ترکیہ زلزلہ: ترک ماہرین ارضیات نے سر جوڑلئے

ترکیہ کی مختلف جامعات کے 13 ماہرینِ ارضیات اور ارضی طبیعات (Geophysicist) نے 6فروری کو آنے والے خوفناک زلزلے کا تجزیہ شروع کردیا ہے۔ مطالعے کی قیادت استنبول کی جامعہ ٹیکنیکل علوم(ITU)کررہی ہے۔ ترک سائنس دانوں کی تحقیق و جستجو کی اس مہم پر گفتگو سے پہلے قارئین کی دلچسپی کے لیے زلزلے کی مبادیات پر چند سطور۔ یہاں اس باب میں اپنی علمی کم مائیگی بلکہ بے مائیگی کا اعتراف ضروری ہے۔ اگلے چند پیراگراف میں آپ جو کچھ پڑھیں گے وہ دراصل علمائے ارضیات کے گراں قدر کام کی خوشہ چینی ہے جسے مختلف مقالوں اور انٹرنیٹ سے حاصل کیا گیا ہے۔

زمین کی بیرونی سطح جس پر ہم آباد ہیں وہ سِلوں یا slabs پر مشتمل ہے، جنھیں ارضیات کی اصطلاح میں ساختمانی پرتیں یاTectonic Plates کہا جاتا ہے۔ یہ سلیں یا پلیٹیں حرکت کرتی رہتی ہیں، تاہم متصل پلیٹیں اتنے مربوط انداز میں ہِلتی ہیں کہ ہمیں اس کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ جیسے زمین سورج کے گرد 1670 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہی ہے لیکن ہمیں اس حرکت کا احساس نہیں ہوتا، حالانکہ طلوع آفتاب، دوپہر کو ڈھلنے اور رات کے چھا جانے کی شکل میں ہم اجرام ہائے فلکی کی حرکت کو ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔

زمین کی سِلیں حرکت کے دوران ایک دوسرے سے ٹکراتی بھی ہیں اور پرتوں کی ناہموار ٹکّر سے ہمیں وقتاً فوقتاً ہلکے پھلکے جھٹکے محسوس ہوتے ہیں۔ جو آبادیاں بڑی پلیٹوں کے وسط پر ہیں انھیں اس ٹکرائو، تصادم اور رگڑ کا احساس نہیں ہوتا، لیکن کنارے پر آباد لوگ چھوٹے موٹے جھٹکے محسوس کرتے رہتے ہیں۔

بعض اوقات پلیٹیں آمنے سامنے آکر ایک دوسرے کا راستہ روک لیتی ہیں یا یوں کہیے کہ جنگلی بھینسوں کی طرح سینگ پھنسا لیتی ہیں۔ شاید اسی بنیاد پر قدیم یونانیوں کا خیال تھا کہ زمین کو بھینسا دیوتا نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھا ہے اور جب دیوتا جی تھک جاتے ہیں تو بوجھ دوسرے سینگ پر رکھ لیا جاتا ہے۔ سینگ کی تبدیلی زلزلے کا سبب بنتی ہے۔

ماہرینِ ارضیات کا خیال ہے کہ پلیٹوں کے ایک دوسرے کے سامنے آجانے سے حرکت رُک جاتی ہے لیکن پشت سے آنے والا دھکا برقرار رہتا ہے۔ دبائو بڑھ جانے پر چٹانوں کی شکست و ریخت شروع ہوتی ہے۔ اگر دبائو دونوں جانب سے برقرار رہے تو بیچ کا حصہ اوپر اٹھ کر پہاڑ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک موٹے کاغذ کو ہموار سطح پر رکھ کر اپنے ہاتھ کاغذ کے کناروں پر رکھ کر اسے دونوں جانب سے آگے بڑھانے کی کوشش کریں تو کاغذ بیچ سے اوپر (fold) اٹھ جائے گا۔ ارضیاتی ساخت میں اس نوعیت کی تبدیلی عام طور سے بہت آہستہ ہوتی ہے جس میں لاکھوں، بلکہ بعض اوقات کروڑوں سال لگتے ہیں۔

