ہائی ٹیک اور اُن سے تعلق رکھنے والے دیگر ملٹی نیشنل اداروں کے پاس اب چھانٹی کے سوا آپشن نہیں رہا۔
روس اور یوکرین کی جنگ، عالمی معیشت میں رونما ہونے والی مندی، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے نتیجے میں ابھرنے والے چیلنج اور کورونا کی وبا کے بعد دنیا کے اصل حالت میں واپس آنے کے نتیجے میں بڑی کمپنیوں کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات نے ایک عجیب ہی کیفیت پیدا کردی ہے۔ دنیا بھر میں بڑے کاروباری ادارے اپنے اخراجات قابو میں رکھنے کے لیے چھانٹی کی طرف جارہے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران مغرب کے بڑے کاروباری اداروں نے بہت مزے لوٹے۔ چند شعبوں کی تو چاندی ہوگئی تھی۔ چین، جاپان، جنوبی کوریا اور ترکی کے کاروباری اداروں کو بھی بہت کچھ ملا، تاہم اصل مزے مغربی اداروں نے لوٹے۔
ٹوئٹر، میٹا اور امیزون نے بہت پہلے چھانٹی شروع کردی تھی۔ کورونا کی وبا کے دوران فارما، آن لائن خریداری، آئی ٹی سیکٹر اور چند دوسرے شعبوں نے غیر معمولی فروغ پایا۔ بہت سی اشیاء و خدمات فراہم کرنے والے اداروں نے اپنی آمدنی میں ہوش رُبا اضافہ دیکھا۔ یہ سب کچھ ’’نیو نارمل‘‘ تھا۔ اس میں تو کسی کو کچھ شک نہ تھا کہ یہ سب کچھ عارضی نوعیت کا معاملہ ہے، یعنی کچھ ہی مدت بعد ’’نیو نارمل‘‘ رخصت ہوگا اور ’’نارمل‘‘ پلٹ آئے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ جن اداروں نے راتوں رات غیر معمولی فروغ پایا تھا اور اپنی آمدنی کو دگنی سے بھی زیادہ ہوتے دیکھا تھا، اُن کے بڑوں کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ جب کورونا کی وبا ختم ہوگی اور معاملات نارمل ہوں گے تب پلٹنا پڑے گا۔ اور وہ وقت آچکا ہے۔
امریکہ میں آئی ٹی سیکٹر اور کمپیوٹر بنانے والے اداروں میں کام کرنے والوں کی نیند حرام ہوچکی ہے۔ گہری نیند میں ہوں تب بھی اُن کی آنکھ موبائل فون کی رنگ ٹون یا ایس ایم ایس ٹون سے اڑ جاتی ہے۔ کچھ پتا نہیں کب کس کا پتّا کٹ جائے۔ آئی ٹی سیکٹر اور کمپیوٹر بنانے والے اداروں نے چھانٹی شروع کردی ہے اور یہ عمل تیز تر ہوتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں امریکی کمپنیوں کے ملازمین پریشان ہیں۔ ایشیا میں بھی ان کمپنیوں نے ہزاروں ملازمین کو فارغ کیا ہے۔
2000ء میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ تب ’’ٹیکنو ببل برسٹ‘‘ کے ہاتھوں دنیا بھر میں ہائی ٹیک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ملازمین کچھ ہی مدت میں فارغ کردیے گئے تھے۔ بھارت سمیت ایشیا بھر میں ہائی ٹیک کمپنیوں کے ہزاروں ملازمین گھر بٹھادیے گئے تھے۔ تب ہر پیر کو دفتر جاتے وقت لوگ یہی دعا کرتے تھے کہ لنچ بکس دفتر میں کھول کر کھانا کھانے والے حالات برقرار رہیں۔ دفتر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے نوٹس بورڈ کا رخ کیا جاتا تھا کیونکہ جنہیں فارغ کیا جاتا تھا اُن کی فہرست نوٹس بورڈ پر لگادی جاتی تھی۔ ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد چھانٹی کے بعد روتے روتے وطن واپس پہنچے۔ برصغیر کے ہزاروں افراد امریکہ اور یورپ میں چھانٹی کے بعد بھی کسی نہ کسی طور ٹِکے رہے اور دوسری، نسبتاً کم پُرکشش نوکری تلاش کرتے رہے۔ اور بہت سے اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔
اب کے معاملات بہت مختلف ہیں۔ مغرب کے بہت سے کاروباری اداروں نے آؤٹ سورسنگ کی ہوئی ہے یعنی اچھا خاصا کام اپنے خطے سے بہت دور بھارت، پاکستان، بنگلا دیش اور مشرقِ بعید کے ممالک کے لوگوں کو سونپا ہوا ہے۔ اِس صورت میں کام سستا بھی ہوتا ہے کہ ملازمین کو سہولتیں نہیں دینا پڑتیں۔ ٹھیکے یا جاب کی بنیاد پر کرائے جانے والے کام میں صرف طے شدہ رقم ادا کرنا ہوتی ہے۔ یہ طریقہ امریکہ اور یورپ کی کمپنیوں کو خوب راس آیا ہے۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے بہت سے کاروباری اداروں نے بھی یہ طریقہ اپنالیا ہے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے بعد کے زمانے میں پیدا ہونے والی کساد بازاری اور روس یوکرین جنگ کے باعث معاشی معاملات کو غیر معمولی دھچکا لگا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں جاب مارکیٹ سُکڑی ہوئی ہے۔ بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری ادارے ملازمتیں دینے اور سہولتیں یقینی بنانے کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط کا مظاہرہ کررہے ہیں۔
امریکہ میں بڑے ہائی ٹیک اور دیگر اداروں نے مجموعی طور پر چھانٹی کرنے سے گریز کی راہ پر گامزن رہنا پسند کیا تھا اور کوشش کی جارہی تھی کہ جیسے تیسے کام چلایا جائے، مگر ایلون مسک نے بہت کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ ایلون مسک نے ٹوئٹر کو خریدنے کا فیصلہ کیا تو کاروباری دنیا میں سنسنی سی پھیل گئی۔ ایلون مسک تکنیکی معاملات میں جینیس ہیں، مگر ہیں سنکی۔ ٹوئٹر کا سودا ہر حال میں فائنلائز کرنے کے لیے ایلون مسک نے 33 ڈالر کی مالیت والا شیئر 54 ڈالر سے بھی زیادہ کے نرخ پر خریدا۔ ٹوئٹر کو 44 ارب ڈالر میں خرید کر ایلون مسک نے دنیا کو چونکا دیا۔
ایلون مسک نے ٹوئٹر کا سودا کر تو لیا مگر انہیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ یہ سودا آسانی سے ہضم نہیں ہوسکتا۔ ٹوئٹر کی ملکیت ہاتھ میں آنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ ٹوئٹر میں چھانٹی کے بغیر کام چلایا نہ جاسکے گا۔ انہوں نے راتوں رات آدھے عملے کو فارغ کردیا۔ امریکہ بھر میں ہائی ٹیک اور کمپیوٹر کمپنیاں شدید مشکلات سے دوچار تھیں۔ ایسے میں ایلون مسک کے فیصلے کو خاصے دلیرانہ اقدام کے طور پر دیکھا گیا۔ ٹوئٹر صفِ اوّل کی کمپنی ہے۔ اُس نے جب نصف کی حد تک چھانٹی کردی تو خبر بن گئی اور یوں دنیا بھر میں دیگر بڑے کاروباری اداروں کو چھانٹی کا جواز بھی ملا اور ہمت بھی۔
بڑے کاروباری اداروں اور بالخصوص ہائی ٹیک یا ہائی ٹیک سے تعلق رکھنے والے اداروں میں چھانٹی کا فیصلہ ہر تین ماہ بعد جاری ہونے والی مالیاتی رپورٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ امیزون، گوگل، مائیکروسوفٹ اور دیگر بڑے ادارے چھانٹی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے اُن کی ساکھ اور شیئر کی قیمت پر شدید منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ایسے ادارے منافع میں واقع ہونے والی کمی کو بھی چند ماہ تک برداشت کرتے ہیں تاکہ مارکیٹ میں ساکھ خراب نہ ہو، مگر ایلون مسک نے ایک نئے رجحان کو جنم دیا۔ اُس نے بڑے اور بالخصوص ہائی ٹیک اداروں کو چھانٹی کی راہ پر گامزن ہونے کا حوصلہ بخشا۔ تمام بڑے اداروں میں اندرونی سطح پر جائزہ لینے کا عمل شروع ہوگیا کہ کن کن شعبوں میں افرادی قوت زیادہ ہے یا کام نہیں کررہی۔ یوں طے کیا جانے لگا کہ کہاں کہاں سے چھانٹی کی جاسکتی ہے۔
امریکہ واحد سپر پاور ہے۔ طاقت خاصی گھٹ چکی ہے تاہم اب تک دنیا کے تمام بڑے فیصلوں پر امریکہ اثرانداز ہوتا ہے۔ امریکہ کے بڑے ملٹی نیشنل کاروباری ادارے اگر چھانٹی جیسا عمل شروع کریں تو معیشتی اعتبار سے امریکہ کی ساکھ بُری طرح متاثر ہوتی ہے کیونکہ دنیا کو پیغام ملتا ہے کہ امریکہ کی حالت پتلی ہے۔ یوں امریکی اداروں کو چھانٹی جیسا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ادارے چھانٹی بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے اور کسی کو اندازہ نہیں ہو پاتا تھا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اب سوشل میڈیا کی مہربانی سے کچھ بھی خفیہ نہیں رہا۔ اب کوئی بھی فیصلہ تھوڑی سی دیر میں پوری دنیا کو معلوم ہو جاتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں چھانٹی بہت احتیاط سے کی جاتی رہی ہے۔ ملازمین کو چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں فارغ کیا جاتا تھا تاکہ بات زیادہ دور تک نہ جائے۔ اب ایسے معاملات کو چھپایا نہیں جاسکتا۔
ایک دور تھا کہ کوئی بھی ادارہ اپنی مالی حالت کو ہر حال میں باقی دنیا سے چھپاکر رکھتا تھا۔ کسی کو نہیں بتایا جاتا تھا کہ قرضے ہیں، ادارے کی منافع کمانے کی صلاحیت گھٹ گئی ہے، چھانٹی ناگزیر ہوگئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ آج معاملہ بہت مختلف ہے۔ اب کسی بھی حالت کو ظاہر کرنے میں ذرا سا بھی تکلف نہیں برتا جاتا۔ امریکہ اور یورپ کے بیشتر بڑے اور درمیانے حجم کے کاروباری ادارے اپنی اصل حالت کو بیان کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یورپ کے بیشتر کاروباری اداروں کا حال پتلا ہے۔ اب امریکہ جیسے ملک میں بھی بُرے حالات پر کوئی زیادہ حیرت کا اظہار نہیں کرتا۔ کسی زمانے میں چھانٹی کا موسم صرف پس ماندہ یا ترقی پذیر ممالک کے کاروباری اداروں میں آیا کرتا تھا۔ اب ایسی کوئی تخصیص رہی نہیں۔
