بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے الفاظ میں ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔‘‘ پاکستان اگر جسم ہے تو کشمیر اس کی روح ہے، شہ رگ اور روح کے بغیر کسی جسم کا تصور نہیں کیا جا سکتا، اسی لیے اسلامیان پاکستان نے اپنے وطن کے قیام کے اول روز سے کشمیر اور پاکستان کولازم و ملزوم تصور کیا ہے اور ہمیشہ کشمیری عوام کی جدوجہد آزاد میں حصہ ڈالا ہے۔ 1990ء کے عشرہ میں کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی نے ایک نئی کروٹ لی اور بھارت کے جبر و استبداد کے خلاف مزاحمت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تو اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پاکستان، مجاہد ملت قاضی حسین احمد نے اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی اس جدوجہد اور مزاحمت سے ہم آہنگی کے اظہار کے لیے پانچ فروری کا دن ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا جس سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ایک حوصلہ افزا پیغام ملا اس وقت کی پاکستانی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی قاضی حسین احمد کے اس اعلان سے اتفاق کرتے ہوئے پانچ فروری کو عام تعطیل کا اعلان کیا جب کہ حزب اختلاف نے بھی اس کا خیر مقدم کیا یوں پانچ فروری کا یہ دن کشمیری حریت پسند عوام کے لیے ایک ولولہ تازہ کا سبب بنا تو دوسری جانب پاکستان کے عوام کے مابین بھی اتفاق و اتحاد اور ہم آہنگی کا وسیلہ قرار پا یا۔ تب سے اب تک یہ دن بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے خلاف مسلمانان کشمیر کی لازوال مزاحمت سے یکجہتی کے اظہار کی علامت قرار پا چکا ہے…!
مسئلہ کشمیر کے آج تک زندہ رہنے کا سبب معاملے کا اہم ترین اور حوصلہ افزا پہلو یہ ہے کہ بھارت کے جبرو استبداد کے تمام ہتھکنڈے آزمانے اور ظلم و ستم کا ہر حربہ اختیار کرنے کے باوجود کشمیر کے غیور مسلمان بھارت کی کم و بیش دس لاکھ فوج کے سامنے سینہ تانے مزاحمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، ابھی 25 جنوری کو بھارت کے نام نہاد یوم جمہوریہ کے موقع پر کشمیری مسلمانوں نے ہر سال کی طرح ’’یوم سیاہ‘‘ منا کر دنیا پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ آزادی کے حصول تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، ظلم کی سیاہ رات اگرچہ خاصی طویل ہو چکی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج کے مظالم میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر یہ ظلم کشمیری عوام کے جذبہ حریت کو سرد کرنے میں قطعی ناکام رہا ہے، کشمیری عوام ریاست کے طول و عرض میں بار بار پاکستانی پرچم لہرا کر اور پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی ہر شکست خصوصاً کرکٹ میچ ہارنے کے موقع پر جشن منا کر اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کر کے پاکستان سے اپنی والہانہ عقیدت اور بھارت سے نفرت و بیزاری کے اظہار کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے دوسری جانب پاکستانی عوام بھی اپنے حکمرانوں کی تمام تر نا اہلیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود مسلمانان کشمیر کی جدوجہد آزادی کی پشتی بانی میں ہمیشہ ثابت قدم رہے ہیں…!
