مساجد پر حملوں کی تاریخ میں خودکش حملے کا پہلا واقعہ پولیس کی سیکورٹی پر سوالات
پشاور کے ریڈ زون میں واقع ملک سعد شہید پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں مسجد کی چھت بیٹھ گئی، اس واقعے میں تادم تحریر 95 افراد شہید اور 168 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ مرنے اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر پولیس اہلکار شامل ہیں، جب کہ اس دھماکے سے مسجد کے پیش امام بھی جاں بحق ہوگئے۔ دھماکے میں مسجد سے ملحق رہائشی کوارٹر بھی منہدم ہوا جس میں ایک خاتون جاں بحق اور دو زخمی ہوگئیں۔ دھماکے کے بعد مسجد زخمیوں کی چیخ پکار سے گونج اٹھی۔
تفصیلات کے مطابق ملک سعد شہید پولیس لائنز کی جامع مسجد میں پیر کے روز نمازِ ظہر ادا کی جارہی تھی کہ اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا۔ دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی، جس کے نتیجے میں مسجد کی چھت منہدم ہوگئی اور ایک دیوار گرگئی۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے ساتھ ہی دھویں اور گرد کے بادل نے مسجد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہر طرف جاں بحق ہونے والوں کے اعضا بکھرے پڑے تھے جبکہ کئی افراد دھماکے کی وجہ سے بری طرح جھلس گئے۔ دھماکے کے فوراً بعد پولیس لائنز جانے والے تمام راستوں کو سیل کردیا گیا اور امدادی سرگرمیوں کے لیے فوج کے دستے، پولیس، ریسکیو 1122 اور دیگر امدادی اداروں کے کارکن اور ایمبولینس گاڑیاں موقع پر پہنچ گئیں جنہوں نے جاں بحق افراد کی نعشوں و زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے کا کام شروع کیا۔ پشاور کے سب سے بڑے طبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال سمیت تمام بڑے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو فوری طور پر ڈیوٹی پر طلب کیا گیا۔ پولیس کے علاوہ پاک فوج کی بھاری نفری نے بھی پولیس لائنز کی سیکورٹی سنبھالی، جبکہ ہسپتال میں بھی سیکورٹی بڑھا دی گئی۔
اس حساس ترین مقام پر حملے نے شہریوں کو خوف میں مبتلا کرکے رکھ دیا ہے۔ یاد رہے کہ ملک سعد شہید پولیس لائنز کے سامنے سول سیکرٹریٹ کے دفاتر واقع ہیں، اور یہ سینٹرل جیل پشاور سے متصل ہے جس میں سی سی پی او، ایس ایس پی آپریشنز، ایس ایس پی انویسٹی گیشن، سیکورٹی و دیگر افسران کے دفاتر کے علاوہ سی ٹی ڈی اور فرنٹیئر ریزرو پولیس (ایف آرپی) کے دفاتر بھی واقع ہیں، جب کہ یہاں سے صوبائی اسمبلی، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ بینچ، جوڈیشل کمپلیکس کی عمارتیں اورکور کمانڈر ہائوس بھی چند سو گز کے فاصلے پر ہیں۔
افغانستان کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں پشاور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مساجد اور نمازیوں پر حملہ اسلامی احکام کے خلاف عمل ہے۔ دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے منسوب ایک بیان سوشل میڈیا پر وائرل رہا جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پشاور پولیس لائنز پر حملہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کمانڈر عمر خراسانی کی ہلاکت کا بدلہ ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ خودکش حملہ کرنے والے بمبار کا تعلق ضلع مہمند سے ہے، جس کی تصدیق تاحال نہیں ہوسکی ہے۔ زخمی پولیس کانسٹیبل انعام اللہ، سکنہ سربند نے میڈیاکو بتایا کہ جس وقت دھما کہ ہوا وہ بھی مسجد میں موجود تھے، امام مسجد نے جیسے ہی اللہ اکبر کہا، مسجد دھماکے سے گونج اٹھی، اس کے بعد انہیں سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا، اور کچھ لمحے کے لیے ایک سناٹا چھا گیا تھا، جس کے بعد ہر طرف چیخ پکار تھی اور زخمی تڑپ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اب بھی اس دھماکے کو یاد کرتے ہیں تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی نہ بھولنے والا سانحہ ہے۔