کاروباری دنیا کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی انتہائی نوعیت کے اقدام کو سنہرے الفاظ عطا کرکے سفاکی کا احساس گھٹانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس وقت امریکہ اور یورپ میں چھانٹی کا جو موسم چل رہا ہے اُسے بھی ’’کریکشن‘‘ (اصلاح) یا پھر ’’ریشنلائزیشن‘‘ (معقولیت) کا نام دے کر دُکھے ہوئے دلوں کو بہلایا جارہا ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ دُگنا عملہ بھرتی کرلیا گیا تھا جو اب کَھل رہا ہے، یا پہلے تنخواہیں دُگنی طے کردی گئی تھیں جو معقول نہ تھیں۔ چھانٹی کے بعد جن لوگوں کو بھرتی کیا جائے گا اُنہیں معقول اجرت دی جائے گی۔
دنیا بھر میں کام کا ماحول بدل رہا ہے۔ بیشتر بڑے اداروں کا یہ حال ہے کہ جب انہیں کوئی بڑا پروجیکٹ ملتا ہے تو اُس سے مناسبت رکھتی ہوئی بھرتی کرتے ہیں، اور کام پورا ہو جانے کے بعد سال ڈیڑھ سال کے اندر چھانٹی کردی جاتی ہے۔ انگریزی میں لفظ ’’جاب‘‘ ملازمت کے لیے نہیں۔ یہ تو کسی خاص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بڑے اداروں کو جب کوئی ٹھیکا ملتا ہے تو اُس کے مطابق بھرتی کرتے ہیں اور واضح بھی کردیتے ہیں کہ سال ڈیڑھ سال میں ٹھیکے کا کام مکمل ہو جانے کے بعد ملازمت کے جاری رہنے کا کوئی امکان نہیں۔ لوگ بھی اس شرط کے تحت ہی بھرتی ہونا پسند کرتے ہیں کہ ٹھیکے کا کام مکمل ہوتے ہی فارغ کردیے جائیں گے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہوگا کہ بعض شعبے کسی مخصوص سیزن میں زیادہ کماتے ہیں۔ جن مہینوں میں وہ شعبہ کمزور پڑ جاتا ہے اُسے آف سیزن کہا جاسکتا ہے۔ شادی بیاہ کے موسم میں فرنیچر خریدنے نکلیں تو مہنگا ملتا ہے۔ آف سیزن میں خریداری کریں تو وہی فرنیچر 40 فیصد تک کم پر دستیاب ہوتا ہے۔ یہی حال کاروباری دنیا کا بھی ہے۔ مالکان اب یہ سوچتے ہیں کہ جب آف سیزن میں کمائی کم ہوجاتی ہے تو تنخواہوں اور مراعات کا سارا بوجھ کیوں برداشت کیا جائے! یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران امریکہ کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔ چین اور روس جیسے ممالک کے لیے بھی معاملات اِتنے خراب تھے کہ اُنہیں ہاتھ ملانا پڑا۔ امریکہ نے چین کے لیے مشکلات پیدا کیں اور تجارتی پابندیاں عائد کیں تو جواب میں چین نے بھی ایسے اقدامات کیے جن سے امریکہ کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔ بیشتر مغربی ممالک کو سلامتی یقینی بنانے کے لیے دفاعی بجٹ بڑھانا ہی پڑتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں ملازمین کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ انہیں اجرت کے ساتھ ساتھ بہت سی مراعات دینا پڑتی ہیں۔ یہ مراعات بعض اوقات منافع پر اثرانداز بھی ہوتی ہیں۔ چین، روس، بھارت اور جنوبی افریقا وغیرہ میں ایسا معاملہ نہیں۔ جاپان اور جنوبی کوریا میں بھی ملازمین کے لیے وہ سہولتیں نہیں جو امریکہ اور یورپ میں ہیں۔ یہی سبب ہے کہ لوگ آج بھی بہتر مستقبل کے لیے طبع آزمائی کی خاطر امریکہ یا پھر یورپ کا رخ کرتے ہیں۔
