حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان اتفاق پر خوش گوار حیرت
خیبر پختون خوا کے ساتویں نگران وزیراعلیٰ اعظم خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاکر بطور نگران وزیراعلیٰ کام شروع کردیا ہے۔ حلف برداری کی تقریب گورنر ہاؤس پشاور میں منعقد ہوئی جہاں گورنر خیبرپختون خوا حاجی غلام علی نے ان سے وزارتِ اعلیٰ کا حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں چیف سیکرٹری خیبرپختون خوا ڈاکٹر شہزاد بنگش اور آئی جی پولیس معظم جاہ کے علاوہ اعلیٰ سول حکام نے شرکت کی، جب کہ اس موقع پر اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان، پیپلز پارٹی کے راہنما سید ظاہر علی شاہ، اے این پی کے بزرگ سیاست دان حاجی غلام احمد بلور، اسپیکر مشتاق احمد غنی اور دیگر مختلف پارٹیوں کے ارکانِ صوبائی اور قومی اسمبلی بھی موجود تھے۔ تقریبِ حلف برداری کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو میں نگران وزیراعلیٰ محمد اعظم خان نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات اور امن و امان کا قیام ان کی اوّلین ترجیح ہوگی۔ معاشی صورت حال کی بہتری کے لیے بھی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے جس کے لیے صوبائی حکومت تمام تر انتظامی تعاون فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے تاہم وہ صوبے کے بقایا جات کا مسئلہ وفاقی حکومت اور بالخصوص وزیراعظم پاکستان کے سامنے اُٹھائیں گے۔ این ایچ پی، این ایف سی اور ضم اضلاع کے فنڈز ترجیحی بنیادوں پر جاری کرانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کا مسئلہ ہے جس کو بہتر بنانے کے لیے معمول سے بڑھ کر اقدامات کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں بہتر طرزِ حکمرانی کو فروغ دینے اور عوام کی خدمات تک رسائی کو آسان اور بہتر بنانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔ اس وقت صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا ہے جبکہ بدامنی بھی اہم مسئلہ بن گئی ہے۔ صوبے کی انتظامی پوزیشن کو بہتر کرنا ان کی ترجیحات میں شامل ہوگا۔ انہوں نے نگران وزیراعلیٰ کے لیے اپنے نام پر اتفاق کرنے پر تمام سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا۔ نگران وزیراعلیٰ نے بعد ازاں چیف سیکرٹری اور پرنسپل سیکرٹری سے بھی ملاقات کی۔ قبل ازیں گورنر غلام علی نے نگران وزیراعلیٰ محمد اعظم خان کونئی ذمہ داریاں سنبھالنے پر مبارک باد دی اور ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ دریں اثناء وزیراعلیٰ اعظم خان نے اپنے منصب کا چارج سنبھال لیا ہے۔ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا، جبکہ اس سے قبل سابق وزیراعلیٰ محمود خان کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کردیا گیا۔
واضح رہے کہ محمد اعظم خان کا آبائی تعلق ضلع چارسدہ سے ہے۔ وہ سابق بیوروکریٹ ہیں۔ 24 اکتوبر 2007ء سے یکم اپریل 2008ء تک نگران کابینہ میں وزیر خزانہ، منصوبہ بندی اور ترقی رہ چکے ہیں۔ وہ جنوری 1997ء سے 6 جون 2007ء تک اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے تحت غربت میں کمی کے منصوبے کے ایڈوائزر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چیئرمین پاکستان ٹوبیکو بورڈ، وزارتِ تجارت حکومتِ پاکستان پشاور، سیکرٹری وزارتِ پیٹرولیم و قدرتی وسائل حکومتِ پاکستان اسلام آباد، وفاقی سیکرٹری وزارتِ مذہبی امور، اور ستمبر 1990ء سے جولائی 1993ء تک چیف سیکرٹری کے پی حکومت رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور سے گریجویشن کے بعد لنکن اِن، لندن سے1962ء میں بیرسٹر ایٹ لا کی تعلیم حاصل کی ہے۔ محمد اعظم خان اسپیشل ایجوکیشن سینٹر چارسدہ کے ممبر ادارہ جاتی انتظامی کمیٹی ہیں۔آپ بین الاقوامی اریگیشن مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ پاکستان کے علاوہ ممبر آئی ایم آئی اسٹیئرنگ کمیٹی اسٹیٹ بینک آف پاکستان، ممبر دیہی مالیات پر اعلیٰ اختیاراتی کمیشن، ممبرقومی شماریات کونسل حکومت پاکستان، ڈائریکٹر بورڈ آف ڈائریکٹرز دیہی سپورٹ پروگرام نیٹ ورک، ممبر ساؤتھ ایشیا سوشل موبلائزیشن نیٹ ورک، الائیڈ بینک آف پاکستان کے ڈائریکٹر، بورڈ آف ڈائریکٹرز، صدر سینئر ایلومنائی ایسوسی ایشن اسلامیہ کالج پشاور، ممبر سینیٹ اسلامیہ کالج پشاور یونیورسٹی، ممبربورڈ آف گورنرز سٹی یونیورسٹی پشاور، چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر، سینٹر آف ایکسی لینس فار رورل ڈویلپمنٹ، نائب صدر چلڈرن ایس او ایس ویلجز آف پاکستان پشاور، ڈائریکٹر عمران خان فاؤنڈیشن (فلڈ ریلیف اینڈ ری ہیبلیٹیشن)، ممبر نیشنل اوورسائٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کونسل پاکستان اورچیئرمین سپریم کورٹ فلڈ کمیشن انکوائری کے عہدوں پر بھی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔
خیبرپختون خوا میں نگران وزیراعلیٰ کے نام پر ایک ہی ملاقات میں اتفاق نے جہاں حکومت اوراپوزیشن کے مابین موجود تنائو کو ختم کردیا ہے، وہاں حکومت اور اپوزیشن کے اس مثبت طرزعمل نے صوبے کے عوام کو بھی خوشگوارحیرت میں مبتلا کردیا ہے۔ دراصل لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ چند دن پہلے تک جوسیاست دان ایک دوسرے کا نام سننے کے لیے بھی تیار نہیں تھے اورجو چند گھنٹے پہلے تک ایک دوسرے کے خلاف منہ سے جھاگ اڑا رہے تھے وہ یک دم کیسے شیر وشکرہوکر باہم قہقہے لگاتے نظرآئے! واضح رہے کہ سابق اسپیکر مشتاق غنی کی سرکاری رہائش گاہ پر مذاکراتی عمل میں تحریک انصاف کی جانب سے سابق وزیردفاع پرویز خٹک، صوبے کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان، سابق اسپیکر مشتاق غنی اوراپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے شرکت کی۔ اس عمل میں شریک ایک اہم رہنما کے مطابق اجلاس شروع ہوتے ہی نگران وزیراعلیٰ کے لیے سابق چیف سیکرٹری اعظم خان کا نام اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی نے پیش کیا جس پر پرویزخٹک نے فوری آمادگی ظاہر کرتے ہوئے عمران خان سے رابطہ کیا اورانہیں اپوزیشن لیڈرکے پیش کیے گئے نام کو تسلیم کرنے پر راضی کیا، جس کے بعد یہ مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہوا۔ قبل ازیں اکرم خان درانی نے ایک بیان میں سابق وزیراعلیٰ محمود خان کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ملاقات سے یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ محمود خان نے اپنے دور میں اپوزیشن سے فنڈ دینے کے معاملے پر جتنے وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔ اس بیان کے بعد محمود خان نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ فریقین کسی صورت بھی نگران وزیراعلیٰ کے معاملے پر ملاقات پر راضی نہیں ہوں گے اور اب نگران وزیراعلیٰ کے نام کے لیے معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس جائے گا۔ اس حوالے سے جلتی پر تیل کا کام پی ٹی آئی کے سابق صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی کی اُس پریس کانفرنس نے کیا تھا جس میں انہوں نے وزیراعلیٰ کی نمائندگی کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں نگران وزیراعلیٰ کے لیے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کے ساتھ وزیراعلیٰ کی ملاقات اور رابطے کو خارج از امکان قرار دیا تھا۔ بعد ازاں سابق وزیردفاع پرویزخٹک نے اس معاملے میں کردار ادا کرکے محمود خان اور اکرم خان درانی کو سابق اسپیکر مشتاق غنی کے ہاں ملنے پر راضی کیا، اورآخرکار دنیا نے میڈیا پر وہ تصویریں دیکھیں جن میں سابق وزیراعلیٰ اورسابق اپوزیشن رہنما قہقہے لگاتے ہوئے نظرآرہے تھے۔ خیبرپختون خوا میں نگران وزیراعلیٰ کے نام پر اتفاق سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اگرہماری قیادت چاہے تو ملک میں جاری سیاسی تنائو کو ختم کرنا کوئی ناممکن امر نہیں ہے۔
خیبر پختون خوا کے نگران وزیر اعلیٰ کاتقرر جس تیزی اور اتفاقِ رائے سے ہوا ہے اس پر پورے صوبے کے عوام نے سُکھ کاسانس لیا ہے، کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری محاذ آرائی سے صوبے کی سیاست اور خاص کر حکومتی معاملات پر جو منفی اثرات مرتب ہورہے تھے وہ کم از کم اس عبوری سیٹ اَپ کے دوران پس منظر میں چلے جائیں گے۔ویسے بھی یہ بدقسمت صوبہ پچھلی چار دہائیوں سے اگر ایک طرف دہشت گردی اور جنگ وجدل کاشکار رہا ہے تودوسری جانب یہاں کی معیشت بھی روبہ زوال ہے۔پی ٹی آئی یہاں پچھلے نوسال سے برسرِاقتداررہی ہے لیکن ان نوسال میں یہاں کے عوام کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی بلکہ ہر آنے والادن ان کی زندگیوں میں مزید مشکلات کاباعث بنتارہاہے۔لہٰذا اب جب یہاں ایک ایسے عبوری وزیر اعلیٰ کا تقرر ہوچکا ہے جس پر حکومت اور اپوزیشن سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کو اعتراض نہیں ہے بلکہ تمام جماعتوں نے ان کی تعیناتی کاخیرمقدم کیا ہے ایسے میں ان کے سامنے سب سے بڑ اچیلنج اگر ایک طرف صاف وشفاف انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کوہرممکن تعاون فراہم کرنا ہے تودوسری جانب صوبے کے دگرگوں معاشی حالات کو کسی حد تک سنبھالا دینا اور امن وامان کویقینی بنانا ایسے چیلنجز ہیں جو اُن کی قیادت اور ٹیم کاکڑاامتحان ہوگا۔اسی طرح توقع ہے کہ وہ اپنی کابینہ انتہائی مختصر اور اسمارٹ بنانے کے ساتھ ساتھ ایسے مخلص،دیانت داراور قابل افراد کواپنی ٹیم کا حصہ بنائیں گے جن کامطمح نظر اپنے ذاتی فوائد کے بجائے اس غریب اور پسماندہ جنگ زدہ صوبے کے عوام کی بے لوث خدمت ہوگا۔