محترم ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب
چیئر مین اسلامی نظریاتی کونسل
اسلام آباد
السلام علیکم
وفاقی حکومت نے حتمی طور پر یہ سیاسی فیصلہ کرلیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے پر صرف جزوی طور سے ہی عمل درآمد کیا جائے گا، یعنی 2027ء تک معیشت سے تو نہیں مگر صرف بینکاری کے نظام سے سود کا مکمل طور سے خاتمہ کردیا جائے گا۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ وفاقی حکومت، کچھ اداروں، کچھ دینی تنظیموں اور ان علماء و مفتی صاحبان نے جو وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کررہے ہیں کچھ بنیادی حقائق کو نظرانداز کردیا ہے مثلاً:
(1)وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے میں بلاتحقیق اسلامی بینکوں کی کچھ ایسی پراڈکٹس کی بھی توثیق کردی گئی ہے جو شرعی اصولوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں، یا ان میں سود کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، چنانچہ اس فیصلے سے اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے سودی نظام کو فروغ حاصل ہوتا رہے گا۔
(2)وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ غیر آئینی ہے کیونکہ اس میں سپریم کورٹ کے واضح احکامات کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔
(3)وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ عملاً معطل ہوچکا ہے کیونکہ اس فیصلے کے خلاف متعدد اپیلیں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ میں دائر کردی گئی ہیں، چنانچہ اس فیصلے پر عمل درآمد چہ معنی دارد؟
(4)وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے میں اگرچہ حکومتِ پاکستان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ پانچ سال کی مدت میں ملکی معیشت کو سود سے پاک کرکے غیر سودی اسلامی نظام معیشت قائم کرے، مگر وفاقی وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا ہے کہ 2027ء تک صرف بینکاری کے نظام سے سود کا خاتمہ کیا جائے گا، معیشت سے سود کا خاتمہ نہیں۔
(5)اسلامی بینک ایکویٹی کے تناسب سے سودی بینکوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ٹیکس سے قبل منافع کمانے کے باوجود اپنےکھاتہ داروں کو سودی بینکوں کے مقابلے میں انتہائی کم شرح سے منافع دے رہے ہیں جو کہ استحصال کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ اسلام میں ناانصافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
(6)سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ میں وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے کے خلاف متعدد اپیلیں دائر ہیں۔ سپریم کورٹ کی اس بینچ کے فیصلے کے بعد وہ تمام اقدامات جو وفاقی حکومت، اسٹیٹ بینک اور بینکوں کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں بے معنی اور لاحاصل مشق بن سکتے ہیں اور ان کو واپس لینا پڑسکتا ہے جو اسلامی نظام بینکاری کے لیے بڑا جھٹکا ہوگا۔
اس ضمن میں چند مزید حقائق اور گزارشات کونسل کی خصوصی توجہ کے لیے پیش ہیں:
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ غیر آئینی، غیر اسلامی
(1)سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ نے جون 2002ء میں ربوٰ کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت کے پاس اس واضح ہدایت کے ساتھ بھیجا تھا کہ وہ بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر کی روشنی میں انڈیکسیشن کے مسئلے پر بھی فیصلہ دے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے اس حکم کی پابندی نہیں کی اور اس انتہائی اہم معاملے پر فیصلہ دینے سے عملی طور پر اجتناب کیا ہے، چنانچہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی بنا پر وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ غیر آئینی اور متنازع ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اس مسئلے کے قانونی پہلوؤں اور معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں ان معاملات کے حتمی حل کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت کو اس معاملے پر فیصلہ دینے کے احکامات دیے تھے، چنانچہ وفاقی شرعی عدالت کو بیرونی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر، افراطِ زر کی شرح اور انڈیکسیشن کے اہم اور پیچیدہ نکات پر معاونت کے لیے اسلامی نظام معیشت و مالیات کے ماہرین کو طلب کرکے ان کی آراء حاصل کرنا چاہیے تھیں۔ واضح رہے کہ ان ماہرین کی گزارشات میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں کے ڈپازٹس، فنانسنگ اور سرمایہ کاری کی ایسی پراڈکٹس بھی زیربحث آتیں جن میں یا تو سود کی آمیزش ہوتی ہے یا وہ شرعی اصولوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کی بنا پر غیر اسلامی ہیں۔ چنانچہ وفاقی شرعی عدالت کے لیے اپنے فیصلے میں ان کی توثیق کرنا ممکن ہی نہ ہوتا جو بدقسمتی سے اُس نے کردی ہیں۔