ہائی ٹیک اور آئی سیکٹر کے ادارے غیر معمولی چھانٹی کا جواز یہ پیش کررہے ہیں کہ کورونا کی وبا کے دو برس کے دوران دنیا گھر میں مقید تھی۔ تب سب کچھ آن لائن ہورہا تھا۔ ایسے میں ہائی ٹیک اور آئی ٹی سیکٹر کے اداروں کا دھندا خوب پھل پھول رہا تھا۔ ان اداروں نے کئی گنا منافع کمایا اور ملازمین کو بھی بہت کچھ دیا، مگر جب کورونا کی وبا ختم ہوئی تو یہ ہنی مون پیریڈ ختم ہوگیا۔ اب ملازمین کو بہت کچھ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اضافی منافع ہاتھ سے جاچکا ہے۔ ایسے میں چھانٹی کے سوا کوئی آپشن نہیں رہا کیونکہ کورونا کی وبا کے ہاتھوں جن شعبوں کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑا وہ شعبے اب بحالی کی جدوجہد میں اخراجات گھٹا رہے ہیں۔
بہت سے ہائی ٹیک اداروں اور ماہرینِ عمرانیات کا اندازہ تھا کہ دنیا اب آن لائن کلچر کی طرف جائے گی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ کورونا کی وبا کے ختم ہوتے ہی سب کچھ نارمل ہوگیا۔ گھر بیٹھے کام کرنا سب کے لیے ممکن بھی نہیں۔ جو لوگ گھر بیٹھ کر کام کرسکتے ہیں انہیں بھی دفتر بلایا جارہا ہے۔ یہ کیفیت معاملات کو پرانی ڈگر پر لے آئی ہے۔ محض اندازہ لگاکر کہ اب دنیا آن لائن کلچر کی طرف جائے گی اور فزیکل حاضری پر زیادہ توجہ نہیں دی جائے گی، گوگل اور دوسرے بہت سے ہائی ٹیک اداروں نے بہت بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کے شعبے میں سرمایہ کاری بھی کی اور بھرتیاں بھی کیں۔ آواز کی مدد سے چلائی جانے والی چیزیں، ایپس اور روبوٹس تیار کیے گئے۔ اندازہ تھا کہ لوگ ان چیزوں سے غیر معمولی حد تک مستفید ہوں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اب ان ہائی ٹیک اداروں کو اندازہ ہورہا ہے کہ بہت سے اندازے بے بنیاد تھے یا پھر محض جذباتیت کی بنیاد پر قائم کیے گئے۔ سیل فون، ٹیبلیٹس، پرسنل کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ کمپیوٹرز کی فروخت میں پریشان کن کمی آگئی۔ آن لائن گیمنگ، ورچوئل میٹنگ اور آن لائن ٹیچنگ بھی بہت کم رہ گئی ہے۔ ایسے میں چھانٹی تو ناگزیر ہی ٹھیری۔
جب آن لائن کلچر بہت تیزی سے پنپ رہا تھا تب کمپنیوں نے سوچا کہ یہ رجحان تو اب مزید مستحکم ہوگا، اس لیے بہت بڑے پیمانے پر بھرتیاں کرلی گئیں۔ کورونا کی وبا کے دوران بعض شعبے اتنی تیزی سے پروان چڑھے کہ سب کو یہ دکھائی دینے لگا کہ دنیا بدل گئی ہے۔ مگر اس وبا کے دم توڑنے کے چند ماہ بعد ہی سب کو اندازہ ہوگیا کہ یہ اندازہ بالکل غلط تھا۔ دنیا ’’نیو نارمل‘‘ کو چھوڑ کر پھر ’’اولڈ نارمل‘‘ پر آگئی ہے۔ ہائی ٹیک اور اُن سے تعلق رکھنے والے دیگر ملٹی نیشنل اداروں کے پاس اب چھانٹی کے سوا آپشن نہیں رہا۔ کورونا کی وبا کے دوران جو منافع ہورہا تھا وہ تو اب کسی بھی طور ممکن نہیں رہا۔ ایسے میں لاگت کم کرکے ہی منافع کی سطح بلند کی جاسکتی ہے اور یہی کیا جارہا ہے۔