بہار کے پہلے پھول تعزیتی حاشیے

عام لوگ ہی نہیں، بسا اوقات صاحبانِ علم و فضل بھی مغالطے کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک مغالطے کا اظہار اردو کے معروف اور صاحبِ طرز ادیب اور ممتاز بیوروکریٹ جناب مختار مسعود نے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’بڑے لوگ کتابوں میں ہی ملتے ہیں، عملی زندگی میں نہیں۔‘‘ وہ بڑے لوگ جو بقول مختار مسعود مرحوم ’’کتابوں میں ملتے ہیں‘‘، آخر ایک وقت عملی زندگی میں بھی تو موجود ہوا کرتے تھے۔ اللہ کی زمین بھلے اور بڑے لوگوں سے کبھی خالی نہیں رہی، ہر زمانے اور ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہتے ہیں، البتہ انہیں پہچاننے کے لیے صاحبِ نظر ہونا ضروری ہے۔ سید مودودیؒ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ کی ملاقات کسی ولی اللہ سے ہوئی ہے؟ مولانا نے فرمایا: ’’جی ہاں، ابھی چند روز کی بات ہے کہ ایک ولی سے ملاقات ہوئی تھی۔ پھر اس کی تفصیل بتاتے ہوئے سید صاحب کہنے لگے کہ ریل کے ایک سفر کے دوران جب میں اپنی منزل پر پہنچا تو معمول کے مطابق قلی حضرات کا جمگھٹا لگ گیا، ہر قلی گاہک کے حصول میں بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگیا۔ میں اپنی نشست پر بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ مسافر اتر جائیں تو آخر میں سکون کے ساتھ اترجائوں۔ اسی دوران کھڑکی سے میری نظر ایک قلی صاحب پر پڑی جو پلیٹ فارم کے ایک کونے میں اپنے ساتھی قلیوں کی بھاگ دوڑ سے بے نیاز، سکون کے ساتھ نماز کی ادائیگی میں مصروف تھے۔ اِدھر ان کی نماز مکمل ہوئی، اُدھر ریل مسافروں سے خالی ہوگئی۔ میں اکیلا مسافر ٹرین میں رہ گیا۔ وہ قلی صاحب میری طرف تشریف لائے اور میری درخواست پر میرا سامان اٹھا کر باہر تک پہنچایا۔ میں نے ان کی خدمت میں ایک روپیہ پیش کیا۔ انہوں نے چند آنے کاٹ کر بقیہ رقم مجھے واپس کردی۔ میں نے بہتیری کوشش کی کہ وہ پورا روپیہ رکھ لیں لیکن ان کا جواب یہ تھا کہ میں اپنے حقِ خدمت سے ایک دھیلہ زائد نہیں لیتا۔‘‘ ایسے بڑے لوگ کم سہی لیکن معاشرے میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں، بشرطیکہ انہیں پہچاننے اور قدر کرنے کی کوشش کی جائے۔ جیلانیؒ بی۔ اے کی یہ کتاب ایسے ہی بڑے لوگوں کے تذکرے پر مشتمل ہے، جو مختار مسعود مرحوم کے عرصہ حیات میں عملی زندگی میں موجود رہے، اور اب کتابوں میں موجود ہیں۔