(2)کراچی میں 30نومبر 2022 ء کو منعقدہ ایک سیمینار میں مفتی تقی عثمانی کی پیش کردہ متعدد قراردادیں متفقہ طور پر منظور کی گئی ہیں۔ اس سیمینار میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحٰق ڈار بھی موجود تھے۔ قرارداد نمبر ایک میں کہا گیا ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء، دینی تنظیموں اور تاجر برادری کا یہ نمائندہ اجتماع وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ قرارداد نمبر چار میں کہا گیا ہے کہ ”وفاقی شرعی عدالت میں اس وقت صرف دو جج ہیں اور کوئی عالم دین اس میں شامل نہیں۔“ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ ان دونوں عدالتوں (وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ) میں آئین کی شق 203 کے تحت علماء کی شمولیت ضروری ہے۔ واضح رہے کہ 28 اپریل 2022ء کو ربوٰ کے مقدمے اور فیصلے میں جو صاحب عالم حج کی حیثیت سے شامل تھے وہ آج بھی وفاقی شرعی عدالت میں عالم جج کی حیثیت سے موجود ہیں مگر تمام مکاتب فکر کے علماء، دینی تنظیموں اور تاجر برادری کے نمائندہ اجتماع میں مفتی تقی عثمانی کی پیش کردہ اور متفقہ طور پر منظور شدہ قرارداد میں ان کو عالم دین تسلیم نہیں کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سیمینار میں جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی بھی شریک تھیں۔
(3) وفاقی شرعی عدالت نے اپنے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں کے سود پر مبنی یا شریعت سے متصادم ڈپازٹس اور فنانسنگ وغیرہ کی پراڈکٹس کو بلاتحقیق شریعت کے مطابق قرار دیا ہے، چنانچہ یہ ازحد ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران ان پراڈکٹ کا باریک بینی سے جائزہ لے، خصوصی طور پر اسپیشل مشارکہ پول، کرنسی سلم، کموڈیٹی مرابحہ اور رننگ مشارکہ وغیرہ۔ اسٹیٹ بینک نے 2014ء میں جاری کردہ سرکلر لیٹر نمبر ۲ میں اسلامی بینکوں کو کرنسی سلم، یعنی کرنسیوں کی تاخیر یا مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر تبادلے کی اجازت دی ہوئی ہے، حالانکہ یہ ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے یہ احکامات اجماعِ امت کے خلاف ہیں۔ دُنیا بھر میں علماء اس امر پر متفق ہیں کہ جس طرح سونے اور چاندی کے درمیان تبادلہ دست بدست ہونا چاہیے، اسی طرح دو مختلف کرنسیوں کے درمیان تبادلہ بھی دست بدست ہونا چاہیے۔ چنانچہ اگر یہ تبادلہ تاخیر سے ہو، تو یہ ربوٰ ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے (28 اپریل 2022ء ) میں ربوٰ کی تین اقسام کا بھی ذکر کیا ہے، مثلاً گندم کا گندم سے تبادلہ اگر برابر نہ ہو اور دست بدست نہ ہو تو وہ ربوٰ ہے۔ اسی طرح گندم کا جو کے ساتھ مؤخر سپردگی کے ساتھ تبادلہ ربوٰ ہے۔ یہ اقسام اب دنیا میں رائج نہیں ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے بہرحال یہ نہیں بتلایا کہ اگر روپے اور ڈالر یعنی دو مختلف کرنسیوں کے درمیان تاخیر یعنی موخر سپردگی کی بنیاد پر تبادلہ ہو تو یہ بھی ربوٰ ہے۔ اس طرح کرنسی سلم کو عملاً سندِ جواز عطا کردیا گیا ہے، چنانچہ کرنسی سلم کے تحت اسلامی بینکوں میں سودی کاروبار فروغ پاتا رہے گا اور سودی کاروبار کی آمدنی سے اسلامی بینک اپنے کھاتہ داروں کو منافع دیتے رہیں گے، چنانچہ اسلامی بینکوں کے کھاتہ داروں کو جو منافع ملے گا اس میں سود کی آمیزش برقرار رہے گی۔
(4)اسلامی بینک نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر جمع کرائی گئی رقوم پر اپنے کھاتہ داروں کو منافع شرعی اصولوں کے مطابق نہیں دے رہے۔ ایک بینک کی جاری کردہ اسلامک بینکنگ آپریشنز کے شریعہ بورڈ کی رپورٹ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ کھاتہ داروں کو منافع اسٹیٹ بینک کی ہدایات کے مطابق دیا جارہا ہے، یعنی شرعی اصولوں کے مطابق نہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ اسلامی بینک درحقیقت سودی بینکوں کے مقابلے میں بھی کم شرح سے منافع دے رہے ہیں، جب کہ ایکویٹی کے تناسب سے اسلامی بینکوں کی اوسط سالانہ شرح منافع، سودی بینکوں کی اوسط سالانہ شرح منافع سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ دسمبر 2022ء میں پاکستان میں کام کرنے والے تمام سودی بینکوں نے اپنے کروڑوں بچت کھاتہ داروں کو ساڑھے چودہ فیصد سالانہ کی شرح سے منافع دیا تھا، جب کہ ملک میں کام کرنے والے سب سے بڑے اسلامی بینک نے اپنے بچت کھاتہ داروں کو دسمبر 2022ء میں صرف سات فیصد سالانہ کی شرح سے منافع دیا، یعنی سودی بینکوں کی شرح منافع کے نصف سے بھی کم۔ یہ سب ناانصافی اور استحصال کی واضح مثال ہے۔ اسلام میں سود کو حرام اس لیے بھی قرار دیا گیا ہے کہ یہ ظلم و ناانصافی کا سبب بنتا ہے (البقرہ:279)۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں اسلامی بینکوں کی اس پراڈکٹ کو شریعت کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔
معیشت سے سود کا خاتمہ
اگرچہ وفاقی شرعی عدالت نے پانچ برس کی مدت میں ملکی معیشت کو سود سے پاک کرکے اسے اسلامی نظام معیشت کے مطابق استوار کرنے کے احکامات دیے ہیں، لیکن اس کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے میں نہ تو ان متعدد متعلقہ قوانین کا پوری طرح احاطہ کیا گیا ہے جو شریعت سے مطابقت نہیں رکھتے، اور نہ ہی معیشت کو سود سے پاک کرنے کے ضمن میں حائل مشکلات و رکاوٹوں اور اُن کے حل کے ضمن میں کوئی فیصلہ صادر کیا ہے۔ اس سقم کا فائدہ اٹھاکر وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ 2027ء تک معیشت کو سود سے پاک کرنا ان کا ہدف ہے ہی نہیں۔ یعنی ایک طرف ملک میں سودی معیشت پروان چڑھتی رہے گی اور دوسری طرف اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے بینکاری کے نظام میں سود برقرار رہے گا۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے ممتاز علماء، مفتی صاحبان اور اسلامی نظامِ معیشت و مالیاتی امور کے ماہرین سودی نظام کے ظلم و استحصال اور تباہ کاریاں، اور اسلامی نظام معیشت و بینکاری کے ثمرات تفصیل سے بیان کرتے رہے ہیں۔ یہ بات بہرحال روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے پر عمل درآمد سے نہ تو ان تباہ کاریوں میں سے کسی ایک میں بھی معنی خیز کمی آئے گی، اور نہ ہی متوقع ثمرات میں سے کوئی ایک بھی ثمر حاصل ہوگا۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ نے اپنے 23 دسمبر 1999ء کے فیصلے میں کہا تھا کہ بلاسودی بینکاری کی اصل بنیاد نفع و نقصان کی تقسیم پر قائم ہوگی اور بینک کا بیشتر کاروبار شرکت یا مضاربت پر مبنی ہوگا۔ یہ بات نوٹ کرنا انتہائی اہم ہے کہ نفع و نقصان میں شراکت کی بنیاد پر ڈپازٹس کا حصول اور سرمائے کی فراہمی (فنانسنگ) سے افراطِ زر کے اثرات خودبخود جذب ہوجاتے ہیں۔ اب اسلامی بینکوں کا کاروبار عملاً شراکت کی بنیاد پر نہیں ہورہا، چنانچہ افراطِ زر اور انڈیکسیشن کے ضمن میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ کے حتمی فیصلے کے بغیر معیشت سے سود کے خاتمے کا مشن آگے بڑھایا ہی نہیں جاسکتا۔
اسلامی نظریاتی کونسل سے استدعا کا جواز
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے 228 ویں اجلاس منعقدہ مئی 2022ء میں وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے کی تحسین کی تھی اور یقین دلایا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل اس فیصلے پر مربوط عمل درآمد یقینی بنانے میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔ اس اجلاس میں بینکوں سے بھی درخواست کی گئی تھی کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل میں نہ جائیں۔ اس کے بعد کونسل کی جانب سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے تھے جن میں بینکوں سے کہا گیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ میں دائر اپنی اپیلیں واپس لے لیں۔ مندرجہ بالا حقائق اور گزارشات کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ اگر وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بینک کے دباؤ پر تمام اپیل کنندگان اپنی اپیلیں واپس لیتے ہیں، تو اُس سے بھی ایک سنگین صورت پیدا ہوجائے گی، کیونکہ اپنے فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے بغیر کسی تحقیق کے، اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں میں رائج ڈپازٹس، فنانسنگ اور سرمایہ کاری وغیرہ کی متعدد ایسی پراڈکٹس کو بھی شریعت کے مطابق قرار دیا ہے، جو شرعی اصولوں سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتیں، یا ان میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی متعدد فاش غلطیوں کو سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ کی جانب سے ٹھیک نہیں کیا جاتا، تو یہ دستورِ پاکستان کی شق 3اور 38 (ایف) کی بھی خلاف ورزی ہوگی اور آئندہ کئی عشروں تک پاکستان میں ایک نہ ختم ہونے والی عدالتی کشاکش کے زیر سایہ رائج الوقت سودی نظام معیشت و بینکاری پوری آب و تاب سے پھلتا پھولتا رہے گا۔ وفاقی شرعی عدالت نے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی بینکوں کی کوئی بھی پراڈکٹ شریعت کے مطابق نہیں ہے تو وہ کسی بھی وقت وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ خدشہ بھی ہے کہ آنے والے برسوں میں نیک نیتی یا بدنیتی سے کوئی بھی شخص یا ادارہ اسلامی بینکوں کی متعدد پراڈکٹس کو غیر اسلامی قرار دینے، اسلامی بینکوں کی جانب سے کھاتہ داروں کا استحصال کرتے چلے جانے، معیشت سے سود کے خاتمے کے ضمن میں متعلقہ قوانین کو غیر اسلامی قرار نہ دینے، افراطِ زر و انڈیکسیشن وغیرہ جیسے مسائل اٹھاکر، یا کسی اور متنازع معاملے کو جواز بناکر وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ اس مقدمہ کا فیصلہ آنے میں برس ہا برس لگ سکتے ہیں، جبکہ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل بھی دائر کی جاسکتی ہے تو کیوں نا ابھی یہ تمام مسائل سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ کو اپیلوں کی سماعت کے دوران ہی حل کرنے دیے جائیں، چنانچہ اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک کو بھی اپنی اپیلیں واپس لینے کی درخواستیں واپس لے لینی چاہئیں۔
تنبیہ
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار صاحب نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ”موجودہ حکومت وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کرنے کی پوری کوشش کرے گی“۔ اس کے تباہ کن مضمرات کا سوچ کر ہماری روح کانپ جاتی ہے کیونکہ اس سے ایک طرف اسلامی بینکاری کے نام پر سودی نظام فروغ پاتا رہے گا، اور دوسری طرف
یہ حقیقی خطرہ موجود رہے گا کہ اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے رائج اس نظام کو آگے چل کر شرعی عدالتیں غیر اسلامی اور سود پر مبنی قرار دے سکتی ہیں۔
استدعا
ہم اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے چیئرمین سے درخواست کریں گے کہ وہ مندرجہ بالا حقائق و گزارشات پر غور کریں اور ربوٰ کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے کے ضمن میں کونسل کے 228 ویں اجلاس میں اختیار کیے گئے موقف پر نظرثانی کریں، جس میں نہ صرف اس فیصلے کی تحسین کی گئی تھی بلکہ بینکوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر نہ کریں۔ ہم کونسل سے یہ استدعا بھی کریں گے کہ وہ وفاقی حکومت سے کہے کہ:
(1)وفاقی حکومت لازمی طور پر سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بینچ میں وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت ہونے دے تاکہ اس فیصلے کی غلطیوں، خرابیوں کو درست کیا جاسکے اور افراطِ زر و انڈیکسیشن کے مسئلے پر حتمی اور جامع فیصلہ صادر کیا جاسکے، وگرنہ آنے والے برس میں معیشت سے سود کے خاتمے اور اسلامی بینکاری کے شرعی اصولوں پر استوار ہونے کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکے گا اور اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے سودی نظام فروغ پاتا رہے گا۔
(2)وفاقی حکومت آئین کی شق 38 (ایف) میں ضروری اضافہ کرانے کے لیے اقدامات کرے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شق 38 (ایف) میں کہا گیا ہے ”ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ (معیشت سے) جلد از جلد ربوٰ کا خاتمہ کردیا جائے“ چنانچہ پارلیمنٹ کی منظوری سے اس شق میں یہ اضافہ کردیا جائے کہ ”سود ہر شکل میں ربوٰ کے زمرے میں آتا ہے“۔ اس کے بعد شرعی عدالتوں میں سود کے حرام نہ ہونے کا معاملہ زیربحث لایا ہی نہیں جاسکے گا۔
ہماری کونسل سے یہ استدعا بھی ہے کہ مہربانی فرما کر اپنے فیصلوں اور اقدامات سے قوم کو آگاہ رکھیں اور اگر ممکن ہو تو ہمیں بھی مطلع فرمائیں۔ اس ضمن میں ہم ہر قسم کی معاونت کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔
والسلام
آپ کا دینی بھائی
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
چیئرمین ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس، کراچی
130/1۔ اسٹریٹ نمبر9۹
آف خیابان مسلم، فیز 6، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کراچی