پولیس کے مطابق ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی زیر صدارت اجلاس طلب کیا گیا تھا جس میں شرکت کے لیے پشاور کے مختلف تھانوں میں تعینات انویسٹی گیشن افسران اور اہلکار آئے تھے، جبکہ نمازِ ظہر کے لیے وقفے کے دوران کئی انویسٹی گیشن اہلکار مسجد میں موجود تھے، اس دوران یہ سانحہ پیش آیا۔ پولیس لائنز پشاور میں خودکش حملہ آور کس طرح داخل ہوا؟ اس سلسلے میں تفتیش کاروں نے تاحال کوئی ٹھوس شواہد تلاش نہیں کیے ہیں۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق قیاس کیا جاتا ہے کہ حملہ آور نے مسجد تک پہنچنے کے لیے رہائشی کوارٹرز کی طرف سے آنے والے راستے کا انتخاب کیا۔ یہاں سیکورٹی نہیں ہوتی، اس لیے حملہ آور بغیر کسی شک وشبہ کے رکاوٹیں پار کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوگیا۔ واضح رہے کہ ملک سعد پولیس لائنز ریڈ زون کے وسط میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں سینٹرل جیل اور سرحد ہسپتال برائے سائیکاٹری، جبکہ مغرب میں پولیس سروسز ہسپتال واقع ہے۔ سینٹرل جیل روڈ اور خیبر روڈ مشرق سے مغرب کو ملانے والی ایک سڑک ہے جس پر دونوں طرف سے داخل ہوا جا سکتا ہے۔ سینٹرل جیل پشاور کی جانب سے مغرب کی طرف داخلے کے لیے سڑک پر ایک گیٹ لگایا گیا ہے جس پر باقاعدہ جامہ تلاشی لی جاتی ہے۔ اس گیٹ سے صرف پیدل لوگ ہی گزر سکتے ہیں۔ اس سڑک پر بائیں جانب محکمہ تعلیم، محکمہ ریلیف اور سول سیکرٹریٹ ہیں، جبکہ دائیں ہاتھ پر پولیس لائنز کی وسیع و عریض عمارت ہے جس میں داخلے کے لیے سخت تلاشی لی جاتی ہے اور مرکزی گیٹ پر شناختی کارڈ جمع کروائے بغیر انٹری ممکن نہیں ہوتی۔ پولیس لائنز کا دوسرا راستہ خیبر روڈ کی جانب سے مشرق کی طرف سے آتا ہے، اس سڑک پر سی اینڈ ڈبلیو کے دفاتر ہیں اور اس راستے کے آغاز پر ہی پولیس چیک پوسٹ قائم ہے جہاں سے بغیر تلاشی گزرنے کی اجازت نہیں ہوتی، تاہم اس راستے پر گاڑیوں کی آمد ورفت کی اجازت ہے۔ پولیس سروسز ہسپتال بھی اسی سڑک پر واقع ہے جس کا عقبی حصہ پولیس لائنز کی دیوار سے منسلک ہے۔ پولیس سروسز ہسپتال اور پولیس لائنز کے درمیان ایک چھوٹا سا راستہ ہے جو پولیس لائنز کے سرکاری کوارٹرز کی طرف جاتا ہے۔ قیاس ہے کہ خودکش حملہ آور نے مرکزی گیٹ کے بجائے اس راستے کا انتخاب کیا ہے جس پر رہائشی کوارٹرز کو پولیس لائنز کے ساتھ ملانے والا راستہ بھی ہے، اور اسی راستے سے حملہ آور کے داخلے کا شک ظاہر کیا جارہا ہے۔ یہ دروازہ یا راہداری مسجد کے قریب ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ آور اپنے ہدف تک پہنچ گیا اور دھماکہ کرکے انسانی جانیں لیں۔ پولیس کو عقبی سمت سے حملے کا شاید کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے تمام تر سیکورٹی مرکزی راستے پر تھی۔
