کشمیر کی خصوصی شناخت کا خاتمہ اور اسے بھارت میں مکمل طور پر ضم کرنا بھارت کا بہت پرانا منصوبہ تھا۔ اس منصوبے پر عمل کی راہ میں بھارت مرحلہ وار آگے بڑھتا چلا گیا۔ آخری وار کے لیے جس مناسب وقت اور ماحول کا برسوں سے انتظار تھا وہ پلوامہ میں بھارتی فوجی قافلے پر ہونے والے خودکش حملے نے فراہم کیا۔ 2019ء میں ہونے والا یہ حملہ روز ِ اوّل سے ہی شکوک اور سوالات کی زد میں رہا، مگر بھارت کی حکومت نے ایسے سوالات کو بلند ہونے سے پہلے ہی فوج کی محبت اور مورال کے نام پر دبانے کی حکمت عملی اختیار کیے رکھی۔ پلوامہ حملے کی حقیقت کو بالکل ہولوکاسٹ طرز کا تقدس دیا گیا، اور اس حملے کی حقیقت پر اُٹھنے والے سوالات کو فوج کی عزت، بے عزتی اور تقدس اور مورال کے ساتھ جوڑ دیاگیا تاکہ ایسے سوالات کو اُٹھنے سے پہلے ہی دل وذہن کے شمشان گھاٹ کی نذرکردیا جائے۔
یوں لگتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سوالات کا یہ جنگل اب بھی ہرا بھرا ہے اور لوگ ہنوز پلوامہ واقعے کی صحت اور حیثیت پر سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے زیادہ توانا آوازیں خود بھارت کے اندر سے بلند ہورہی ہیں کیونکہ نریندرمودی کے سیاسی حریفوں کو یہ شک ہے کہ مودی نے انہیںانتخابی میدان میں جس دائو سے چاروں شانے چِت کیا اس کی بنیاد پلوامہ واقعہ ہی تھا۔ اس کے بعد نریندر مودی کی سیاسی کامیابی کی راہیں کھلتی چلی گئیں۔ اس کے باوجود جس طرح گجرات کے مسلم کُش فسادات میں بطور وزیراعلیٰ نریندر مودی کا کردار اُن کے ساتھ سائے کی طرح چل رہا ہے اسی طرح پلوامہ کا واقعہ بھی اُن کا آسانی سے پیچھا چھوڑتا نظر نہیں آتا۔ پلوامہ کا واقعہ مشکوک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر پر جذباتی ہوکر بھارت کا کیا جانے والا فیصلہ بھی مشکوک ہوتا ہے۔
گویاکہ مودی حکومت نے کشمیر کی شناخت بدلنے سمیت کئی اقدامات کی منصوبہ بندی بہت پہلے سے کرلی تھی اور اس واقعے کو آخری بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ آرٹیکل 370کو کشمیر میں امن واستحکام اور عوام کی خوشحالی کے نام پر ختم کیا گیا، مگر اس کے بعد بھی کشمیر بدستور عدم استحکام کا شکار ہے، اور یہ بات مسلمان تو شاید کھل کر نہ کرتے ہوں مگر کشمیری پنڈت زیادہ کھل کر یہ بات کررہے ہیں کہ انہیں جس نئی صبح کا خواب دکھایا گیا تھا وہ کشمیر میں اب بھی بکھرا پڑا ہے۔ پنڈتوں کی اپنے گھروں کو واپسی آج بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ لے دے کر مسلمانوں کی زمینوں، جائدادوں اور ملازمتوں پر ہاتھ صاف کرنا آسان ہے، وہی کام کیا جارہا ہے۔
راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس اِن دنوں ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ شروع کیے ہوئے ہے، جو کنہیا کماری سے شروع ہوکر اب کشمیر کی وادیوں میں داخل ہوچکی ہے۔ اس مہم میں راہول گاندھی اور اُن کے ساتھی مودی حکومت کی متعصبانہ پالیسیوں پر کڑی تنقید کررہے ہیں اور انہیں بھارت کو توڑنے کی طرف لے جانے کا باعث قرار دے رہے ہیں۔ اسی بھارت جوڑو یاترا کے ایک جلسۂ عام میں کانگریس کے لیڈر ڈگ وجئے سنگھ نے ایک بار پھر پلوامہ حملے کے حوالے سے کئی بنیادی سوالات پوچھ لیے ہیں، عین اسی دوران ’را‘ کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے بھی کشمیر کی خصوصی شناخت کی بحالی کا مطالبہ دہرایا ہے۔ انہوں نے بھارتی آئین کی دفعہ370کے خاتمے کو غیر ضروری قرار دیا۔ یہ دونوں آوازیں بتارہی ہیں کہ نریندرمودی کی حکومت نے جس مسئلے کی بساط اپنے طور پر لپیٹ دی تھی وہ اب بھی خود بھارت کی سیاست میں ہلچل مچائے ہوئے ہے اور کشمیریوں نے ذہنی طور پر بھارت کے اس قدم کو قبول نہیں کیا۔ اگر کشمیریوں کے ذہنی طور پر قبول کرنے کے آثار ہوتے تو بھارت میں بھی کوئی شخص اس موضوع کو دوبارہ نہ چھیڑتا۔ کانگریسی لیڈر ڈگ وجئے سنگھ نے اپنے خطاب اور اس کے بعد ٹوئٹر پیغامات کے ذریعے پلوامہ حملے سے متعلق یہ سوالات پوچھے:
1۔ حکومت نے سپاہیوں کو سری نگر منتقل کرنے کی سی آر پی ایف کی درخواست کو رد کیوں کیا؟
2۔ تین سو کلوگرام آرڈی ایکس یعنی بارودی مواد پلوامہ میں کہاں سے آیا؟
3۔ ڈی ایس پی دیوندر سنگھ کو دہشت گردوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا پھر اُسے رہا کیوں کیا گیا؟ اور اس پر غداری کا مقدمہ کیوں قائم نہیں کیا گیا؟
4۔ سرجیکل اسٹرائیکس میں درجنوں افراد مارنے کا دعویٰ کیا گیا مگر اس کا کوئی ثبوت آج تک پیش کیوں نہیں کیا گیا؟
5۔ پاکستانی وزیراعظم اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان دوستی کی حقیقت کیا ہے؟ کیونکہ دونوں ایک دوسرے کی تعریف کررہے ہیں۔
ڈگ وجئے سنگھ کے ان پانچ میں سے چار سوالات کا تعلق پلوامہ حملے سے متعلق ہے۔ اس کے جواب میں بی جے پی کی حکومت نے دوبارہ پرانا منترا پڑھنا شروع کیا ہے کہ کانگریس ملک سے وفادارنہیں رہی، اور یہ کہ اس طرح کے سوالا ت پوچھ کر مسلح افواج کی توہین کی جارہی ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ اب پلوامہ واقعے کو پہنایاگیا تقدس کا مصنوعی جامہ اُترتا جارہا ہے اور وقت گزرنے کے باوجود اس ڈرامے کے حوالے سے سوالات اور شکوک وشبہات کسی طور کم نہیں ہوئے۔
اسی دوران اے ایس دلت بھی ایک بار پھر کشمیر کی خصوصی شناخت کی بحالی کے مطالبے کے ساتھ سامنے آئے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر سے متعلق بھارت کے جھوٹے بیانیے اب خود بھارت میں بھی بے نقاب ہونے لگے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو پوری قوت سے کشمیر کی خصوصی شناخت کی بحالی کے بغیر بھارت سے کسی قسم کی بات چیت نہ کرنے کے مؤقف پر کاربند رہنا چاہیے۔ وزیراعظم شہبازشریف کے العربیہ ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو سے جس کمزوری کا تاثر اُبھرا تھا اسے ہر صورت میں دور کیا جانا چاہیے۔