پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینا چاہئےطالبان کو بلاتاخیر طالبات کو تعلیم دینے پر توجہ دینی چاہیے
جمعیت اصلاح افغانستان کے امیر پروفیسرڈاکٹر محمد مزمل اسلامی کے ساتھ نشست
جمعیت اصلاح افغانستان کے امیر پروفیسرڈاکٹر محمد مزمل اسلامی گزشتہ دنوں پشاور کے دورے پر تشریف لائے تو انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاور نے ان کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے چنیدہ افراد کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ ابتدائی تعارف اور افتتاحی کلمات کے بعد پروفیسرڈاکٹر محمد مزمل اسلامی نے مجلس سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہاکہ جمعیت اصلاح، افغانستان کی ایک ہمہ گیر اسلامی و فلاحی تحریک ہے جس میں تمام مکاتبِ فکر اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ افغانستان میں بیرونی جارحیت کے خلاف جب تک جہاد جاری رہا تب تک تمام جماعتیںاور تنظیمیں جہاد میں مصروفِ عمل رہیں، لیکن جب فتح مبین حاصل ہوگئی تب ان تنظیموں میں اختلافات پیدا ہوگئے، حتیٰ کہ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی۔ یہ اختلافات عہدوں اور مناصب کے حصول کے لیے تھے نہ کہ اسلام اور جنگ زدہ افغان عوام کی خدمت کے لیے۔ ان ہی اختلافات کے نتیجے میں طالبان کا ظہورہوا، جنہوں نے انتہائی قلیل عرصے میں پورے افغانستان پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرلی تھی۔
ایسے میں وہ لوگ جو اسلامی سوچ و فکر سے سرشار تھے انھوں نے جنگ و جدل سے برات کا اظہار کرتے ہوئے دینی، فکری اور تربیتی نقطہ نظر سے ایسے تمام تحریکی افراد کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا جو اسی سوچ کے حامل تھے۔ اسی سوچ کے نتیجے میں جمعیت اصلاح کی بنیاد پڑی۔ جمعیت اصلاح دراصل اُن پڑھے لکھے اور باشعور افغان نوجوانوں کی تنظیم ہے جو پہلے کسی نہ کسی جہادی تنظیم کا حصہ رہے تھے یا جو ان جہادی تنظیموں سے متاثر تھے۔ اپنے پہلے دور میں جب طالبان نے کابل فتح کرلیا تو اس سے خانہ جنگی تو ختم ہوگئی لیکن استقرار نہیں آیا، لوگوں میں ایک خوف اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ ہم نے جنگ سے بے زار لوگوں کو منظم کیا اور اس عمل میں ہمارا پہلا ہدف تعلیم کو عام کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے ہم نے جگہ جگہ تعلیمی ادارے قائم کیے، میڈیا کے ذریعے اپنی بات پہنچانے کے لیے ہم نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا سہارا لیا جس کے اچھے ا ثرات سامنے آئے۔
پروفیسر ڈاکٹر مزمل اسلامی نے کہا کہ طالبان میں حالات کی درستی کی صلاحیت نہیں تھی، پوری دنیا میں صرف تین ممالک پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے انہیں تسلیم کرلیا تھا، باقی دنیا چالیس سالہ قربانیوں سے لاتعلق ہوگئی تھی۔ طالبان کی اسلام پسندی مثبت بات تھی، عام لوگ ان کی قدر کرتے تھے اور ان کی ہمیشہ حمایت کرتے رہے۔ طالبان کے خاتمے کے بعد جمہوریت کا جو ڈراما رچایا گیا اسے عوام نے دل سے تسلیم نہیں کیا، کیونکہ جہاد کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ تھیں۔ جمعیت اصلاح نے جمہوری دور میں تعلیمی اداروں کے قیام پر توجہ دی۔ کابل میں سلام یونیورسٹی قائم کی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن قائم کیے گئے۔ اس عرصے میں ڈاکٹرمحمد عاطف امیر جمعیت اصلاح کو شہید کیا گیا، ہمارے دفتر پر چھاپے مارے گئے، ہمارے لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ہم نے طالبان سے مذاکرات اور قیام امن کے لیے مظاہرے کیے جو امریکیوں اور اُن کے مسلط کردہ حکمرانوں کو پسند نہیں تھے۔ تھوڑے عرصے میں ہم سارے افغانستان میں تعلیم اور میڈیا کا اپنا جال بچھانے میں کامیاب ہوئے۔ ہم نے نوجوانوں کے لیے نجم کے نام سے ایک الگ تنظیم قائم کی جو فلاح عامہ کی سرگرمیوں میں پیش پیش ہے۔ ڈاکٹروں، خواتین اور علماء کے لیے بھی الگ الگ تنظیمیں قائم کی گئیں۔ ہم نے اب تک سیاسی سرگرمیوں سے حتی الوسع گریز کی پالیسی اپنائی ہے۔ ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج مالی وسائل کی کمی تھی جسے ہم نے چندوں کی صورت میں قبول کیا۔ تعلیمی اداروں میں تھوڑی بہت فیسوں سے عمومی اخراجات پورے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جگہ جگہ کتب خانے قائم کیے گئے ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر محمد مزمل اسلامی کاکہنا تھا کہ سینٹر فار اسٹرے ٹیجک اینڈ ریجنل اسٹڈیز(CSRS) اور آئی آر ایس دونوں مل کر اسلامی تحریکوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ دونوں ادارے دونوں برادر اسلامی ممالک افغانستان اور پاکستان کو بھی قریب لانے اور ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے اور مل بیٹھ کر حل کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ امن ہم سب کی مشترکہ ضرورت ہے اور اس کے لیے مل جل کر کام کریں گے ۔ امارتِ اسلامی کو تاحال دنیا نے تسلیم نہیں کیا ہے جو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس سے عام لوگوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض قوتیں افغانستان کو ایک بارپھر میدانِ جنگ بنانا چاہتی ہیں، توقع ہے آئی آر ایس اور CSRS مل کر ان سازشوں کو اپنی تحقیق کے ذریعے بے نقاب کریں گے۔ داعش افغانستان کے امن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، بعض بیرونی قوتیں اس کی سرپرستی کررہی ہیں۔ معاشی، تعلیمی مسائل بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ خواتین کے لیے کام کی پابندی اور تعلیمی اداروں کی بندش سے آدھی آبادی مشکلات سے دوچار ہوجائے گی۔ طالبان کو افغانستان میں عبوری کے بجائے مستقل حکومتی ڈھانچہ بنانا چاہیے۔ طالبان کو لوگوں کو اپنا خیر خواہ اور ہمنوا بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔
ڈاکٹر محمد مزمل اسلامی نے نشست کے آخر میں شرکاء کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دوستی اور اسلامی اخوت کے ایسے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کرسکتی۔ افغانستان اور پاکستان مذہب، ثقافت، تاریخ اور زبان کے علاوہ خون اور نسل کے رشتوں میں بھی جڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان کے درمیان دوریاں پیدا کرنا کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ موجودہ حالات میں افغانستان کے اندر بھارت کی کوئی پذیرائی نہیں ہے اور نہ ہی امارتِ اسلامی افغانستان پاکستان کی قیمت پر بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات استوار کر نے کی کسی پالیسی پر سوچ رہی ہے۔ بھارت کے اسلام دشمن رویّے سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے اور طالبان اسے کبھی بھی وہ مقام اور اہمیت نہیں دیں گے جس سے ان کا اسلامی تشخص داغدار ہو۔ افغانوں کو من حیث القوم وہ تاریخ اچھی طرح یاد ہے جب بھارتی طیارے عام افغانوں پر بمباری کرتے تھے۔ پاکستان کے بارے میں عام افغانوں کے درمیان پائے جانے والے منفی جذبات کے متعلق استاد مزمل کا کہنا تھا کہ یہ ایک فطری ردعمل ہے جو پاکستان کی ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان نے پہلے کمیونسٹوں کے خلاف مجاہدین کی حمایت کی، اس کے بعد مجاہدین کے خلاف طالبان کی حمایت کی گئی، جب طالبان مستحکم ہونے لگے تو ان کے خلاف امریکہ اور شمالی اتحاد کا ساتھ دیا گیا۔ نیٹو اور امریکہ کو پاکستانی ہوائی اڈے دینے کے علاوہ نیٹوسپلائی میں بھی پاکستان کا کردار عام افغانوں کی توقعات کے برعکس تھا، اسی طرح جمہوری دور کے خلاف دوبارہ طالبان کی حمایت سے بھی افغانوں کے اندر پاکستان کے کردار کے حوالے سے نہ صرف شکوک و شبہات پیدا ہوئے بلکہ اس سے غلط فہمیوں نے بھی جنم لیا، اور اب بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ افغانستان میں شاید ہی کوئی طبقہ ہوگا جو پاکستان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہو، حتیٰ کہ طالبان کے اندر بھی ایک دھڑا ایسا موجود ہے جو طالبان کی سابق حکومت کے ساتھ کیے جانے والے سلوک بالخصوص ملا ضعیف کے ساتھ کیے جانے والے ناروا غیر اسلامی اور غیر سفارتی اقدام پر شاکی ہے، اور وہ پاکستان کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتا ہے۔ لیکن یہ جذبات حکومتِ پاکستان اور پاکستانی اداروں کے بارے میں ہیں، عام پاکستانی عوام اور یہاں کے علماء کے بارے میں افغانوں کے اندر آج بھی مثبت جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایران و بین الاقوامی اسلامی تحریکوں کی ایک مشترکہ کانفرنس کے بارے میں کہا گیاکہ یہ کانفرنس ضرور منعقد ہونی چاہیے لیکن اسے پاکستان یا ایران میں منعقد کرنے کے بجائے کسی اور اسلامی ملک میں منعقدکرنا چاہیے۔ طالبان کو بلاتاخیر طالبات کو تعلیم دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے کے بعد سابق جہادی راہنمائوںکے ملک چھوڑنے کو ناپسندکیا جارہا ہے، طالبان نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کررکھی ہے، حزبِ اسلامی کے سربراہ انجینئر گلبدین حکمت یار کا جمعہ کا خطبہ بھی بند کردیا گیا ہے۔
طالبان کے اندر بعض حکومتی معاملات بالخصوص طالبات کی تعلیم پر شدید اختلافات سامنے آئے ہیں، ملک کے اندر سے حکومت پر دبائو بڑھ رہاہے۔ امیرالمومنین ملا ہیبت اللہ کا کہا ہوا حرفِ آخر ہوتا ہے جن کے سامنے کسی کو بھی بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی، جس کی وجہ سارے اختیارات ان کے پاس ہونے کے علاوہ عام طالبان کا ان کے ساتھ عقیدت اور دل سے احترام کا رشتہ ہے۔ ایران مختلف ترقیاتی منصوبوں اور طالبان کو مختلف شعبوں میں تربیت کے ذریعے طالبان کی حمایت حاصل کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا ہے، لہٰذاپاکستان کوبھی عام افغانوں کے مسائل کاادراک کرتے ہوئے طالبان حکومت کے ساتھ دوطرفہ روابط کوفروغ دینا چاہیے۔جمعیت اصلاح نے تمام تر مشکلات کے باوجود افغانستان میں قیام امن کی خاطر نہ صرف اپنی سرگرمیاں خاموشی سے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ ہم طالبان حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون بھی کررہے ہیں، یہاں تک کہ ہم مختلف وزراء کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور ان کی درست سمت میں راہنمائی کا قومی اور دینی فریضہ بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ ہماری بات سنتے بھی ہیں اور جہاں جہاں گنجائش ہوتی ہے وہاں وہ ہمارے مشوروں پر عمل بھی کرتے ہیں۔