دلدل میں پھنسا پاکستان:نااہل حکمران

ملکی حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ بہتری کے لیے غیر معمولی اقدامات ہی درکار ہیں

پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کواس وقت جہاں شدید اقتصادی اور سیاسی بحران کا سامنا ہے، وہیں دہشت گردی کی حالیہ لہر نے اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے، جس سے امن و امان کی صورت حال سے متعلق سنگین خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت گزشتہ ماہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں اس فیصلے پر پہنچی تھی کہ بات چیت سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، جس کے پیش نظر ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن چند ہفتوں بعد ہی 30 جنوری کو پشاور پولیس لائنز مسجد میں کیے جانے والے خودکش بم دھماکے نے ایک سو کے لگ بھگ قیمتی جانیں لے لیں، جس کے بعد اب ضروری ہوچکا ہے کہ ملک کے قومی اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر لاکر تمام مسائل اور چیلنجوں سے نمٹنے کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے سیکورٹی صورت حال سمیت تمام اہم قومی مسائل پر گفت و شنید اور اہم فیصلے کرنے کے لیے 10 فروری کو آل پارٹیز کانفرنس طلب کی ہے، انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو مدعو کیا ہے۔ اے پی سی میں دہشت گردوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

بلاشبہ پاکستان آج تاریخ کے سنگین ترین بحران کا سامنا کررہا ہے، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 10سال کی کم ترین سطح 3ارب ڈالر پر آگئے ہیں، جب کہ 4.5بلین ڈالر سعودی عرب اور چین نے ہمیں محفوظ رکھنے کے لیے دیے تھے، مارچ 2023ء تک تقریباً 8بلین ڈالر کے قرضوں کی مزید ادائیگی کرنی ہے۔ پاکستان کو سیلاب سے ہونے والے 30 ارب ڈالر کے نقصان کے بعد آئی ایم ایف کو سخت شرائط عائد کرنے کے بجائے ملکی حالت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 7 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے نویں جائزے میں تاخیر کی وجہ سے پاکستان کو معاشی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کو جلد حتمی شکل دی جانی چاہیے تھی مگر اس میں تھوڑا زیادہ وقت لگا ہے۔ آئی ایم ایف کو بھی اس بات کا احساس ہوگا کہ پروگرام کو حتمی شکل دینے یا پروگرام پر نظرثانی میں تاخیر سے مارکیٹوں میں مزید غیر یقینی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ امید ہے کہ جائزہ مکمل ہوتے ہی آئی ایم ایف پروگرام کو حتمی شکل دے دی جائے گی جس کے بعد تمام کثیر جہتی رقوم آنا شروع ہوجائیں گی جو پروگرام کے بارے میں غیر یقینی صورتِ حال کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔ اگلے دو مہینوں یا شاید ایک سال میں صورتِ حال تبدیل ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف ماضی کے وعدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے کترا رہا تھا کہ زرمبادلہ کی شدید کمی کے باوجود حکومت بیرونِ ملک سے پُرتعیش اشیاء کے علاوہ تمباکو اور بلیوں کی خوراک تک درآمد کررہی ہے۔ پچھلے چھے مہینوں میں بڑی تعداد میں لگژری گاڑیاں درآمدکی گئی ہیں، حسن و آرائش کا سامان اور دیگر سامانِ تعیش کی درآمد بھی جاری ہے۔ ان حالات میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ تمام غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگائی جاتی یا ٹیکس کی شرح بڑھائی جاتی۔ ملکی معیشت بہتر کرنے کے لیے غیر ملکی قرضوں پر انحصارختم اور اخراجات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون سازی کے ذریعے اس بات کو لازمی بنایا جائے کہ قانونی لین دین سے پہلے جائداد، حصص، کاروں یا کسی بھی دوسرے اثاثوں کی تمام فروخت اور خریداری تفصیلات میں شفافیت لا ئی جائے۔ پاکستان کے قرضوں میں ڈوبنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اربوں ڈالر کے غیر قانونی اثاثے بیرونِ ملک پڑے ہیں، ملک کی ترقی کی راہیں کھولنے کا اہم قدم تعلیم، سائنس اور جدت طرازی ہے جس کو ترجیح دینی چاہیے۔ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 200روپے تک محدود رکھی جائے گی، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائی جائیں گی، منی بجٹ نہیں آئے گا، نئے ٹیکس نہیں لگائیں گے، ایکسپورٹ صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے رعایتی نرخ جاری رہیں گے اور بجلی، گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ لیکن آئی ایم ایف اپنی شرائط منوائے بغیر معاہدے کی بحالی کے مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھا۔ آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی کے باعث ڈونرز ایجنسیوں، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کے لیے نئی فنانسنگ روک دی اور مالی امداد کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی سے مشروط کردیا جس کی وجہ سے ملک میں ڈالر آنے کے تمام دروازے بند ہوگئے لیکن بیرونِ ملک ڈالر جانے کے دروازے کھلے رہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں مسلسل ہورہی ہیں اور رواں مالی سال 2.8 ارب ڈالر کی مزید ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے نتیجے میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 10سال کی کم ترین سطح 3 ارب ڈالر پر آگئے ہیں۔ پاکستانی روپیہ خطے کی کرنسیوں میں سب سے کمزور ثابت ہوا ہے۔ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے 30روپے فرق کی وجہ سے پاکستان کی ترسیلات ِزر میں کمی ہوئی ہے کیونکہ بیرونِ ملک مقیم کچھ پاکستانیوں نے اتنے زیادہ فرق سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی ترسیلات ِزر ہنڈی یا حوالے کے ذریعے پاکستان بھیجنے کو ترجیح دی۔ 6 مہینے کے ریونیو ہدف میں 217 ارب روپے کی کمی ہوئی۔معاشی بحران کو دیکھتے ہوئے بالآخر حکومت نے آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کی ہامی بھرلی۔ حکومت نے روپے کی قدر کے مصنوعی نظام کو ترک کرکے مارکیٹ کو فری فلوٹ نظام پر چھوڑ دیا جس کی وجہ سے انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں ریکارڈ 50روپے یعنی 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے ایک دن میں بیرونی قرضوں میں تقریباً 2800 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک نے افراطِ زر کنٹرول کرنے کے لیے پالیسی ریٹ مزید بڑھاکر 17فیصد کردیا جس سے بینکوں کا شرح سود 19 سے 20 فیصد تک ہوگیا۔ حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 35 روپے فی لیٹر کا اضافہ کردیا جس سے مہنگائی گزشتہ پچاس سال کے مقابلے میں ریکارڈ 28 فیصد تک پہنچ گئی، جس کے مستقبل قریب میں 32 فیصد ہونے کی توقع ہے کیونکہ آئی ایم ایف پیٹرولیم مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس اور 10 روپے فی لیٹر PDL بھی عائد کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔ یوں پیٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر ٹیکس ایمنسٹی کا اعلان کیا جس پر آئی ایم ایف نے معاہدہ معطل کردیا، تاہم پی ڈی ایم حکومت نے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی توآئی ایم ایف کی مذاکراتی ٹیم پاکستان آئی اور آرڈیننس اور منی بجٹ کے ذریعے اضافی ٹیکسز لگانے، گردشی قرضے کم کرنے کے لیے بجلی کے نرخوں میں 12.50 روپے فی یونٹ اور گیس کے نرخوں میں 74فیصد اضافے، 283ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی، ادویہ اور LPG کی قیمتوں میں 60روپے فی کلو اضافے، بیوروکریسی کے اثاثوں کی تفصیلات اور 2017ء کے بے نامی ٹرانزیکشنزایکٹ پر عمل درآمد جیسی شرائط پیش کیں اور سیلاب متاثرین کے لیے 500 ارب روپے کے اخراجات کی اجازت دی۔ جواب میں حکومت نے پہلے مرحلے میں بجلی کے نرخ میں 6.32 روپے فی یونٹ اضافے اور 300 یونٹ تک سبسڈی ختم کرنے کی تجویز دی ہے۔آئی ایم ایف بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے 600ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پرزور دے رہا ہے مگر حکومت پہلے مرحلے میں 200ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگانے پر آمادہ ہے۔ حکومت نے گردشی قرضے کم کرنے کے لیے سرکلرڈیٹ مینجمنٹ پلان پیش کیا ہے لیکن آئی ایم ایف کو حکومتی مینجمنٹ پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ حکومت معاہدے کی بحالی کے لیے دوست ممالک سے 4 سے 5 ارب ڈالر کے نئے سافٹ ڈپازٹس کے لیے بھی کوشاں ہے تاکہ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین تعطل ختم اور اسٹاف لیول معاہدہ کیا جاسکے۔ اگر حکومت نے تمام شرائط تسلیم کرکے معاہدہ کیا تو ملک میں مہنگائی کا طوفان کھڑا ہوجائے گا، لیکن حکومت کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ حالیہ مذاکرات میں عالمی مالیاتی ادارے نے ٹیکس لگانے کا نہیں بلکہ بڑھانے کا کہا ہے اور ہم تیار ہوگئے ہیں۔ بہت جلد 300 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں۔ حکومت نے آئی ایم ایف کو ریونیو بڑھانے، گردشی قرضے میں کمی اور معاشی و توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ساتھ توانائی کے استعمال اور مالی کفایت شعاری کے ذریعے اخراجات میں کمی کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔

پوری قوم حکمران اشرافیہ کے فیصلوں کے باعث ایک ایسی دلدل میں اتر چکی ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ ایک دھڑے کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم حکومت ملکی مسائل کی ذمہ دار ہے، اور تحریکِ انصاف ہی ملک کو مشکل سے نکال سکتی ہے۔ دوسرے دھڑے کا مؤقف ہے کہ تحریکِ انصاف حکومت کے فیصلے ملکی مسائل کی اصل جڑ ہیں، اس کے ساڑھے تین سال دیکھ لیے ہیں، اب اسے موقع نہیں ملنا چاہیے۔ تیسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تمام برائیوں کی ذمے دارہے۔اس وقت تین بیانیے ہیں جنہیں بیانیے کم، خودپسندی اور خود ستائشی کانام دینا زیادہ مناسب ہے، اوریہ غیر متوازن بیانیے ہیں، جو سب مفروضوں پر مبنی ہیں۔ تحریکِ انصاف کہتی ہے کہ اس کی حکومت نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ روک کر مہنگائی کنٹرول کی اور ترقی کی شرح میں اضافہ کیا۔ لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ ان تین برسوں میں غیر ملکی قرض اس قدر بڑھ گیا کہ اب اپنی انتہائوں کو چھو رہا ہے، جب کہ بھاشن یہ دیا تھا کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد قرض لینا پڑا تو خودکشی کرلوں گا۔ ایف بی آر میں اصلاحات لائے بغیر تبدیلی ممکن نہیں ہے، نہ معیشت پٹری پہ چڑھ سکتی ہے۔

ملکی حالات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ بہتری کے لیے غیر معمولی اقدامات ہی درکار ہیں۔ ملک کے اس معاشی منظرنامے میں حکومت آئی ایم ایف سے بات چیت کررہی ہے اور کل جماعتی کانفرنس بھی طلب کی ہے، جس میں فوجی قیادت بھی شریک ہوگی، اس لیے تحریک انصاف کی قیادت بھی اس میں شریک ہونے متمنی ہے، اگر اس نے کوئی غلطی کی تو ملک میں سیاسی طور پر تنہا ہوجائے گی۔ آئی ایم ایف بھی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ جو بھی معاہدہ کیا جائے ملک کی سیاسی قیادت اس معاہدے کی پشت پر کھڑی ہو۔ اگرچہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضے کی قسط بمشکل سنبھالا دے پائے گی، تاہم اس معاہدے کے بعد حکومت دیگر ذرائع سے قرضوں اور امداد کی وصولی کے قابل ہوجائے گی۔

آئی ایم ایف کی ٹیم اور حکومت کے درمیان پہلے مرحلے میں تکنیکی مذاکرات ہوئے، اگلے مرحلے میں پالیسی مذاکرات ہوئے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم نے مہنگائی 30 فیصد سے بڑھنے کا امکان ظاہر کیا ہے اورایف بی آر سے ٹیکس جمع کرنے میں اضافے کی بھی شرائط رکھی ہیں جن میں ٹیکس اور نان ٹیکس محاذ پر سخت ترین فیصلے شامل ہیں۔ سب سے مشکل مطالبہ بجلی کے لائف لائن یعنی 300 یونٹ سے کم خرچ کرنے والے صارفین کا استثنیٰ ختم کرنا ہے۔ آئی ایم ایف یونٹوں کی حد 200پر لانے کو بھی تیار نہیں، اس کا مؤقف ہے کہ گردشی قرضہ جو 29کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، اسے ختم کرنا ضروری ہے، لیکن اسی اثناء میں لاہور ہائی کورٹ نے ایک فیصلہ دیا ہے کہ سبسڈی پانچ سو یونٹ تک کے صارفین کو دی جائے۔بے روزگاری ختم کرنی ہے اور دنیا میں اپنے آپ کو منوانا ہے تو یہ ہمارے پاس آخری موقع ہے۔