وزیر خزانہ کی برطرفی اور نئی برطانوی ریاست کے خدوخال
برطانیہ میں حکومت اور معیشت دونوں کی ابتری تاحال ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ سابق وزیراعظم لزٹرس جو کہ بورس جانسن کے مستعفی ہونے کے بعد کنزرویٹو پارٹی کی قائد کے طور پر سامنے آئی تھیں محض 44 دن اپنے عہدے پر کام کرسکیں۔ وزیر خزانہ کوزی کورٹنگ کی معاشی پالیسیوں پر شدید تنقید کے بعد گوکہ انہوں نے وزیر خزانہ کو برطرف کردیا، لیکن یہ برطرفی بھی ان کو عہدے پر برقرار رکھنے میں مدد نہ دے سکی اور وہ شدید دباؤ اور تنقید کے بعد بالآخر مستعفی ہوگئیں۔ اس کے بعد کنزرویٹو پارٹی نے نئے قائدِ ایوان کے طور پر بھارتی نژاد متمول سیاست دان رشی سونک کا انتخاب کیا، لیکن ابھی اُن کو تین ماہ کا مختصر عرصہ ہی گزرا ہے کہ برطانیہ میں بلند ترین شرحِ مہنگائی نے اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتالوں پر مجبور کردیا۔ برطانوی رائل کالج آف نرسنگ کی سو سالہ تاریخ میں پہلی بار نرسوں نے ہڑتال کی کال دی جو کہ بہت کامیاب رہی۔ تادم تحریر ایمبولینس کے عملے سے لے کر اساتذہ، ریلوے ملازمین، ائرپورٹ ملازمین، امیگریشن کے عملے سے ہوتا ہوا احتجاج کا سلسلہ اب فائر سروسز تک پہنچ چکا ہے، اور فائر سروس کے ملازمین نے بھی ہڑتال کا عندیہ دے دیا ہے۔ اس وقت کوئی بھی طبقہ حکومت کی جانب سے کیے گئے وعدے پر ہڑتال ختم یا موخر کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اس بحرانی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے حکومت کے پاس بھی بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا، کیونکہ بڑھتی مہنگائی نے اب معاشی ابتری کی سنگین صورت اختیار کرلی ہے۔ تمام اداروں کے ملازمین کا مطالبہ ہے کہ مہنگائی کی شرح سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے، جو کہ حکومت تاحال نہیں کررہی، جس کی وجہ سے آئے روز کی ہڑتالوں سے معیشت اور معاشرے کو بھی سنگین خطرات درپیش ہیں۔ برطانیہ میں مہنگائی کی موجودہ شرح 9 فیصد کے قریب ہے اور ہڑتالی ملازمین مہنگائی کی شرح سے تنخواہوں میں 5 تا 7 فیصد اضافے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
ابھی یہ صورتِ حال جاری ہے کہ اب حکومت پر شدید دباؤ اسکینڈلز کی صورت میں آرہا ہے۔ پہلے وزیراعظم رشی سونک اور ان کی اہلیہ کے بارے میں میڈیا رپورٹس شائع ہوئیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے ٹیکس کی رقم بچانے کے لیے اپنے سرمائے کو بیرونِ ملک رکھا ہوا ہے۔ اس ضمن میں برطانوی میڈیا بہت سرگرم رہا۔ اس کے بعد اب مزید ایک اور بحران کا سامنا حکومت اور کنزرویٹو پارٹی کو ہے۔ اب وزیر خزانہ اور کنزرویٹو پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے چیئرمین ندیم ظہاوی کے خلاف ٹیکس ریونیو ڈپارٹمنٹ کی جانب سے عائد کردہ جرمانے کو بنیاد بناکر وزیراعظم رشی سونک نے اُن کو وزارت اور پارلیمانی پارٹی کے چیئرمین کے عہدے سے بھی فارغ کردیا۔ اور یوں وہ مسلسل دوسرے وزیر خزانہ بن گئے جو عہدے سے محض چند دنوں میں ہی فارغ کردیے گئے۔ ندیم ظہاوی پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنی تقریباً 5 ملین پاؤنڈ کی آمدن کو ٹیکس حکام سے چھپایا اور اس پر اُن کو جرمانہ عائد کیا گیا۔ لیکن برطانوی قانون کے تحت وزیر کے اخلاقی اصولوں کے تحت ان کو یہ بات وزیراعظم کو بتانی چاہیے تھی۔ تاہم ندیم ظہاوی کا کہنا ہے کہ ان کو وزیراعظم نے اس ضمن میں اپنے دفاع کا حق دیے بغیر محض میڈیا کے دباؤ پر فارغ کردیا۔ میڈیا نے اس پر ایک طوفان اٹھایا ہوا تھا کہ ندیم ظہاوی نے ٹیکس حکام کی جانب سے طلبی اور اس کے بعد اِس ضمن میں عائد جرمانہ ادا کرنے کے باوجود اس کو وزیراعظم اور عوام کو کیوں نہیں بتایا۔ واضح رہے کہ ٹیکس کی مد میں کم ادائیگی یا پھر اثاثوں کی غلط مالیت کی بنیاد پر ٹیکس حکام فیصلہ کرتے ہیں کہ آیا یہ سنگین جرم ہے یا محض ایک غلطی ہے۔ اگر ٹیکس حکام سمجھتے ہیں کہ جان بوجھ کر اس میں غلط یا گمراہ کن معلومات کو ظاہر کیا گیا ہے تو اس پر باقاعدہ کارروائی ہوتی ہے جس کا انجام نااہلی بھی ہے، تاہم کیونکہ ندیم ظہاوی کا کیس ٹیکس حکام کی نظر میں سنگین نہیں تھا تو انہوں نے اس پر محض جرمانہ عائد کیا۔ اسی وجہ سے ندیم ظہاوی کی پارلیمانی رکنیت بھی تاحال برقرار ہے، لیکن میڈیا نے جو پروپیگنڈہ کیا اس میں لگتا تو یہ تھا کہ ندیم ظہاوی سنگین ترین جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، اور وزیراعظم رشی سونک نے بھی محض چند دن میں ہی اس دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
