دماغی و اعصابی امراض کے ماہرین کی کمی مرگی کے بارے میں عوامی آگاہی کے لیے امراض اعصابی و دماغی کی تحقیق کے ادارے کی جانب سے اسکولوں کے طلبہ کے درمیان آرٹ کے مقابلے کا انعقاد
مرگی ایک اعصابی بیماری ہے، جو دنیا میں ہر سو میں سے ایک شخص کو متاثر کرتی ہے۔ پاکستان میں تقریباً 2.5 ملین افراد اس میں مبتلا ہیں۔ یہ صحتِ عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے، کیوں کہ اس کے سماجی و اقتصادی اثرات بھی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں مرگی کا پھیلاؤ 2.3فیصد ہے جو کہ عالمی اوسط کا ایک فیصد سے زیادہ ہے۔ مرگی کا پھیلاؤ بچوں اور نوعمروں میں سب سے زیادہ ہے، جس میں سب سے زیادہ شرح14۔15 سال کی عمر کے بچوں کی ہے۔ اور یہ پھیلاؤ بھی شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں زیادہ ہے۔ پاکستان میں مرگی کا علاج موجود ہے لیکن ناکافی ہے۔ ملک میں صرف 400 کے قریب نیورولوجسٹ ہیں اور بہت سے لوگوں کے پاس مرگی کے مرض کی معیاری دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے ضروری تربیت نہیں ہے۔ اس میں ایک اہم بات یہ ہے کہ زیادہ تر نیورولوجسٹ بڑے شہروں میں مقیم ہیں، جو دیہی علاقوں میں علاج تک رسائی کو محدود کرتے ہیں۔ پاکستان میں توہمات، تعلیم کی کمی اورمرض کے بارے میں آگاہی کا فقدان اوربنیادی مسئلہ ہیں۔ اسی آگاہی اور لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے ضمن میں نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام مرگی کے عالمی دن کے حوالے سے آرٹ کمپٹیشن کا انعقاد کیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام تھا جس میں 50 اسکولوں کے بچوں، والدین اور اساتذہ نے شرکت کی۔
اس کمپٹیشن میں عثمان پبلک اسکول 4 کی طالبہ عائشہ صدیقہ نے پہلی، انسپائریکشن اسکول کلاس 8 کی کلثوم نے دوسری، انسپائریشن اسکول کی زینب مستقیم نے تیسری پوزیشن حاصل کی، جبکہ عثمان پبلک اسکول کلاس ون کے طالب علم زید بن جنید کو خصوصی انعام دیا گیا۔ پروگرام کی میزبانی کے فرائض معروف نیورولوجسٹ اور نارف کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبدالمالک نے انجام دیے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائم مقام ڈائریکٹر انسپکشن اینڈ رجسٹریشن پرائیویٹ اسکولز محمد افضال نے کہا کہ مرگی ایک قابلِ علاج دماغی بیماری ہے لیکن کم علمی اور آگہی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اسے جن بھوت یا آسیب کا سایہ سمجھ لیتے ہیں، آستانوں اور بابوں کی طرف چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہمات کی وجہ سے مرگی کے دوروں کا علاج چپل سونگھا کر کیا جاتا ہے یا دوسرے جاہلانہ طور طریقے اپنائے جاتے ہیں، اس لیے اگر کسی کو یہ مرض لاحق ہو تو اسے دماغی و اعصابی امراض کے ماہرین کے پاس جانا چاہیے۔ اس تقریب کا انعقاد بچوں، اساتذہ اور والدین میں آگہی پھیلانے کے مترادف ہے۔ اسکول اساتذہ اور والدین اس بیماری سے بچاؤ اور تشخیص کے لیے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے صدر پروفیسر محمد واسع نے کہا کہ ملک میں مرگی میں مبتلا بچوں کے علاج کے لیے دماغی واعصابی امراض کے ماہرین کی کمی ہے، پورے ملک میں بچوں کی دماغی و اعصابی بیماریوں کے ماہرین کی تعداد 30 ہے، جن میں سے کراچی میں 8 ہیں۔ اس وقت والدین و اساتذہ میں آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ بچوں میں مرگی 95 فیصد قابلِ علاج مرض ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرض کی جلد تشخیص سے مریض کا دماغ بچایا جاسکتا ہے۔
بچوں کے ادیب پروفیسر سلیم مغل کا کہنا تھا کہ بچے جب بھی اچھا کام کریں تو اساتذہ اور والدین کو چاہیے کہ ان کی حوصلہ افزائی کریں، انہیں شاباش دیں، اس لیے جن بچوں نے اس مقابلے میں پوزیشن لی اور جو بچے اس مقابلے میں شریک ہوئے اور جیت نہیں سکے انہیں بھی شرکت کرنے پر مبارک باد دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی کامیابی ڈگری میں نہیں بلکہ تعلیم و تربیت اور صلاحیت میں تلاش کریں، بچوں کو کہانی سنائیں، دکھائیں نہیں۔ کیونکہ جب بچہ سنتا ہے تو تخیلاتی دنیا میں جاتا ہے، سوچنا شروع کرتا ہے، کرداروں کو آئیڈیل بناتا ہے۔
نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن کے سیکریٹری پروفیسر عبدالمالک نے کہا کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں اور اکثریت اسے جن، بھوت، جادو ٹونا، یا آسیب سمجھتی ہے جس کی وجہ سے ان کا درست علاج نہیں ہوپاتا۔ انہوں نے کہا کہ بچوں میں مرگی کی بیماری سے متعلق مقابلے کا مقصد بھی آگہی پھیلانا ہے، کیونکہ بچوں کی بڑی تعداد بھی اس مرض کا شکار ہے اور بچوں میں مرگی کی بیماری کے ماہرین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ مرگی کا شکار مریضوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے
لڑکیوں کی شادی نہیں ہوپاتی، اگر شادی ہوجائے تو نوبت طلاق تک آجاتی ہے، بچوں کو داخلہ نہیں دیا جاتا اور نوجوانوں کو نوکری نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیگر بیماریوں کی طرح ایک بیماری ہے جسے دواؤں کے ذریعے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مرگی کی بیماری قابلِ علاج ہے لیکن توہمات، اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے امراض میں مبتلا افراد کو اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، اس کے لیے نارف کی آگہی مہم اور پروگرام قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے اور وقت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ریاستی سطح پر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں مرگی کے مریضوں کے علاج کے لیے خصوصی اہتمام اور خصوصی او پی ڈی کی سہولت ہونی چاہیے، اور کیونکہ مرگی کی ادویہ مہنگی ہیں اس لیے حکومت کو ان ادویہ پر سبسڈی دے کر کم آمدنی والے طبقے کی تکلیف کو کم کرنا چاہیے، اس ضمن میں ڈاکٹر حضرات کو بھی آگاہی کے ساتھ ساتھ مہنگائی اور معاشی بدحالی کے اس دور میں مریضوں کو خصوصی ریلیف دینا چاہیے تاکہ لوگ بآسانی اپنا علاج کراسکیں۔