پانچ اگست 2019ء کو بھارت میں مودی کی فاشسٹ حکومت نے اپنے زیر قبضہ ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی بھارتی آئین کی دفعات 370 اور -35 اے کو منسوخ کر کے جدوجہد آزادی پر ایک اور کاری وار کیا ہے، اس اقدام کی مزاحمت کو روکنے کے لیے پوری وادی کو ایک بڑی جیل میں بدل دیا ہے، کشمیری مسلمانوں کو اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے مسلمہ بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارتی حکومت کے زیر تسلط پورا خطہ گزشتہ ساڑھے تین برس سے مسلسل محاصرے کی کیفیت میں ہے، ریاست کے مسلم اکثریتی تشخص کو ختم کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی سے اقدامات کئے جا رہے ہیں، ہر اہم ریاستی منصب پر غیر مسلم اور غیر کشمیری افسروں کو تعینات کیا جا رہا ہے، ماورائے عدالت قتل، تشدد، بلا جواز گرفتاریوں، خواتین کی بے حرمتی اور املاک کو نذر آتش کرنا روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، صرف 2022ء کے دوران بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے سات سو کے قریب افراد جن میں بچے، بوڑھے اور ضعیف افراد بھی شامل تھے، کو حراست میں لے کر بھارت مخالف مظاہرے منظم کرنے، پتھرائو کرنے، شہداء کے جنازوں میں شرکت کرنے اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرے لگانے کے الزام میں جیلوں میں دھکیل دیا گیا ہے، بھارتی فوج نے درجنوں مکانوں کو مارٹر گولوں، گن پائوڈر اور آگ لگا کر تباہ کر دیا ہے۔ 227 شہریوں کو شہید کر دیا گیا جب کہ سینکڑوں زخمی کئے گئے ، ہزاروں نوجوان عقوبت خانوں میں طرح طرح کے مظالم برداشت کر رہے ہیں، جماعت اسلامی کو تحریک آزادی کی حمایت کے الزام میں خلاف قانون قرار دے دیا گیا ہے، اس کے تحت چلنے والے فلاحی اداروں اور قائد حریت شہید سید علی گیلانی کے گھر اور دیگر مسلمانوں کے مکانات اور زمینوں کو ضبط کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تحریک حریت کی قیادت جیلوں میں ٹھونس دی گئی ہے جہاں سید علی گیلانی سمیت اب تک غلام محمد بھٹ، اشرف ضحرائی، الطاف فتوش اور کئی دوسرے رہنما خالق حقیقی کو لبیک کہہ چکے ہیں…!
پاکستان جو عالمی سطح پر کشمیر کے وکیل کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے عوام اگرچہ، اپنے کشمیری بھائیوں کی جدوجہد میں دامے، درمے، سخنے ہر طرح سے اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہیں مگر حکمران فوجی ہوں یا سیاسی، سب کا رویہ کم از کم الفاظ میں افسوس ناک اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا جا سکتا ہے، پانچ اگست 2019ء کے بھارتی اقدام کے بعد پاکستانی حکومت نے بھارت سے سفارتی تعلقات کی سطح کمتر کرنے، تجارت بند کرنے اور پانچ اگست اقدام کی واپسی تک کسی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا تھا مگر موجودہ حکمران ان معمولی اقدامات سے بھی پسپائی اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں چنانچہ وزیر اعظم شہباز شریف، العربیہ ٹی وی سے ایک حالیہ انٹرویو میں بھارت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے پائے گئے ہیں، اس مقصد کے لیے انہوں نے متحدہ عرب امارات کو ثالث، تسلیم کرنے پر آمادگی بھی ظاہر کی مگر بھارتی وزیر اعظم اور امارات کی قیادت نے ان کی اس بات کو سنجیدگی سے لینے اور جواب تک دینے کی زحمت گوارا نہیں کی، یوں بھی امارات کے حکمرانوں کی بھارت سے محبت اور قربت اب کوئی راز نہیں رہی۔ اس طرح وزیر اعظم نے وطن عزیز کی جگ ہنسائی اور کمزوری کے اظہار کے علاوہ کچھ حاصل نہیں کیا۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ بھارتی حکمران طاقت کے سوا کوئی زبان نہیں سمجھتے، مسئلہ کشمیر کا حل اس کے علاوہ کوئی نہیں جس کی نشاندہی سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے برسوں قبل کر دی تھی اور جس پر عمل کرتے ہوئے بانی ٔ پاکستان نے کشمیر کے ایک حصے کو بھارتی تسلط سے نجات دلائی تھی، جو آج ’آزاد کشمیر‘ کہلاتا ہے، باقی کشمیر کی آزادی کا بھی صرف اور صرف یہی ایک راستہ ہے یعنی جہاد اور صرف جہاد…!!!
(حامد ریاض ڈوگر)