داعیِ الی اللہ کی ذمہ داری

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
”جو کوئی صبح اور شام مسجد (نماز کے لیے) جایا کرے وہ جب صبح اور شام کو جائے گا
اللہ تعالیٰ بہشت میں اس کی مہمانی کا سامان کردے گا“۔
(بخاری، جلد اوّل، کتاب الاذان حدیث نمبر 628 )

اللہ نے حق اور باطل کی کشمکش کے لیے جو قانون بنا دیا ہے اسے تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ حق پرستوں کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ایک طویل مدت تک آزمائشوں کی بھٹی میں تپائے جائیں۔ اپنے صبر کا، اپنی راست بازی کا، اپنے ایثار اور اپنی فدا کاری کا، اپنے ایمان کی پختگی اور اپنے توکل الی اللہ کا امتحان دیں۔ مصائب اور مشکلات کے دور سے گزر کر اپنے اندر وہ صفات پرورش کریں جو صرف اسی دشوار گزار گھاٹی میں پرورش پاسکتی ہیں۔ اور ابتداً خالص اخلاق فاضلہ و سیرتِ صالحہ کے ہتھیاروں سے جاہلیت پر فتح حاصل کرکے دکھائیں۔ اس طرح جب وہ اپنا اصلح ہونا ثابت کردیں گے تب اللہ کی نصرت ٹھیک اپنے وقت پر ان کی دستگیری کے لیے آپہنچے گی۔ وقت سے پہلے وہ کسی کے لائے نہیں آسکتی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دیکھتے تھے کہ اس قوم کو سمجھاتے سمجھاتے مدتیں گزر گئی ہیں اور کسی طرح یہ راستے پر نہیں آتی تو بسا اوقات آپ ؐکے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش کوئی نشانی خدا کی طرف سے ایسی ظاہر ہو جس سے ان لوگوں کا کفر ٹوٹے اور یہ میری صداقت تسلیم کرلیں۔ آپؐ کی اسی خواہش کا جواب اس آیت میں دیا گیا۔ مطلب یہ ہے کہ بے صبری سے کام نہ لو۔ جس ڈھنگ اور جس ترتیب و تدریج سے ہم اس کام کو چلوا رہے ہیں اسی پر صبر کے ساتھ چلے جاؤ۔ معجزوں سے کام لیتا ہوتا تو کیا ہم خود نہ لے سکتے تھے؟ مگر ہم جانتے ہیں کہ جس فکری و اخلاقی انقلاب اور جس مدنیتِ صالحہ کی تعمیر کے کام پر تم مامور کیے گئے ہو اُسے کامیابی کی منزل تک پہنچانے کا صحیح راستہ یہ نہیں ہے۔ تاہم اگر لوگوں کے موجودہ جمود اور ان کے انکار کی سختی پر تم سے صبر نہیں ہوتا، اور تمہیں گمان ہے کہ اس جمود کو توڑنے کے لیے کسی محسوس نشانی کا مشاہدہ کرانا ہی ضروری ہے، تو خود زور لگاؤ اور تمہارا کچھ بس چلتا ہو تو زمین میں گھس کر یا آسمان پر چڑھ کر کوئی ایسا معجزہ لانے کی کوشش کرو جسے تم سمجھو کہ یہ بے یقینی کو یقین میں تبدیل کردینے کے لیے کافی ہوگا۔ مگر ہم سے امید نہ رکھو کہ ہم تمہاری یہ خواہش پوری کریں گے، کیونکہ ہماری اسکیم میں اس تدبیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

