کشمیر کیسے گیا؟

22 مارچ 1947ء کو لارڈ مائونٹ بیٹن آخری وائسرائے ہند کی حیثیت سے ہندوستان آئے اور انہوں نے 3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کا منصوبہ پیش کیا۔ اس منصوبے کے تحت پنجاب، سندھ اور بنگال کی صوبائی اسمبلیوں نے کثرتِ رائے سے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا۔ 17 اگست کو ریڈکلف کی سربراہی میں سرحدی حد بندی کا تعین کیا گیا اور گزشتہ اعلان کے برخلاف گورداسپور کا علاقہ (ماسوائے شکر گڑھ کی تحصیل کے) ہندوستان کے حوالے کردیا گیا۔

تقسیم ِبنگال و پنجاب، ایک غیر منصفانہ بٹوارہ: آزادیٔ ہند کے ایکٹ مجریہ 1947ء کی دفعات میں ایک دفعہ یہ بھی تھی کہ پنجاب اور بنگال کو ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کرنے کے لیے دو سرحدی کمیشن مقرر کیے جائیں گے اور ہر سرحدی کمیشن میں مساوی تعداد میں پاکستان اور ہندوستان کے نمائندے شامل ہوں گے، ایک یا ایک سے زیادہ غیر جانب دار اراکین بھی ان میں شامل ہوں گے۔ ایکٹ کے مطابق سر ریڈ کلف کو مکمل اختیارات کے ساتھ سرحدی کمیشنوں کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ پاکستان کی طرف سے پنجاب سرحدی کمیشن کے لیے جسٹس دین محمد اور جسٹس محمد منیر کو نامزد کیا گیا، جبکہ ہندوستان کی طرف سے جسٹس مہرچند مہاجن اور جسٹس تیجا سنگھ کو اس کمیشن کا رکن نامزد کیا گیا۔

بنگال سرحدی کمیشن میں پاکستان کی طرف سے جسٹس ابوصالح محمد اور جسٹس ایس۔اے رحمٰن کو، اور ہندوستان کی طرف سے جسٹس سی۔ سی بسواس اور جسٹس بی۔ کے مکھرجی کو کمیشن کے رکن کے طور پر شامل کیا گیا۔ یہ سب ہائی کورٹ کے جج حضرات تھے۔ سرحدوں کے تعین کے بارے میں دونوں ملکوں کے اراکین کے مابین شدید اختلافِ رائے موجود تھا۔ ریڈکلف نے جانب دارانہ طور پر ہندوستان کے حق میں اور مائونٹ بیٹن سے اپیل کرنے اور رابطہ کرنے پر پاکستان کے مزید علاقوں کو کاٹ کر ہندوستان کے حوالے کردیا۔

پنجاب کی غیر منصفانہ تقسیم: 1941ء کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کا ضلع گورداسپور ایک مسلم اکثریتی ضلع تھا اور تقسیم کی اکائی بھی ضلع کو مقرر کیا گیا تھا۔

مردم شماری کے مطابق آبادی کی تقسیم کا تناسب مندرجہ ذیل تھا:

ہندو۔ 21.2 فیصد سکھ۔ 19.2 فیصد مسلمان۔ 51.1 فیصد
عیسائی۔ 4.4 فیصد شیڈولڈ کاسٹ۔ 4.0 (غیر ہندو)

ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ میں مسلمانوں کی آبادی 70 فیصد تھی اور تحصیل کی سرحدیں بھی پاکستان سے ملتی تھیں۔ ضلع کی نچلی ذات کی آبادی اور عیسائی بھی پاکستان کے حامی تھے۔ ریڈکلف اور مائونٹ بیٹن نے علاقے کے لوگوں کی خواہشات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اور اکثریت کے مسلمہ اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمان اکثریت کے اس زرخیز خطے پر ڈاکا ڈالتے ہوئے اسے ہندوستان کے حوالے کردیا۔ اس طرح فیروز پور، فیروز پور ہیڈ ورکس اور دیگر چند علاقے ابتدا میں پاکستان کے حوالے کردیے گئے تھے مگر بعدازاں انہیں ہندوستان کے حوالے کردیا گیا۔ جسٹس منیر اور جسٹس دین محمد دونوں نے اس بات کی توثیق کی تھی کہ ریڈکلف نے یہ علاقے پاکستان کے حوالے کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

