ناکردہ گناہوں کی سزا

زیر نظر کالم معروف کالم نگار منظور کھوسو نے بروز اتوار 19 فروری 2023ء کو کثیر الاشاعت سندھی روزنامہ ’’عبرت‘‘ حیدرآباد کے ادارتی صفحے پر تحریر کیا ہے جس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔

……٭٭٭……

’’آج کل وطنِ عزیز میں ہر فورم پر مہنگائی اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ عرفِ عام میں آئی ایم ایف بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ عوام اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا مہنگائی کی صورت میں بھگتنے پر مجبور ہیں۔ اشرافیہ کی کرپشن اور عیاشیاں ملک میں معاشی تباہی کا ایک ایسا سیلاب لائی ہیں جو اپنے راستے میں آنے والے ہر غریب، مفلس ہاری، مزدور اور نچلے درجے کے سرکاری ملازم کو بہاکر لیے جارہا ہے۔ جس طرح سے سناروں (صراف) کی سلیٹ پر ہر روز سونے کے نئے نرخ لکھے ہوتے ہیں اسی طرح سے آٹا، دال، پیاز، آلو، گھی، دودھ، گوشت، پیٹرول، گیس، بجلی، دوائوں اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر اشیا کا حال ہے۔ ہر روز ہی نئے نرخ یعنی نیا سورج نیا بیج۔ (مطلب یہ ہے کہ ایک غریب فرد ہر روز ہی اپنے لیے ایک نیا کنواں کھودنے پر مجبور ہوتا ہے)

کھانے پینے کی دیگر اشیا اپنی جگہ پر… لوگ بے چارے تو آٹے کے حصول کے لیے بھی پریشان ہیں۔ مہنگائی کا بند آہستہ آہستہ گزشتہ دورِ حکومت میں ٹوٹنا شروع ہوا تھا اور اب تو یہ ایک ایسے خطرناک سیلاب کی صورت اختیار کرچکا ہے جس سے اپنی زندگی بچانے کا کوئی بھی راستہ کہیں دکھائی نہیں دیتا، اور نہ ہی حکمرانوں کے ہاں ایسا کوئی لائحہ عمل ہے جس سے اس طوفانِ بلاخیز کا مقابلہ کیا جاسکے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے سامنے چاپلوسی اور خوشامد کرکے کئی دن تک انہیں رجھانے کی پوری سعی کی گئی۔ آخر کار ادارہ مان تو کیا لیکن لوگوں پر اس کے نتیجے میں ایک طرح سے مہنگائی کی چٹان گرادی گئی۔ پہلے ہی ماہِ جنوری میں 27 فیصد کی شرح سے مہنگائی گزشتہ 48 برس کا ریکارڈ توڑ رہی تھی اور اب پیش کردہ The Supplyementary Finance Bill 2023 (منی بجٹ) نے تو عوام کے ہوش و حواس ہی کو یکسر مختل کر ڈالا ہے۔ مفتاح اسماعیل کو ہٹاکر بڑے ڈھول تاشوں کے ساتھ اسحاق ڈار کو لایا گیا تھا کہ یہ ماہرِ معاشیات مہنگائی کے جن کو بوتل میں بآسانی بند کرلیں گے اور ہماری معیشت بالکل مستحکم ہوجائے گی اور ایک بار پھر سے سارے دلدّر دور ہوکر عیش وعشرت کا دور دورہ ہوجائے گا، لیکن موصوف نے تو ایسی ماہرانہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ہر سو عوام کی آہ و بکا سننے کو مل رہی ہے۔ دیہاڑی دار مزدور اور کسان وغیرہ جو بے چارے پہلے ہی سے سیلاب سے شدید طور پر متاثر تھے اور جو اپنے بیوی بچوں کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنے سے بھی قاصر ہوچکے تھے، ان کی قوتِ خرید بالکل ختم ہوچکی ہے، اور ایسے حالات میں کہ جب لوگ جینے پر مرنے کو ترجیح دینے لگے ہیں، پارلیمنٹ میں شانتی کے ماحول میں آئی ایم ایف کی شرائط پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے لندن سے عوام کی مسیحائی کی خاطر تشریف لانے والے اسحاق ڈار نے 170 ارب روپے کی اضافی ٹیکسوں کی رقم جمع کرنے کی خاطر منی بجٹ پیش کردیا ہے اور جی ایس ٹی کی شرح 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کردی گئی ہے۔