سید مودودیؒ جب اقامتِ دین کی دعوت لے کر اٹھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے خلوص میں وہ برکت ڈال دی کہ ہندوستان کے طول و عرض سے سعید روحیں پروانوں کی طرح ان کی پکار پر دل و جان سے لبیک کہتی ہوئی ان کے گرد جمع ہوگئیں۔ یہ کتاب اسی قافلے کے روشن ستاروں کے تعزیت ناموں پر مشتمل ہے۔ چودھری غلام جیلانیؒ خود بھی اسی قافلے کا ایک روشن ستارہ تھے۔ انہوں نے تحریکِ اسلامی کے اوائل دنوں کے روشن ستاروں کا ذکر ’’بہار کے پہلے پھول‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا ہے۔ بہار کے پہلے پھول سے مراد وہ لوگ ہیں جو ابتدائی دور میں تحریکِ اسلامی کا حصہ بنے، جنہوں نے اپنے کردار و عمل اور مثالی قربانیوں سے تحریک کو نکھارا۔ یہ سعید روحیں تحریکِ اسلامی کی اوّلین بہار کے وہ پھول تھے جو حسن اور خوشبو دونوں اعتبار سے اپنی مثال آپ تھے۔ جن لوگوں نے اقامتِ دین کے اس پہلے قافلے کو مرتب کیا تھا، ان کا عالم ہی کچھ اور تھا… اوریہ بھی حقیقت ہے کہ اس فصلِ بہار کے ابتدائی پھولوں کا مقابلہ کسی بھی طرح اس کے آخری پھولوں سے نہیں ہوسکتا۔ ان کی خوشبو، تازگی، نکہت اور رعنائی مثالی تھی، بعد کے دور میں ان صفات کے حامل لوگ کم دکھائی دیتے ہیں۔ چودھری صاحب نے ان بیش بہا یادوں کو صفحات پر منتقل کرکے تحریکِ اسلامی کی آئندہ نسل کے لیے نشاناتِ منزل کو محفوظ کردیا ہے۔ یہ نشانات منزل تک پہنچنے میں مشعلِ راہ کا کام دینے کے ساتھ ساتھ منزل تک پہنچنے کا حوصلہ بھی فراہم کرتے ہیں۔

ہماشما تو خیر کس کھیت کی مولی ہیں، دل غمگین ہو تو بڑے بڑے خطیبوں کی زبانیں گنگ ہوکر رہ جاتی ہیں اور بڑے بڑے لکھاریوں کے قلم منجمد ہوجاتے ہیں۔ آج ایسی ہی کیفیت کا ہمیں بھی سامنا ہے۔ کتاب ’’بہار کے پہلے پھول‘‘ ہاتھ میں ہے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ نہ کتاب دھری جاتی ہے، نہ مسلسل پڑھی جاتی ہے۔ کچھ دیر پڑھنے کے بعد آنسوئوں کی روانی روک بن جاتی ہے تو پڑھنا موقوف کرنا پڑتا ہے۔ یوں پڑھنا اور رونا، دونوں کیفیتوں کے ساتھ یہ کتاب پڑھی گئی۔ یہ کتاب کیا ہے؟ تاریخ ہے، ادبی شہ پارہ ہے، اور اقامتِ دین کے جذبے کو مہمیز کرنے کا ذریعہ ہے، اس کے ساتھ ساتھ رحلت کر جانے والی محبوب ہستیوں اور ان کے کارناموں کو یاد رکھنے کا ذریعہ بھی۔

ہم اپنے رفتگان کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیں
بہت رونق تھی ان کے دم قدم سے شہرِ جاں میں
وہی رونق ہم ان کے بعد رکھنا چاہتے ہیں

چودھری غلام جیلانی صاحب دردمند دل کے مالک تھے، ان کی پہلی اور آخری محبت تحریکِ اسلامی تھی، ان کی زندگی اور حیات دونوں کا واحد عنوان تحریکِ اسلامی تھا۔جماعت کے اوّلین لوگوں میں جب اُن کا کوئی ساتھی رخصت ہوجاتا تو ان پر غم کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی، ان تعزیتی حاشیوں کے ذریعے انہوں نے اپنے قاری کو بھی شریکِ غم کیا ہے اور اپنے محبوب ساتھیوں کی شخصیات اور ان کے اوصاف کو زندہ رکھنے کا اہتمام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس مساعی کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور انہیں جنت میں اعلیٰ درجات عطا فرمائے۔

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ادبیت اور اثرانگیزی کے اعتبار سے ’’بہار کے پہلے پھول‘‘ وفیات نگاری میں سرفہرست ہے اور اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے۔ چودھری غلام جیلانیؒ اردو کے علاوہ انگریزی، روسی اور فرانسیسی ادب سے گہری ممارست رکھتے تھے۔ تینوں زبانوں کے ادبِ عالیہ کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہوگی جو ان کی نظر سے رہ گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا مطالعہ بہت وسیع اور قوتِ ابلاغ انتہائی مؤثر ہے۔ زبان اور بیان پر ان کی گرفت مثالی ہے۔ ان کی نثر ادبی نثر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔

وفیات نگاری کی ابتدا کا سہرا مسلمانوں کے سر ہے۔ اس فن کی ابتدا عربی زبان سے ہوئی۔ اس کے بعد فارسی، ترکی اور انگریزی زبانوں میں بھی اس کی تاریخ پرانی ہے۔ اردو زبان میں یہ صنف نووارد ہے۔ بیسویں صدی میں وفیات کا آغاز ’’آسودگانِ ڈھاکہ‘‘(طبع 1946ء )سے ہوا، اس کے بعد سید سلیمان ندوی کی ’’یادِ رفتگان‘‘، سید صباح الدین عبدالرحمن کی ’’بزم رفتگان‘‘، عبدالماجد دریا بادی کی ’’وفیاتِ ماجدی‘‘، ماہر القادری کی ’’یادِ رفتگان‘‘، ہندوستان میں بشارت علی خان کی ’’وفیاتِ مشاہیر اردو‘‘ اور مالک رام کی کتاب ’’معاصرین‘‘ وفیات نگاری کے باب میں سرفہرست ہیں۔

’’بہار کے پہلے پھول‘‘ اس ذخیرے میں ایک نیا اور توانا اضافہ ہے۔ خالص ادبی معیار پر جانچا جائے تو یہ کتاب وفیات نگاری پرموجود کتابوں میں سرفہرست شمار ہوگی۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ کتاب جن کے لیے لکھی گئی تھی ، ان کی غفلت اور عدم توجہی کے باعث یہ بیش بہا تحریر کتاب خواں حلقے میں متعارف نہ ہوسکنے کے سبب گدڑی میں چھپے لعل کا مصداق بن کر رہ گئی۔

میاں طفیل محمدؒ نے زیرنظر مجموعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’میرے خیال میں یہ پہلی کتاب ہے جس میں تحریکِ اسلامی سے متعلق اس قدر زیادہ شخصیات پر لکھا گیا ہے… میں امید کرتا ہوں کہ یہ بامقصد کتاب اہلِ علم میں بالعموم اور تحریک ِاسلامی کے کارکنان میں بالخصوص مقبولیت حاصل کرے گی‘‘۔ لیکن اس کا کیا کیاجائے کہ اس میراث کے حاملین ایسی غفلت اور بے قدری میں مبتلا ہیں کہ ان کے حلقے میں یہ کتاب اجنبی بن کر رہ گئی ہے۔ تحریکی مکتبوں پر یہ کتاب کہیں دستیاب نہیں۔ 1992ء میں یہ صرف ایک ہزار کی تعداد میں چھپنے والی کتاب تھی، آج 20برس بعد بھی ناشر کے اسٹاک میں موجود ہے۔ اس سے زیادہ ناقدری اور کیاہوسکتی ہے!جس طرح اکابرپرستی ایک مہلک مرض ہے، اسی طرح اکابر فراموشی بھی کچھ کم مہلک نہیں۔ فرد ہو یا اجتماعیت… اگر اپنی تاریخ اور اکابرین کو بھلا بیٹھیں تو جلد یا بدیر اپنی شناخت گم کر بیٹھتے ہیں۔ ایسی کتب سے بے اعتنائی اکابر فراموشی کا ایک مظہر ہے۔ ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں ہم اکابر فراموشی کی راہ پر تو نہیں چل نکلے ہیں! تحریک ِاسلامی سے منسلک ہر فرد کو ایسی کتب لازماً پڑھتے رہنا چاہیے۔ حیاتِ سعدی کے دیباچہ میں مولانا حالیؔ نے لکھا ہے کہ سوانح عمری علمِ اخلاق کی نسبت ایک اعتبار سے زیادہ سودمند ہے، کیوں کہ علمِ اخلاق سے صرف نیکی اور بدی کی ماہیت معلوم ہوتی ہے اور (بائیوگرافی) سوانحی حالات سے اکثر نیکی کرنے کی اور بدی سے بچنے کی نہایت زبردست تحریک پیدا ہوتی ہے۔ ’’بہار کے پہلے پھول ‘‘ ایک ایسی ہی کتاب ہے جسے پڑھنے کے بعد تحریکی شعور اور تحریکی کام کرنے کا داعیہ مضبوط ہوتا ہے۔

اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کامطالعہ لازمی کرنا چاہیے۔ یہ کتاب مکتبہ علوم اسلامیہ (0213-2213245) برنس روڈ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ کتاب اگر عام لوگوں کو تحفۃ ً دی جائے تو دعوت کے کام میں نہایت معاون ثابت ہوگی۔