گورداسپور کو ہندوستان کے حوالے کرنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ قادیانیوں کے ممتاز رہنما اور سیاست دان سر ظفر اللہ نے جو بعد میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی بنے، قادیانیوں کو جو گورداسپور ضلع کے قصبے قادیان میں اکثریت میں تھے، سکھوں کی طرح الگ تشخص دلوانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے، اور اس طرح مسلمانوں کا تناسب 51 فیصد سے گھٹ کر 49 فیصد رہ گیا۔

جماعت اسلامی کا مرکز ضلع گورداسپور میں واقع تھا۔ سید نقی علی روایت کرتے ہیں کہ دارالاسلام میں ریڈیو خبروں کا واحد سہارا تھا، عموماً مولانا اور وہ ایک ساتھ ہی خبریں سنا کرتے تھے۔ 17 اگست 1947ء کو حد بندی کمیشن کا اعلان آیا کہ گورداسپور کا ضلع بڑی حد تک ہندوستان کو دے دیا گیا ہے اور دریائے راوی بھی سرحد بنادیا گیا۔ مولانا نے سنتے ہی کہا ’’کشمیر گیا‘‘۔ قادیانیوں نے اپنے قادیان کی خاطر اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ ثابت کرکے مسلمانوں کو اس ضلع میں اقلیت بنایا اور اس طرح ضلع گورداسپور کو قربان کروا دیا۔ واقعہ تو یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کو مسلمان ہی نہ سمجھتے ہوں وہ پوری امت کو قربان کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت یہ قربانی تو پہلا قدم تھا۔

ایک اہم برطانوی گواہ: ریڈکلف کے سابق سیکریٹری کرسٹوفر ہیومونٹ کا انتقال 2002ء میں ہوگیا تھا۔ وہ برٹش سول سروس کے ایک اعلیٰ افسر بھی تھے۔ وہ تقسیم پنجاب و بنگال کے آخری حقیقت آشنا اور چشم دید گواہ تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی غیر منصفانہ پالیسیوں سے اختلافِ رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مائونٹ بیٹن نے نہ صرف تقسیم کے وقت مروجہ قوانین کو توڑا بلکہ سرحدوں کی تشکیل کے حوالے سے بھارت کا ساتھ دیا اور اس کے لیے انہوں نے ریڈ کلف پر باقاعدہ دبائو بھی ڈالا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجھے چالاکی سے ایک ظہرانے (Lunch) میں شرکت سے روک دیا گیا جس میں مائونٹ بیٹن اور ریڈکلف نے ایک مسلم اکثریتی علاقے گورداسپور کو جو کشمیر کو بھارت سے ملانے والا واحد زمینی راستہ ہے، پاکستان کے بجائے بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔
(تاریخ جماعت اسلامی کا ایک اہم باب)

مجلس اقبال
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

علامہ بسا اوقات غفلت اور بے عملی میں ڈوبی ہوئی اپنی قوم کو جگانے کے لیے غصے اور جلال کا مظاہرہ بھی کرتے ہیںتو اگلے لمحے یہ بتا دیتے ہیں کہ میرے کلام کی تلخی دراصل اس کڑوی دوا کی طرح ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مریض کو شفا نصیب ہوتی ہے، اور اسی طرح بعض اوقات کسی مہلک زہر کا مقابلہ بھی ایسے اجزا پر مشتمل دوا سے کیا جاتا ہے جو زہر کو کاٹ کر بے اثر کر دیتی ہے اور اسے تریاق کہا جاتا ہے۔