یہ کتاب ’’قاسم علی شاہ… ایک فرد ایک تحریک‘‘ تکنیکی اعتبار سے سوانح عمری تو نہیں ہے مگر کئی حوالوں سے اس سے ملتی جلتی ضرور ہے۔ اس کتاب میں زمانی یا تاریخی ترتیب سے قاسم علی شاہ کے حالاتِ زندگی تو نہیں ملتے مگر مضمون نگاروں نے کافی حد تک قاسم علی شاہ کی زندگی کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس سے قاری کو بہت حد تک قاسم علی شاہ کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں معلومات حاصل ہوسکتی ہیں۔
مزید برآں یہ کتاب بھی دراصل ایک موٹیویشنل کتاب ہے۔ اس کتاب میں قاسم علی شاہ کی اپنی پروفیشنل زندگی کی جدوجہد کے کئی پہلوئوں پر مختلف مضمون نگاروں نے روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ایک موٹیویشنل گرو (guru) جو لوگوں کو کامیابی کے گُر بتاتا ہے، اس نے خود کامیابی ایک جہدِ مسلسل کے بعد حاصل کی ہے۔ اس سفر کے شروع میں اُن کو کئی دفعہ ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا اور لوگوں کے منفی رویوں کو بھی برداشت کرنا پڑا۔
اس کتاب میں 86 مضامین، 93شذرات اور 7 اقتباسات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مضمون نگاروں کا تعلق تقریباً ہر شعبۂ زندگی سے ہے۔ روحانی شخصیات سے لے کر بیوروکریٹس تک، اور کالم نگاروں سے لے کر ادیبوں اور شاعروں تک تمام قسم کے لوگوں کے مضامین اس کتاب میں موجود ہیں۔ قاسم علی شاہ لاتعداد لوگوں کی زندگیاں مثبت انداز میں تبدیل کرچکے ہیں۔
کتاب کا ٹائٹل ’’قاسم علی شاہ… ایک فرد، ایک تحریک‘‘ ہے۔ یہ جملہ قاسم علی شاہ کی کامیابیوں اور کارناموں کا نچوڑ ہے۔ آخر میں ابوبکر ظہور صاحب کو داد دینا بہت ضروری ہے کہ انہوں نے تمام مضامین جمع کرکے قاسم علی شاہ کے چاہنے والوں اور عام قاری کے لیے اسے کتاب کی شکل دی ہے۔
کتاب ڈسٹ کور کے ساتھ سفید کاغذ پر بہترین اور خوب صورت پیش کی گئی ہے۔ کتاب کی قیمت زیادہ ہے جو عام قاری کی پہنچ سے دور ہے۔