یہ مذہبی انتہا پسندی کی انتہا ہے جس کا مظاہرہ سیکولرزم اور رواداری کے علمبردار مغربی معاشرے کی طرف سے بار بار کیا جا رہا ہے ایک خالصتاً سفارتی مسئلہ پر اختلاف کا غصہ اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب پر نکالا اور کتاب ہدایت قرآن حکیم کو نذر آتش کر کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خبث باطن کا اظہار کیا جا رہا ہے، ہوا یہ کہ ترکیہ نے سویڈن کی امریکہ کی سرپرستی میں قائم، نیٹو نامی تنظیم میں شمولیت کی اصولی بنیادوں پر مخالفت کی جس پر سویڈن کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کٹر رہنما راسموس پلوون کی قیادت میں سٹاک ہام میں ترک سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس کے دوران مظاہرین نے قرآن حکیم کے مقدس اوراق جلانا شروع کر دیئے اور اسلام مخالف نعرے لگائے اس دوران ترکیہ کا پرچم بھی نذر آتش کیا گیا۔ یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ ترکیہ نے مظاہرہ سے ایک روز قبل سویڈش سفیر کو طلب کر کے اس مظاہرہ کو روکنے کی تنبیہ کی تھی، واقعہ کے بعد ترکیہ نے ایسے انتہا پسندانہ اور جارحانہ اقدام کی اجازت دینے پر سویڈش حکام کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور سویڈن کے وزیر دفاع کا پہلے سے طے شدہ دورۂ انقرہ منسوخ کر دیا۔ ترک صدر کے ترجمان نے اپنے رد عمل میں واضح کیا کہ اس طرح کے مظاہرہ کی اجازت دینے کا مطلب نفرت اور اسلاموفوبیا کی حمایت کرنا ہے۔ سویڈن کے وزیر خارجہ نے اس واقعہ کے تناظر میں اگرچہ یہ کہا کہ حکومت مظاہرین سے متفق نہیں تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے نام نہاد آزادی اظہار کے تصور کا حوالہ دیتے ہوئے اس اقدام کا دفاع بھی کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ دو ملکوں کے مابین اختلاف رائے پر دنیا کے دو ارب کے قریب مسلمانوں کی دل آزاری کا جواز آزادی اظہار کو کیوں کر بنایا جا سکتا ہے…؟ یہ کھلم کھلا اشتعال انگیزی ہے جس کو آزادی اظہار کا نام دے اس کی شدت کم اور مجرموں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے…!!!
مسلمانوں کی دینی غیرت اور حمیت کو للکارنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں، سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین سے لے کر توہین رسالتؐکے ان گنت مرتکبین کو مغربی ممالک میں پناہ دے کر مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے جا رہے ہیں، گوانتاناموبے کے عقوبت خانہ میں قرآن حکیم کے مقدس اوراق بیت الخلاء میں پھینک کر مسلمان قیدیوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے اور دنیا بھر کے فرزندان توحید کو کھلا چیلنج دینے کا اہتمام کیا گیا۔ فرانس کے صدر نے اپنی سرپرستی میں محسن انسانیت، رحمۃ اللعالمین، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ ؐ کی شان میں گستاخی اور گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کروائی، اس طرح کے متعدد تکلیف دہ واقعات سے مغربی دنیا کی تاریخ بھری پڑی ہے جن کا مقصد امت مسلمہ کے مذہبی جذبات کی توہین کے سوا کچھ اور نہیں تھا مگر دوسری جانب مسلمانوں کی طرف سے رد عمل میں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہ کیا جا سکا اور حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘ کا مظاہرہ ہر بار دیکھنے میں آیا۔ مسلمانوں میں سے جس سے پوچھئے اسلام پر مرمٹنے اور رسول اکرمؐ کی ذات اقدس کی حرمت پر جان فدا کر دینے کے دعوے عام سنائی دیتے ہیں مگر عملی کیفیت اس شعر سے مختلف نہیں ؎
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
سویڈن کے تازہ سانحہ پر بھی پاکستان، سعودی عرب، قطر، ایران، عراق، اسلامی تعاون تنظیم اور بعض دیگر ممالک کی طرف سے مذمت کے بیانات سامنے آئے ہیں قبل ازیں فرانس کے صدر کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی سرپرستی کے بعد پاکستان میں شدید احتجاج ہوا، تحریک انصاف کی اس وقت کی حکومت نے تحریک لبیک کے ساتھ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاہدہ بھی کیا مگر اس معاہدہ کا حشر یہ کیا گیا کہ ’تحریک لبیک‘ کو کالعدم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے کارکنان کو گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے احتجاج کے پس پشت بھارت کا خفیہ ہاتھ بھی تلاش کر لیا گیا حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ حکومت میں سفارتکار کی بے دخلی کا وعدہ پورا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ فرانس کے اسی صدر کے ساتھ بعد ازاں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم مصافحہ اور معانقہ کے ذریعے اپنی مغرب سے وفاداری کا یقین دلاتے پائے گئے۔ یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں، الا ماشاء اللہ عالم اسلام کے تمام حکمران اسی بزدلانہ ذہنیت سے سرشار ہیں۔ ان حکمرانوں کے اسی طرز عمل نے عالم کفر کے حوصلوں کو مہمیز دی ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کی پیش کردہ ایک قرار داد اقوام متحدہ میں منظور کی گئی جس میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اسے عالمی امن و سلامتی کے خلاف ایک سازش قرار دیا گیا۔ مگر اس طرح کے مسائل کیا کبھی قراردادوں سے حل ہوئے ہیں۔ لاتوں کے بھوت بھی کبھی باتوں سے مانے ہیں…؟؟؟
(حامد ریاض ڈوگر)