اگر صرف یہی بات مطلوب ہوتی کہ تمام انسان کسی نہ کسی طور پر راست رو بن جائیں تو نبی بھیجنے، کتابیں نازل کرنے، اور مومنوں سے کفار کے مقابلے میں جدوجہد کرانے اور دعوتِ حق کو تدریجی تحریک کی منزلوں سے گزروانے کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ کام تو اللہ کے ایک ہی تخلیقی اشارے سے انجام پاسکتا تھا۔ لیکن اللہ اس کام کو اس طریقے پر کرنا نہیں چاہتا۔ اس کا منشا تو یہ ہے کہ حق دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔ پھر ان میں سے جو لوگ فکرِ صحیح سے کام لے کر حق کو پہچان لیں وہ اپنے آزادانہ اختیار سے اس پر ایمان لائیں۔ اپنی سیرتوں کو اس کے سانچے میں ڈھال کر باطل پرستوں کے مقابلے میں اپنا اخلاقی تفوق ثابت کریں۔ انسانوں کے مجموعے میں سے صالح عناصر کو اپنے طاقتور استدلال، اپنے بلند نصب العین، اپنے بہتر اصولِ زندگی اور اپنی پاکیزہ سیرت کی کشش سے اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں، اور باطل کے خلاف پیہم جدوجہد کرکے فطری ارتقاء کی راہ سے اقامتِ دینِ حق کی منزل تک پہنچیں۔ اللہ اس کام میں ان کی رہنمائی کرے گا اور جس مرحلے پر جیسی مدد اللہ سے پانے کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنائیں گے وہ مدد بھی انہیں دیتا چلا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی یہ چاہے کہ اس فطری راستے کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ محض اپنی قدرتِ قاہرہ کے زور سے افکارِ فاسدہ کو مٹاکر لوگوں میں فکرِ صالح پھیلادے اور تمدنِ فاسد کو نیست و نابود کرکے مدنیتِ صالحہ تعمیر کردے تو ایسا ہرگز نہ ہوگا کیونکہ یہ اللہ کی اس حکمت کے خلاف ہے جس کے تحت اس نے انسان کو دنیا میں ایک ذمہ دار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، اسے تصرف کے اختیارات دیے ہیں، طاعت و عصیان کی آزادی بخشی ہے، امتحان کی مہلت عطا کی ہے، اور اس کی سعی کے مطابق جزا اور سزا دینے کے لیے فیصلے کا ایک وقت مقرر کردیا ہے۔

تمہیں داعی اور مبلغ بنایا گیا ہے، کوتوال نہیں بنایا گیا۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے اس روشنی کو پیش کردو اور اظہارِ حق کا حق ادا کرنے میں اپنی حد تک کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ اب اگر کوئی اس حق کو قبول نہیں کرتا تو نہ کرے۔ تم کو نہ اس کام پر مامور کیا گیا ہے کہ لوگوں کو حق پرست بناکر ہی رہو، اور نہ تمہاری ذمہ داری و جواب دہی میں یہ بات شامل ہے کہ تمہارے حلقہ نبوت میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہ جائے۔ لہٰذا اس فکر میں خوامخواہ اپنے ذہن کو پریشان نہ کرو کہ اندھوں کو کس طرح بینا بنایا جائے اور جو آنکھیں کھول کر نہیں دیکھنا چاہتے انھیں کیسے دکھایا جائے۔ اگر فی الواقع حکمتِ الٰہی کا تقاضا یہی ہوتا کہ دنیا میں کوئی شخص باطل پرست نہ رہنے دیا جائے تو اللہ کو یہ کام تم سے لینے کی کیا ضرورت تھی؟ کیا اس کا ایک ہی تکوینی اشارہ تمام انسانوں کو حق پرست نہ بنا سکتا تھا؟ مگر وہاں تو مقصود سرے سے یہ ہے ہی نہیں۔ مقصود تو یہ ہے کہ انسان کے لیے حق اور باطل کے انتخاب کی آزادی باقی رہے، اور پھر حق کی روشنی اس کے سامنے پیش کرکے اس کی آزمائش کی جائے کہ وہ دونوں چیزوں میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ پس تمہارے لیے صحیح طرزعمل یہ ہے کہ جو روشنی تمہیں دکھادی گئی ہے اس کے اجالے میں سیدھی راہ پر خود چلتے رہو اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے رہو۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں انہیں سینے سے لگاؤ اور ان کا ساتھ نہ چھوڑو خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں کیسے ہی حقیر ہوں۔ اور جو اسے قبول نہ کریں ان کے پیچھے نہ پڑو۔ جس انجام بد کی طرف وہ خود جانا چاہتے ہیں اور جانے پر مُصر ہیں اس کی طرف جانے کے لیے انہیں چھوڑ دو۔

(تفہیم القرآن۔ جلد اوّل سورۃ الانعام۔ حاشیہ22،23،24 اور71)