جماعت اسلامی لاہور کا کمر توڑ مہنگائی کے خلاف احتجاجی مارچ
کمر توڑ مہنگائی ، بے روزگاری اور اشیائے ضروریہ کی نایابی کا یہ حال ہے کہ عام آدمی کے لیے بچوں کو دو وقت کا کھانا فراہم کرنا دشوار ہورہا ہے، مایوسی اور ناامیدی اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے جس کے سبب لوگ معصوم بچوں اور اہل و عیال سمیت خودکشی اور موت کو زندگی پر ترجیح دینے لگے ہیں، مگر دوسری جانب حکمرانوں اور مقتدر لوگوں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ کسی کو عام آدمی کی مشکلات کی ذرہ برابر پروا نہیں اور وہ باہم اقتدار کی رسّاکشی اور الزام تراشیوں میں مصروف ہیں۔ ایسے میں صرف جماعت اسلامی ہے جو غریب اور لاچار محروم طبقات کے حق میں آواز بلندکررہی ہے۔ اسی سلسلے میں جماعت کے امیر سراج الحق کی ہدایت پر 21 جنوری کو لاہور میں شاہراہ قائداعظم پرمسجدِ شہداء سے فیصل چوک تک احتجاجی مارچ کیا گیا جس میں جوانوں اور بزرگوں کے علاوہ خواتین اور بچوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ شرکاء نے بینر اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں اور حکمرانوں کی عیاشیوں کی مذمت میں نعرے درج تھے، جب کہ شرکاء اسلامی انقلاب کے حق میں اور حکمرانوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ پنجاب اسمبلی کی عمارت کے قریب فیصل چوک میں پہنچ کر مارچ نے احتجاجی جلسے کی شکل اختیار کرلی جس سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سیکرٹری جنرل امیرالعظیم، صوبہ وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری اور لاہور کے امیر ضیاء الدین انصاری نے خطاب کیا۔
اپنے کلیدی خطاب میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے حکمران طبقے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آج پوری دنیا میں کوئی پاکستان کے وزیراعظم کا فون تک سننے پر تیار نہیں، ’’کشکول مشن‘‘ دراصل ملک کی بدنامی کا نام ہے، عدالتیں اور ادارے ملک لوٹنے والوں کا احتساب کرنے میں ناکام ہیں، اب عوام ہی ووٹ کی طاقت سے ظالموں اور لٹیروں کا احتساب کریں گے، وفاقی اور صوبائی حکومتیں مُردوں کی طرح ہیں، حکمران ٹرائیکا کے درمیان بلی چوہے کا کھیل جاری ہے، دونوں اطراف مفادات کے لیے ایک دوسرے کی تذلیل میں مصروف ہیں، پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی بتائیں عوام کو کیا ریلیف دیا؟ مہنگائی کم کیوں نہیں کی؟ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی مہنگائی، غربت، بے روزگاری اور امریکی غلامی کا نام ہیں، کوئی احتساب کا نظام ہوتا تو بڑے بڑے نام نہاد لیڈر جیلوں میں ہوتے، اب تک جتنے بھی غیر ملکی قرضے لیے گئے حکمران اشرافیہ کی جیبوں میں گئے، عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اصول یہ ہونا چاہیے کہ جس پارٹی کے دورِ اقتدار میں جتنے قرضے لیے گئے، وہی ادا کرے۔ یاد دلانا چاہتا ہوں پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کراچی سے پنڈی تک مہنگائی کے خلاف نام نہاد مارچ کیا، پی ڈی ایم مہنگائی کے خلاف ریلیاں اور جلسے کرکے اقتدار میں آئی، وزیر خزانہ کہتے تھے کہ ڈالر دو سو روپے سے نیچے آئے گا، ڈالر مارکیٹ سے غائب ہی ہوگیا، ہزاروں کنٹینر ایل سی نہ کھلنے اور ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے ساحل پر کھڑے ہیں۔ آٹے کی لائنوں میں، باپردہ خواتین بھی ٹرکوں کے پیچھے شناختی کارڈ تھامے نظر آتی ہیں، حکمران پروٹوکول کے مزے لے رہے ہیں۔ حکمران ٹرائیکا نے ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کی تابعداری میں قوانین بنائے، مگر ملک کے حق میں کوئی قانون سازی اور فیصلہ نہیں کیا، انہوں نے مل کر ملک کو معاشی و سیاسی لحاظ سے تباہ کیا اور کشمیر کا سودا کیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ریمنڈ ڈیوس اور ابھی نندن کو آزادی دی اور ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ کے حوالے کیا۔ یہ اقتدار میں اپنی جائدادیں بنانے کے لیے آتے ہیں، ان کے شہزادے اور شہزادیاں بیرونِ ملک جب کہ قوم کے بچے اسکولوں سے باہر مزدوریاں کرنے پر مجبور ہیں۔
روٹی کی قیمت 16 روپے، نان 30 کا، آٹا 150 روپے کلو، خوردنی تیل 600 روپے کلو اور چکن بھی 600 روپے کلو سے اوپر چلا گیا، پیٹرول اور گیس کو عوام کی پہنچ سے دور کردیا، جماعت اسلامی اقتدار میں آکر لیڈروں کا احتساب، کرپشن، سود کا خاتمہ کرے گی۔
مارچ سے خطاب کے دوران امیر جماعت اسلامی وسطی پنجاب محمد جاوید قصوری نے منی بجٹ کی خبروں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی ٹیم نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ ملک دیوالیہ ہوچکا ہے۔ دوست ممالک بھی حکومتِ پاکستان کو غیر مشروط قرض دینے سے کتراتے ہیں۔ ملک کے اندر مہنگائی کی شرح 32 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے۔ ہر چیز کی قیمت کو پَر لگ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو منظرعام پر لایا جائے۔
امیر جماعت اسلامی لاہور ضیاء الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ مہنگائی کے ستائے عوام سے آٹا، بجلی و گیس مہنگی کرکے جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈالروں کی بھیک کے لیے مہنگائی کے ستائے عوام پر زندگی تنگ کی جارہی ہے۔ وزیراعظم نے 200 ارب روپے کے مزید ظالمانہ ٹیکسوں کی منظوری دے کر عوام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔
مغرب کی اذان پر دعا کے ساتھ یہ پروگرام اختتام کو پہنچا۔