی نے دھاندلی کی کوشش کی، حالانکہ ہم یہاں دوسرے نمبر تھے۔ پی ٹی آئی کے فواد چودھری پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی کا ساتھ نہیں دیں گے، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کراچی کی تعمیر و ترقی کے لیے سب ساتھ مل کر چلیں۔“
حافظ نعیم الرحمٰن نے مردم شماری پر کہا کہ ”ہر طرف سے تحفظات سامنے آرہے ہیں۔ مردم شماری کا بنیادی اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو جہاں ہے اسے وہیں شمار کیا جائے، لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا، اس میں ڈنڈی ماری گئی اور کراچی کے عوام کو ایک بار پھر کم گنا گیا تو اس جعل سازی کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے اور ہر شہری کو اس کا ایکسز دیا جائے کہ وہ ازخود اس بات کی تصدیق کرلے کہ وہ اور اس کا گھرانہ مردم شماری میں شمار ہوا ہے یا نہیں۔“ ان کا کہنا تھا کہ ”آج ایم کیو ایم بڑی باتیں کررہی ہے لیکن پہلے وہ کراچی کے عوام کو جواب دے کہ اس نے ہمیشہ اہلِ کراچی کا مینڈیٹ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کو فروخت کیوں کیا؟ ایم کیو ایم بتائے کہ اس نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر 2017ء کی نواز لیگ کے دور کی مردم شماری کو کیوں منظور کیا؟ اور آخر کیوں اس نے کوٹہ سسٹم کو بھی غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کی منظوری دی؟ ایم کیو ایم نے کراچی کے عوام کو دھوکا دیا ہے اور اسی وجہ سے عوام نے اسے مسترد کردیا ہے۔“
اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ کراچی کی اگر کسی نے خدمت کی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ اور پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے لیے مزیدکیا کہا جائے! پی ٹی آئی نے بھی مایوس کیا ہے۔مضحکہ خیز صورت حال یہ ہےکہ پی ٹی آئی نے کراچی میں بعض مقامات پر پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر فارم 11میں تبدیلی کی ہے ،اب یہ جعل سازی نچلی سطح کی ہے یا پی ٹی آئی کراچی کی پالیسی کا حصہ ہے اس پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے، لیکن ایسا ہوا ہے اور یہ افسوس ناک ہے۔ اس وقت کراچی کو اور اس کے ساتھ ملک کو مزید تباہی سے بچانا ہے تو شہر کا میڈیٹ جو جماعت اسلامی کو ملا ہے، وہ اسے دینا ہوگا۔ کیونکہ شہر تباہ ہے اور بلدیاتی اداروں کی کمی نے شہر میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنا بھی مشکل بنادیا ہے، جو ہیں وہ بھی جارہے ہیں۔ ضروری انفرااسٹرکچر اور خدمات کے بغیر کاروباری حضرات شہر میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس کے نتیجے میں ملازمتوں میں کمی آئی ہے جس سے غربت اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔ کراچی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ بلدیاتی ادارے اپنے نئے میئر کے ساتھ فوری کام شروع کریں۔ بلدیاتی ادارے شہریوں کو اپنی شکایات کا اظہار کرنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں حصہ لینے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔یہ بات شہری امور کے ماہرین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں، اور کاروباری حضرات ہر دوسرے روز ادارہ نور حق میں حافظ نعیم سے ملاقات کے دوران اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر شہر کو موجودہ تباہی کی حالت سے نکالنا ہے تو کراچی میں بلدیاتی اداروں کا متحرک ہونا ناگزیر ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب اسٹیبلشمنٹ کراچی میں اپنا جاری کھیل بند کرے گی۔