ندیم ظہاوی ایک عرب نژاد برطانوی سیاست دان ہیں اور وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز رہنے سے قبل بھی وہ بورس جانسن کے ساتھ بطور وزیر تعلیم کام کرچکے ہیں۔ اُن کا شمار اِس وقت کنزرویٹو پارٹی کے سرکردہ افراد میں ہوتا ہے۔ تاہم اس متنازع فیصلے کے باوجود ندیم نے کہا ہے کہ وہ بطور رکن، پارلیمان میں کنزرویٹو پارٹی کی حمایت جاری رکھیں گے۔
ایک اور کیس بھی ابھی کنزرویٹو پارٹی کے نائب وزیراعظم ڈومنک روب کا زیر التوا ہے جس میں اُن پر Bullying کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اس وقت چار ماہ میں تین وزیراعظم کے ساتھ کام کرنے والی کنزرویٹو پارٹی شدید مشکلات کا شکار ہے اور لگتا یہ ہے کہ اب میڈیا کی تمام نظریں کنزرویٹو پارٹی پر مرکوز ہیں اور پارٹی آئے دن نئے اسکینڈلوں میں پھنستی نظر آرہی ہے۔ اس سے قبل دورانِ کورونا بھی کنزرویٹو پارٹی کی رکنِ پارلیمان پر حفاظتی لباس کے ٹھیکوں سے اپنے خاندان کو فائدہ پہنچانے کا الزام عائد کیا جاچکا ہے۔
برطانیہ میں اس وقت معاشی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام نے عوام کی مشکلات میں اضافہ دوچند کردیا ہے۔ گوکہ یہاں پر بظاہر سکون ہے لیکن عوام کی مشکلات اور معاشی ابتری مزید دو سال تک جاری رہنے کے حکومتی اعلانات کے بعد اب صورتِ حال سنگین ہے۔ حکومت نے عوام کو اس سے نمٹنے کے لیے کچھ ریلیف دیا ہے، لیکن یہ بھی اس مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ بجلی اور گیس کے بل عوام کی ایک بڑی تعداد کی پہنچ سے باہر ہیں جس کی وجہ سے وہ اس شدید سردی میں بھی ہیٹر کا استعمال کم سے کم کررہے ہیں۔ دوسری جانب خوراک اور بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی قوتِ خرید کو مزید محدود کردیا ہے۔ اشیائے ضرورت کے حوالے سے اب اسٹوروں پر بھی ایک محدود تعداد سے زیادہ کوئی شے خریدنے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔
برطانوی معیشت کی ابتری بہت سنگین ہے۔ ایک جانب قوتِ خرید کم ہورہی ہے تو دوسری جانب ان ہڑتالوں کے باعث عوام کا ریاست اور اس کی خدمات پر اعتماد بھی کم ہوتا جارہا ہے۔ صحت اس وقت سب سے زیادہ متاثر شعبہ ہے کہ جہاں اس وقت بھی سرکاری اسپتالوں میں سرجری کے لیے مہینوں انتظار کرنا پڑرہا ہے اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس کے لیے نجی اسپتالوں یا بیرونِ ملک روانہ ہورہی ہے۔ ایمبولینس عملے، صحت سے متعلق عملے اور نرسوں کی شدید قلّت نے صورتِ حال کو مزید گمبھیر بنادیا ہے۔
اس وقت برطانیہ کا نظامِ صحت جزوی طور پر بیٹھ چکا ہے جس کا اعلان حکومت کی جانب سے بھی کیا جاچکا ہے اور اس کی بحالی کی حکمتِ عملی بھی مرتب کی جارہی ہے، تاہم سرکاری اسپتالوں میں طویل انتظار کی فہرست کو کم کرنے کے لیے اب حکومت اپنے خرچ پر بھی نجی اسپتالوں میں علاج کروا رہی ہے جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ عمل بتدریج نظامِ صحت کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی کوشش ہے۔
برطانوی وزیراعظم رشی سونک خود بھی سرکاری نظام صحت پر عدم اعتماد کی واضح مثال ہیں کیونکہ وہ ایک نجی کلینک کے پاس بطور مریض رجسٹرڈ ہیں۔ اس تمام صورتِ حال میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ برطانیہ کا معاشی بحران کب ختم ہوگا اور کتنے سنگین اثرات یہ برطانوی معاشرے پر چھوڑے گا، تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس عرصے میں برطانوی ریاست، معاشرے اور سیاست کا رخ بڑی حد تک تبدیل ہوجائے گا، اور شاید گزرتے دنوں کے ساتھ برطانیہ کا بطور ایک فلاحی ریاست تصور مکمل یا جزوی طور پر ختم ہوجائے، جس کے بعد ایک نیا برطانیہ مکمل یا جزوی طور پر سرمایہ دارانہ ریاست کے طور پر سامنے آئے گا۔ اس نئے سرمایہ دارانہ نظام ِریاست کے خدوخال گو کہ واضح ہیں لیکن فلاحی ریاست سے ایک سرمایہ دارانہ ریاست کی جانب مراجعت سے برطانوی معاشرے پر ایک دباؤ آئے گا جوکہ شاید ریاست پر سے عوام کے اعتماد کو مزید مجروح کرنے کا باعث بن جائے۔