گوادر کے لوگ تو سی پیک کے اس بلند شور کے اندر بھی روزگار کی فراہمی اور پینے کے صاف پانی کے لیے احتجاج پر ہیں۔ حق دو تحریک والے پابندِ سلاسل کیے گئے ہیں، ان پر کئی کئی مقدمات قائم کردیے گئے ہیں، حتیٰ کہ دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں، انہیں کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے
یقیناً بڑے اقتصادی، معاشی اور معدنی منصوبے خوشحالی اور ترقی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے سیندک، ریکوڈک اور گوادر کے گہری پانیوں کی بندرگاہ کی تعمیر اور فعالیت کے بارے میں مژدہ بلوچستان سمیت پاکستان کی ترقی کا سنایا جاتا ہے۔ ایسا بذاتِ خود بلوچستان کی حکومتیں اور ان سے جڑے افراد اور وزراء بھی کہتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی صوبے کو درپیش شدید مالی بحران کا رونا بھی رویا جارہا ہے۔ اندیشہ یہاں تک ظاہر کیا جاتا ہے کہ اگر وفاق این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا حصہ ادا نہ کرے تو ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہوجائے گی۔ بلوچستان حکومت کے مطابق وفاق نے این ایف سی کے تحت بلوچستان کے مختص حصے میں سے گزشتہ سال سے اب تک40 ارب روپے کی کٹوتی کی ہے، جبکہ وفاقی منصوبوں پر خرچ کیے گئے 6 ارب روپے بھی واپس نہیں کیے جارہے۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) پر بھی صوبے کے30ارب روپے کے بقایا جات ہیں۔ صوبہ کہتا ہے کہ وفاق اور پی پی ایل کی جانب سے رقم ادا نہ کرنے کی وجہ سے بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبے رک چکے ہیں۔ صوبائی وزیر خزانہ زمرک اچکزئی تو حق نہ دینے کی صورت میں دوسرے صوبوں کو سوئی گیس کی سپلائی بند کرنے کی تڑی تک دے چکے ہیں۔ بلوچستان کے لوگ تو ویسے اپنی گیس سے محروم ہیں۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے کی ضروریات کو اوّلیت حاصل ہے۔ مثال کے طور پر سوئی سے330ملین کیوبک فٹ گیس روزانہ نکل رہی ہے جس میں صوبے کا کوٹہ 110ملین کیوبک فٹ یومیہ مختص کیا گیا ہے، جبکہ صوبے کی ضروریات اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بلوچستان کو اپنی گیس کی پیداوار کا صرف17فیصد مل رہا ہے۔
27جنوری کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، قائم مقام گورنر جان محمد جمالی اور صوبائی وزیر خزانہ زمرک اچکزئی نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی، جہاں این ایف سی ایوارڈ کے تحت گزشتہ اور رواں مالی سال کے واجبات اور پی پی ایل کے ذمے واجبات کی ادائیگی سے متعلق گفتگو کی گئی۔ وزیر خزانہ کو مالی مسائل اور مشکلات سے آگاہ کیا گیا۔ انہوں نے صوبے کے وفد کو یقین دہانی کرائی۔ اللہ کرے اس یقین دہانی کو جلد عملی جامہ پہنایا جائے۔
درپیش مالی بحران کی چیخ پکار کے دوران ہی میں یعنی 15جنوری 2023ء کو وزیراعلیٰ ہائوس میں ریکوڈک معاہدے پر فریقین یعنی وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کے چیف ایگزیکٹو مارک برسٹو نے دستخط کرکے منصوبے پر باقاعدہ کام کا آغاز کردیا۔ بلوچستان اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ اس تقریب میں شریک تھے جن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے ہے۔ ملک سکندر ایڈووکیٹ ویسے بھی صوبائی حکومت کے شانہ بشانہ رہتے ہیں۔ پارٹی کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کی صوبائی حکومت پر برہمی اور حزبِ اختلاف کے بھرپور کردار کی ادائیگی محض ہوائی باتیں تھیں، جبکہ دراصل جمعیت علمائے اسلام اپنی شراکت اور عمل سے ریکوڈک معاہدے پر وفاقی حکومت کی ہم کار اور معاون ہے۔ غرض یہاں بیرک گولڈ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو مارک برسٹو معاہدے کے کور شیڈ کی مد میں بلوچستان کو کمپنی کی طرف سے تین ملین ڈالر کی ادائیگی کی دستاویزات پر دستخط کرچکے ہیں۔ بقول حکومت کے، یہ رقم ماہ جنوری ہی میں صوبے کی حکومت کو منتقل ہوجائے گی۔ نیز صوبے کو رائلٹی کی مد میں رقم کی ادائیگی اسی سال مارچ سے شروع ہوگی۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت گوادر بندرگاہ اور اس سے جڑے منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ چین مجموعی طور پر سی پیک پر بھاری سرمایہ کاری کرچکا ہے جو مجموعی طور پر25.4ارب ڈالر کی براہِ راست سرمایہ کاری بتائی گئی ہے۔ چینی کہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگوں کے لیے 92ہزار ملازمتیں بھی پیدا کی گئی ہیں۔ گوادر کے اندر بین الاقوامی ائرپورٹ زیر تعمیر ہے۔ چین کہتا ہے کہ ائرپورٹ کا یہ منصوبہ ان کا اب تک سب سے بڑا اور واحد غیر ملکی امدادی منصوبہ ہے۔ پاکستان میں متعین چین کے سفیر بتا چکے ہیں کہ گوادر میں پاک چین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ، ایک اسکول اور بوئی میڈیکل ایمرجنسی سینٹر تعمیر ہوچکے ہیں، اسی طرح ایکسپریس وے پر چین کی امداد سے چلنے والا ہسپتال رواں سال مکمل ہوجائے گا، جبکہ گوادر ڈی سیلی نیشن زیر تعمیر ہے۔ چند دوسرے منصوبے بھی بنائے ہیں۔ بات دراصل بلوچستان کی تعمیر اور اس کی قسمت بدلنے کی ہے جو اب بھی دور ازکار دکھائی دیتی ہے۔ گوادر کے لوگ تو سی پیک کے اس بلند شور کے اندر بھی روزگار کی فراہمی اور پینے کے صاف پانی کے لیے احتجاج پر ہیں۔ حق دو تحریک والے پابندِ سلاسل کیے گئے ہیں، ان پر کئی کئی مقدمات قائم کردیے گئے ہیں، حتیٰ کہ دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں، انہیں کوئٹہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
خود صوبائی حکومت کا یہ حال ہے کہ اُس کے پاس کچی جماعت سے بارہویں جماعت تک کی درسی کتب کی چھپائی کے لیے پیسے نہیں۔ اب وزیراعلیٰ نے محکمہ ایس اینڈ جی اے ڈی ایجوکیشن کی ارسال کی گئی سمری کے پیش نظر فنڈز کی منظوری دے دی ہے۔ صوبے کی جامعات کے اندر مالی بحرانات الگ پریشان کن مسائل ہیں۔ سیلاب کے بعد لوگوں کی بحالی اور انفرااسٹرکچر کی تعمیرنو کے ضمن میں کچھ نہیں ہوسکا۔ اور تو اور دارالحکومت کوئٹہ کے اندر پل اور شاہراہیں تک تعمیر نہیں ہوسکی ہیں۔ بولان اور لسبیلہ میں بلوچستان کو سندھ سے ملانے والی دو بڑی شاہراہوں پر تباہ ہونے والے پل کی تعمیرنو کا کام سرے سے شروع ہی نہیں ہوا، لیکن حال یہ ہے کہ مالی بدحالی کے باوجود نمائشی سرگرمیوں پر خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے۔گوادر فیسٹیول کے بعد اب 5 فروری کو پی ایس ایل کی ٹیموں کے درمیان کوئٹہ میں ہونے والے نمائشی میچ پر کروڑوں روپے اڑائے جارہے ہیں۔ کرکٹ میدان کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کا کام پی سی بی کا ہے مگر اس مد میں بھی صوبائی خزانے سے رقم خرچ کی گئی۔ اگر یہ ضروری بھی تھا تو نمائشی کے بجائے پی ایس ایل کے شیڈول میچز میں سے ایک میچ کوئٹہ میں کھلایا جاتا تاکہ صوبے پر مالی بوجھ نہ پڑتا۔