پولیس لائنز مسجد میں دھماکے سے تین ملحقہ کوارٹر بھی گر گئے ہیں، جس سے تین خواتین بھی شدید زخمی ہوئی ہیں جن میں سے ایک خاتون کا ہسپتال میں انتقال ہوگیا اور دیگر دو خواتین کو تاحال زیر علاج بتایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دھماکے کے وقت مسجد میں تین سو سے چار سو افراد موجود تھے جن میں بڑی تعداد پولیس اہلکاروں کی تھی۔ دھماکے کے بعد مسجد کی چھت منہدم ہونے کے باعث کئی جوان ملبے کے نیچے دب گئے تھے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا۔
پشاور دھماکے کے بعد صوبے کے سب سے بڑے طبی مرکز لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی بیسمنٹ نعشوں سے بھر گئی تھی۔ الخدمت فاؤنڈیشن کے صوبائی صدر خالد وقاص نے میڈیا کو بتایا کہ ان کے ادارے نے ڈیڑھ سو سے زائد رضاکاروں اور 12 ایمبولینس گاڑیوں کے ذریعے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس موقع پر رضاکاروں نے میتوں کی صفائی، تابوت کی فراہمی سمیت جاں بحق افراد کی نعشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے خیبر میڈیکل کالج پہنچایا۔ انہوں نے بتایا کہ ایل آرایچ کا بیسمنٹ شہدا سے بھر گئی تھی جن میں کئی افراد کی شناختی کارڈ کے ذریعے شناخت کی گئی۔
پشاور پولیس لائنز پر خودکش حملے میں پشاور سمیت دس سے زائد اضلاع کے رہائشی متاثر ہوئے ہیں۔ ایل آر ایچ کی جانب سے جاری تفصیل کے مطابق دھماکے میں پشاور کے زخمی اور جاں بحق ہونے والے اہلکاروں اور ملازمین کا تعلق ناصر باغ، سیٹھی ٹائون اور بڈھ بیر سے بتایا گیا ہے، جبکہ اس واقعے میں پشاور کے علاوہ اپر چترال، بنوں، لکی مروت، چارسدہ، مردان، ملاکنڈ، بٹ گرام، صوابی اور کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار اور ملازمین بھی جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ایک ایسا دھماکہ تھا جس کے نتیجے میں صوبے کے نصف سے زائد اضلاع کو شہیدوںکے تابوت بھیجے گئے ہیں۔
پشاور پولیس کے ضلعی ہیڈ کوارٹر میں خودکش دھماکہ مساجد پر کیے گئے حملوں کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے جس کے لیے جمعہ کے بجائے پیر کے روز کا انتخاب کیا گیا۔ معمول کے مطابق کئی سال سے پشاور سمیت صوبے کے تمام بڑے اضلاع کی عام اور سرکاری مساجد میں جمعہ کو سیکورٹی کا انتظام ہوتا ہے جبکہ دیگر دنوں میں کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے حملہ آور نے کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر ہی اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔ واضح رہے کہ خیبر پختون خوا میں 2004ء سے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں خودکش حملے ہوئے ہیں جن میں درجنوں مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، تاہم گزشتہ روز کا خودکش دھماکہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے حیران کن تھا۔ خودکش حملوں کی تاریخ میں مساجد پر ہونے والے زیادہ تر حملے رہائشی علاقوں کی مساجد میں کیے گئے، پولیس لائنز پشاور کی یہ پہلی سرکاری مسجد ہے جس میں خودکش دھماکہ کیا گیا، اور یہ حملہ بھی پیر کے روز یعنی ورکنگ ڈے پر کیا گیا۔ تعطیل کے بعد پہلا ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے پولیس لائنز میں اہلکاروں اور معاون دفتری عملے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، اور اپنے مسائل کے سلسلے میں پولیس لائنز آنے والے افراد بھی پیر کے روز زیادہ ہوتے ہیں، اسی وجہ سے مسجد میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔
واقعے کے فوراً بعد پشاور کے شہریوں نے ایل آرایچ میں خون دینے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوکر ایک نئی مثال قائم کردی۔ گزشتہ روز دھماکے کے بعد ایل آر ایچ انتظامیہ اور ڈپٹی کمشنر پشاور کی جانب سے زخمیوں کو خون کے عطیات کی فراہمی کے لیے شہریوں سے ہسپتال پہنچنے کی اپیل کی گئی، جس پر سیکڑوں کی تعداد میں لوگ ایل آرایچ کے بلڈ بینک پہنچ گئے اور خون عطیہ کیا۔ اس دوران رش کی وجہ سے کچھ لوگوں کو بستروں پر لٹایا گیا اور باقی افراد نے فرش پر لیٹ کر زخمیوں کے لیے اپنا خون عطیہ کیا۔ خون دینے والوں میں طلبہ بھی شامل تھے جنہوں نے چند گھنٹوں کے دوران خون کا وافر ذخیرہ زخمیوں کے لیے جمع کروایا۔ اس موقع پر سوشل میڈیا ٹرینڈ بھی چلایا گیا جس میں صارفین نے اس واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں کو یاد دلایا کہ عوام ہر موقع پر اپنی پولیس کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پشاور دھماکے میں پولیس لائنز کے اندر سے سہولت کاری کی گئی۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ حملہ آور ایک دو دن سے وہیں رہ رہا تھا، آئی جی نے بتایا کہ ہزار سے ڈیڑھ ہزار افراد پولیس لائنز میں رہتے ہیں، پولیس کا خیال ہے کہ اندر کوئی شخص حملہ آور کے ساتھ رابطے میں تھا۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیکورٹی بریچ ہوئی ہے، دہشت گرد نے پہلی صف میں خود کو دھماکے سے اڑایا، مساجد میں نمازیوں پر حملے تو بھارت اور فلسطین میں بھی نہیں ہوتے، گزشتہ لہر میں کراچی دہشت گردوں کا بڑا ٹارگٹ تھا۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ گزشتہ دور میں مذاکرات کی پالیسی شروع ہوئی تھی، اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
پشاور پولیس لائنز میں خودکش دھماکے نے پولیس کی اپنی سیکورٹی پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ صوبے کا سب سے اہم مقام ہی محفوظ نہ ہونے سے شہریوں میں مزید عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگیا ہے۔ پشاور چھاؤنی کے اندر سب سے محفوظ مقام پشاور پولیس لائنز ہے۔ پشاور پولیس لائنز میں مسجد پہنچنے کے لیے خاصا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، جب کہ اس مسجد کے ساتھ ایف آر پی ہیڈ کوارٹر بھی موجود ہے۔ ان تمام حساس مقامات سے گزر کر 7 کلوگرام سے زائد بارودی مواد اپنے ساتھ باندھ کر خودکش حملہ آور مسجد پہنچ گیا اور اُس نے پہلی صف میں دھماکہ کیا۔ پہلی صف میں بیٹھنے کے لیے نمازی عمومی طور پر جماعت سیبہت پہلے ہی مسجد میں پہنچ جاتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ خودکش حملہ آور بھی مسجد میں جماعت کھڑی ہونے سے بہت وقت پہلے پہنچ چکا تھا اور جماعت کا انتظار کررہا تھا، اور جب امام مسجد نے جماعت کھڑی ہوتے ہی تکبیر کہی تو اُس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ خودکش حملہ آور کے اتنے اطمینان سے انتہائی حساس مقام تک پہنچ کر اتنی دیر تک انتظار میں بیٹھے رہنے اور پھر اتنا بڑا نقصان کرنے کے بعد پولیس کی اپنی سیکورٹی پر انگلیاں اٹھ گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر پولیس کا اپنا ہیڈ کوارٹر محفوظ نہیں ہے اور پولیس کے اپنے ہیڈ کوارٹر میں ہی کوئی حملہ آور بغیر کسی مزاحمت کے اتنا اندر تک آسکتا ہے تو صوبے کے باقی مقامات پر سیکورٹی کی صورت حال کتنی مخدوش ہوگی، اس کااندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔
حیرت ہے کہ پشاور خودکش حملے میں اگر ایک جانب پولیس کو بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا، تو دوسری جانب حکومتی نمائندگی کے لیے نگران کابینہ میں ایک بھی وزیر سامنے نہ آیا۔ کابینہ کے 15 ارکان نے واقعے پر چپ کا روزہ رکھا، جبکہ نگران وزیراعلیٰ کی جانب سے رسمی بیان جاری کرتے ہوئے ہسپتالوں میں ایمرجنسی لگوادی گئی، صوبائی حکومت اس بڑے واقعے سے مکمل طور پر لاتعلق نظر آئی۔ خیر پختون خوا میں 10 روز سے نگران حکومت موجود ہے جبکہ 5 روز قبل نگران کابینہ بھی تشکیل دے دی گئی ہے، تاہم پشاور میں ہونے والے ایک بڑے سانحے کے موقع پر نگران حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ نگران کابینہ میں موجود 15 ارکان میں سے کسی ایک نے بھی آگے بڑھ کر شہدا اور زخمیوں کی دادرسی نہیں کی، کسی بھی وزیر کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا، اور نہ ہی میڈیا پرآکر اس واقعے سے متعلق معلومات شیئرکی گئیں۔ اب تک نگران کابینہ ارکان کی جانب سے اس واقعے کی مذمت بھی نہیں کی گئی ہے۔ صوبے میں حکومتی مشینری کس حد تک متحرک اور فعال ہے اس واقعے سے اس کی قلعی کھل گئی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ کا بیان بھی صرف حاضری لگانے تک ہی محدود رہا، جبکہ کئی سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی سیاست سیاست کھیلتے دیکھے گئے۔
دریں اثناء وزیراعظم شہازشریف نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے ہمراہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا دورہ کیا، وزیردفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی ان کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے وہاں زخمیوں کی عیادت کے علاوہ متعلقہ حکام کو زخمیوں کو ہرممکن طبی امداد دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پشاور حملے کے بعد قوم غم میں ڈوبی ہوئی ہے، یہ حملہ پاکستان پر حملے سے کم نہیں ہے، دہشت گردی ہماری قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، پاکستانی قوم کے عزم کو ایسی بزدلانہ کارروائیوں سے متزلزل نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ غم زدہ خاندانوں کے درد کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن میں انتہائی اخلاص سے ان سے تعزیت اور ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آج کے اس گھنائونے واقعے کے ذمہ داروں کے لیے میرا پیغام ہے کہ آپ پاکستانی عوام کے عزم کو کمزور نہیں کرسکتے۔ اس موقع پر وزیراعظم شہبازشریف کو کور کمانڈر پشاور نے دہشت گردی کے عوامل اور محرکات کے حوالے سے بریفنگ دی، جبکہ انسپکٹر جنرل پولیس نے پولیس لائنز میں ہونے والے خودکش حملے پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی۔ وزیراعظم کو پولیس لائنزمیں خودکش حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے کہاکہ دہشت گرد پاکستان کے دفاع پر مامور اداروں پر حملے کرکے خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں جسے ریاست اور عوام کے اتحاد کی قوت سے ناکام بنائیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے عظیم قربانیاں دی ہیں، ہم شہدا کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کے اداروں، پولیس کی صلاحیت اور استعدادِ کار میں اضافہ کیا جائے گا، نیشل ایکشن پلان پر پوری قوت اور جامعیت سے عمل درآمد یقینی بنائیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے گھر میں سربسجود نمازیوں کا خون بہانے والے مسلمان نہیںہوسکتے۔ یہ جرم کرنے والے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ نہیں سکیں گے، ان مجرموں کو صفحۂ ہستی سے مٹاکر دم لیں گے۔