ملک میں سیلاب کی تباہیوں سے لوگ تاحال شدید متاثر اور بے گھر ہیں لیکن اس کے باوجود سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہے جو سراسر ظلم ہے۔ کھانے کے تیل اور چائے کی پتی پر بھی اضافی سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔ پریشان حال عوام کو طفل تسلی دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آپ گھبرایئے مت، وفاقی حکومت دال، چاول، گندم، گوشت، دودھ پر سیلز ٹیکس کی اضافی شرح نافذ نہیں کررہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس بیکنگ کی اشیا پر لاگو ہوتا ہے نہ کہ کھلی اشیا پر، اس لیے ان اشیا کو سیلز ٹیکس سے مبرا قرار دینا حکومت کی جانب سے عوام پر احسان ہرگز نہیں ہے۔ اگرچہ قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے وقت ماحول پر سکوت سا طاری تھا لیکن اس خموشی کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے بڑی مہارت سے توڑا اور حقائق پیش کیے۔ انہوں نے بتایا کہ 15 روپے والی دوائی 100 روپے میں مل رہی ہے، واپڈا کے افسران کو 1300 یونٹ بجلی مفت دی جاتی ہے اور لاکھوں روپے پر مبنی تنخواہیں، گاڑیاں، ان کا تیل اور دیگر مراعات اس پر الگ سے ہیں، اور دوسری جانب غریب ہیں جو بل دیتے ہیں، اس لیے مفت یونٹ دینے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ اگر حکومت ٹیکس لگاتی ہے تو پھر عوام کو اس کے بدلے میں سہولیات بھی دی جائیں۔ غریبوں کے لیے صرف نعرے بازی کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے۔ غریبوں کے لیے بجلی مہنگی نہ کی جائے،15 ہزار روپے تنخواہ لینے والے بجلی کا بل کہاں سے ادا کریں گے؟ عوام تو پہلے ہی ٹیکس دیتے ہیں، اداروں کو لگام دی جائے۔ گرین چینلز پر اسمگلنگ ہوتی ہے،اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ان سے پوچھا جائے کہ ڈالر کس طرح سے افغانستان جاتے ہیں؟ جی ڈی اے کی سائرہ بانو نے وزیر خزانہ کو چیلنج دیتے ہوئے کہاکہ 15 یا 20 ہزار روپے تو ٹھیرے ایک طرف، وہ 50 ہزار روپے میں بھی ایک گھر کا ماہانہ بجٹ تیار کرکے دکھادیں تو ان کی مہارت مان لی جائے گی۔ بہرحال جب پیٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس مہنگی کردی گئی ہے تو پھر اس مہنگائی کے اثرات روزمرہ تمام اشیائے صرف پر لازمی پڑیں گے۔ جب تک ملک سے کرپشن، 87 رکنی شاہی کابینہ اور اس کے شاہانہ اخراجات اور مراعات کو ایک مناسب حد کے اندر نہیں لایا جاتا اور حاصل کردہ قرضے کی رقم صحیح طور پر استعمال نہیں کی جاتی ملک کا ترقی کرنا تو رہا ایک طرف، اس کے برعکس ملک روزبروز مزید مقروض ہوتا چلا جائے گا، جس کا سارا نتیجہ غریب عوام ہی بھگتیں گے اور جو اِس وقت بھی بھگت رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارہ تو ہمارے جیسے ممالک کے لیے ایسے قرض ڈیزائن کرتا ہے جس کے فریم سے نکلنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ یہ ادارہ 1944ء میں وجود میں آیا اور پاکستان نے پہلی مرتبہ 1958ء میں اس سے قرضہ لیا، آج 65 برس گزر چکے ہیں، ہم اس ادارے کے نہ صرف مقروض ہیں بلکہ محتاج بھی ہیں، جس کا بڑا سبب یہی ہے جو میں اوپر سطور میں بیان کرچکا ہوں، یعنی بدعنوانی اور لیے گئے قرضے کا غلط استعمال۔ 31 مئی 2022ء تک وطنِ عزیز کا کُل بیرونی قرضہ ایک کھرب، 26ارب 6کروڑ ڈالر بتایا جارہا ہے۔ اگر سیاست دانوں میں دم ہے تو ہر کام چھوڑ کر پارلیمنٹ میں اوّلیت کی بنیاد پر اس معاملے پر بحث کی جائے کہ یہ سارا قرض کس نے حاصل کیا؟ کہاں استعمال ہوا؟ اور اس سے ملک اور عوام کو کیا فائدہ پہنچا؟ عوام کو کوئی ریلیف مہیا کرنے کے بجائے ان پر بے حد بھاری ٹیکس عائد کرکے انہیں بدترین مہنگائی کے منہ میں دھکیل کر آئی ایم ایف سے قرضہ حاصل کیا جارہا ہے، بغیر یہ بتائے کہ اس سے ملک اور قوم کو آخر کیا فائدہ ہوگا؟

ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہر معیشت بنجامن فریڈمین کا کہنا ہے کہ اس ادارے کے اثرات کا تعین کرنا مشکل ہے، کیوں کہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی مداخلت نے کسی ملک کے معاملات کو بہتر بنایا ہے یا بدتر؟ ہم 1958ء تا ایں دم گزشتہ 65 برس کے ملکی معاشی حالات پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارا ملک آئی ایم ایف کا مقروض رہا ہے اور اس نے خوش حالی حاصل نہیں کی ہے، اور اب تو مریض کی خوش حالی نہیں بلکہ اس کی زندگی بچانے کا مسئلہ درپیش ہے۔