اگر دبائو برداشت سے بڑھ جائے تو دونوں پلیٹیں پھسل کر ایک دوسرے کے راستے سے ہٹنے لگتی ہیں۔ انشقاق کے اس عمل کو ارضیات کی اصطلاح میں ruptureکہتے ہیں۔ دونوں پلیٹیں جس مقام پر آمنے سامنے ملی ہوتی ہیں اسے ماہرینِ ارضیات نے خطِ دراڑ یا fault lineکا نام دیا ہے۔ انشقاق کے نتیجے میں پلیٹیں اوپر نیچے یعنی عمودی اور دائیں بائیں دونوں سمت پھسل سکتی ہیں۔ پلیٹوں کے پھسلنے سے سطح زمین پر ارتعاش محسوس ہوتا ہے جو درحقیقت زلزلے کے پہلا جھٹکا ہے۔ ان پلیٹوں کی صرف ایک سینٹی میٹر حرکت خوفناک زلزلے اا سبب بنتی ہے۔

نقطہ انشقاق دراصل زلزلے کا مقام یا Hypocenter ہے جسے بعض ماہرین Focal Point یا Focusبھی کہتے ہیں۔ اس کے عین اوپر سطحِ زمین کا مقام Epicenter کہلاتا ہے۔ پلیٹوں کے کھسکنے سے جھٹکے کے ساتھ وہ توانائی بھی خارج ہوتی ہے جو دونوں پلیٹوں کی حرکت رک جانے کے باوجود پیچھے سے آنے والے دھکے کے نتیجے میں جمع ہورہی تھی۔ اسے یوں سمجھیے کہ آپ نے گاڑی کے بریک پر سختی سے پائوں رکھا ہوا ہے۔ پیچھے سے کئی تنومند نوجوان گاڑی کو دھکا لگا رہے ہیں، اور اگر آپ اچانک بریک سے پائوں ہٹالیں تو کیا ہوگا؟ کچھ ایسا ہی انشقاق کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اس توانائی سے پیدا ہونے والی تھرتھراہٹ (Vibration) زلزلے کے مقام سے سیکڑوں میل دور تک کی زمین کو ہلاکر رکھ دیتی ہے۔ پہلے جھٹکے کے بعد یہ توانائی رفتہ رفتہ خارج ہوتی رہتی ہے جو رادفات یا aftershocksکا سبب ہے۔

زلزلے کی شدت کو ناپنے کے دو پیمانے ہیں۔ ایک اس کی شدت یا Magnitudeکے لیے جسے Richter Scaleکہتے ہیں کہ اسے فرانسیسی سائنس دان Charles Richterنے 1935ء میں ترتیب دیا تھا۔ زلزلہ پیما یا Seismographپر ارتعاش کی شدت کو 1 سے9 پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک سے دو شدت کے زلزلے انسانوں کو محسوس نہیں ہوتے۔ چار سے پانچ کو ہلکے زلزلے کا نام دیا گیا ہے۔ پانچ سے چھے کو کسی حد تک سنجیدہ یا moderate سمجھا جاتا ہے۔ چھے سے سات شدت کے زلزلے کو شدید، اور آٹھ کو بڑا جھٹکا کہا جاتا ہے، جبکہ آٹھ سے زیادہ شدت خوفناک سمجھی جاتی ہے۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا انشقاق کے نتیجے میں پلیٹوں کے سرکنے سے جہاں جھٹکا محسوس ہوتا ہے وہیں زبردست Seismicتوانائی بھی خارج ہوتی ہے، توانائی کی لہریں زلزلے کے نقطہ آغاز یا Hypocenter سے چہار جانب ارتعاش پیدا کردیتی ہیں۔ توانائی کی شدت یا Intensity ناپنے کے لیے اطالوی ماہر طبعیاتی ارضیات Mercalliنے 1902ء میں ایک پیمانہ تجویز کیا جو Scale Mercalli کہلاتا ہے۔ یہ اسکیل 1 سے12 درجات پر مشتمل ہے۔ ایک سے 4 معمولی، 5 کسی حد تک خطرناک، 6 سے 8 تک سخت اور اس سے اوپر خوفناک سمجھا جاتا ہے۔

اب آتے ہیں 6 فروری کے زلزلے کی طرف۔

امریکی مساحت ارضی (USGS)کے مطابق، اس زلزلے کا مرکز غازیان تب شہر سے 32.4کلومیٹر شمال مغرب میں سطح زمین سے 17.9کلومیٹر نیچے تھا اور زلزلے کی شدت 7.8 تھی۔ توانائی کی شدت کے اعتبار سے Mercalliکے پیمانے پر ایک سے 12 کے معیار پر یہ 11 تھا۔ برصغیر کے لوگوں نے اس نوعیت کے زلزلے کا مشاہدہ 18 برس پہلے کیا تھا جب 8 اکتوبر 2005ء کو سارا کشمیر، اسلام آباد اور خیبر پختون خوا کا بڑا حصہ لرز اٹھا تھا۔ کشمیر میں آنے والے زلزلے کی شدت 7.6 اور اس کا مرکز سطح زمین سے 15 کلومیٹر نیچے تھا۔

ترکیہ کے جس علاقے میں زلزلہ آیا وہ افریقی، عرب اور اناطولیہ پلیٹوں کے نقطہ اتصال یا Junctionکے پڑوس میں واقع ہے، چنانچہ وہاں پلیٹوں کی ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ عام ہے اور وقفے وقفے سے جھٹکے محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق انشقاق کا عمل مشرقی اناطولیہ دراڑ (Fault line) سے شروع ہوا اور ترک ماہرین کے خیال میں پلیٹوں کے پھسلنے سے کچھ دوسری دراڑیں بھی سرگرم ہوگئیں۔ زلزلے کے بعد ترک سائنس دانوں نے دراڑ کے 15 کلومیٹر حصے کا جائزہ (mapping)لیا اور ان کا خیال ہے کہ مجموعی طور پر پلیٹیں پانچ مقامات پر انشقاق یا Ruptureکا شکار ہوئیں۔ امریکی مساحتِ ارضی کا کہنا ہے کہ بیک وقت دو زلزلے آئے۔ پہلے شمال مشرق اور جنوب مغرب کی جانب پلیٹوں کے سرکنے سے زمین لرز اٹھی، جبکہ مشرق سے مغرب کی جانب انشقاق نے دوسرے جھٹکے کو جنم دیا۔ ترک ماہرین تین زلزلوں کی بات کررہے ہیں لیکن ارضیات کے دوسرے علما کے خیال میں یہ نیا زلزلہ نہیں بلکہ ایک مضبوط رادفہ یا After Shockتھا۔

دنیا بھر کے ماہرینِ ارضیات ترکوں کے اس تحقیقاتی مطالعے کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زلزلے کی پیشن گوئی کا کوئی نظام مرتب ہوجانے کا تو کوئی امکان نہیں لیکن پلیٹوں کی حرکت، انشقاق اور خطِ دراڑ کے تجزیے سے شاید اُن علاقوں کی نشاندہی ممکن ہوجائے جہاں شدید زلزلے کے امکانات بہت واضح ہیں۔

یہاں ایک نظریہ سازش کا ذکر بھی شاید قارئین کی دلچسپی کاباعث ہو۔ امریکی فوج نے جامعہ الاسکا کے تعاون سے بلند فضا اور گہرے پانیوں میں ریڈیو کمیونیکیشن کو موثر بنانے کے لیے High-frequency Active Auroral Research Program یا HAARPکے عنوان سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس مقصد کے لیے آواز کی لہروں پر قابو پانے کی جو تکنیک وضع کی گئی ہے اسے زیرزمین ارتعاش پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان لہروں کے ذریعے بادلوں کی حرکت بھی متاثر کی جاسکتی ہے۔ گویا چچا سام موسم کو بطور ہتھیار استعمال کرنے یا Weaponizing Weatherکی شیطانی خواہش رکھتے ہیں۔ مستقبل میں شاید HAARPکے ذریعے زلزلہ لانا یا بادلوں کا رخ موڑنا ممکن ہوجائے لیکن فی الوقت یہ ٹیکنالوجی اس مقام پر نہیں پہنچی، چنانچہ ہمیں نظریہ سازش منطق و دلیل سے محروم اور بے بنیاد نظر آتا ہے۔

حوالہ جات:
Dorling Kindersley, What Causes an Earthquake? (Internet Article)

روزنامہ صباح ترکیہ
……………………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