ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے برسوں کی تحقیق کے بعد چار وادیوں کو انسانی تہذیب کے پالنوں کا نام دیا ہے جن میں بیٹھ کر نسل ِ انسانی نے تہذیب وتمدن کے پہلے ہلکورے لیے۔ ان چار پالنوں میں ایک یوفریٹس اور ٹائگریس(دریائے دجلہ و فرات)کی وادی (میسو پوٹیمیا)، دوسری مصر میں دریائے نیل کی وادی، تیسری چین میں ہوئنگ ہو اور یانگٹیسا کی وادی اور چوتھی پنجاب اور سندھ میں دریائے سندھ کی وادی ہیں۔ یہ وہ وادیاں ہیں جہاں سے انسانوں نے ہزاروں سال پہلے اُس سفر کا آغاز کیا جو آج بھی جاری ہے۔ اُس زمانے میں وادی سندھ کے معاشی، معاشرتی اور تجارتی تعلقات اپنی ہم عصر تہذیبوں یعنی مصر اور سومیری تہذیب سے استوار تھے۔ موئن جو دڑو اور ہڑپہ اس تہذیب کے دارالحکومت تھے۔
وادی سندھ کو یہ خوبصورت نام آریائوں نے دیا۔ آریائوں سے قبل سندھ کو کیا کہا جاتا تھا اس بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ سندھ کو یہ نام دریائے سندھ کی نسبت سے دیا گیا۔ جب آریا اس علاقے میں آئے تو انہوں نے اسے سپت سندھو کا نام دیا، یہ لفظ سنسکرت کا ہے، سنسکرت میں سپت کے معنی سات، اور سندھو سنسکرت میں دریا کو کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس لفظ میں سے سپت حذف ہوگیا اور سندھو دریائے سندھ کے نام اور اسم خاص کے طور پر استعمال ہونے لگا۔ اس امر کا ثبوت رگ وید کے اشلوکوں سے ملتا ہے۔
ویدک لٹریچر کی تحریریں ایک لحاظ سے قدیم اور اہم مذہبی تحریریں ہیں۔ ان تعدیسی تحریروں میں دریائے سندھ کے کناروں پر سکونت اختیار کرنے والے آریائی گروہوں کے رمشئی وادی سندھ کی تہذیب وتمدن اور اس کی خوشحالی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جس زمانے میں رگ ویدوں میں سندھ کی خوشحالی کے تذکرے ملتے ہیں اس سے تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح 3000ق۔م سے 2500ق۔م میں دنیا کے منظرنامے پر نظر ڈالتے ہیں تو دریائے سندھ کے کنارے پر آباد دنیا کی ایک بڑی ریاست کے مہان جہازراں تجارتی مال ومتاع مشرق سے مغرب لاتے لے جاتے نظر آتے ہیں۔ پراچین اتہاس کے زمانے میں دنیا میں یہ واحد قوم تھی جو پنی یعنی تاجر کہلاتی تھی۔
قبل از تاریخ زمانوں میں وادی سندھ کے پنی لوگوں کی تجارت دریائوں اور سمندری راستوں کے علاوہ خشکی کے راستوں پربھی ہوتی تھی۔ یہ تجارتی راستے سندھ کے مرکزی شہر ہڑپہ اور موئن جو دڑو سے تجارتی سامان اور مصنوعات قافلوں کی صورت میں کیرتھر پہاڑی سلسلوں کے دروں سے نکل کر وادی بولان میں داخل ہوتے تھے اور یہ راستہ دریائے ہلمند پارکرکے تہران پہنچتا تھا، جس کے بعد سوس، لاگاش، ایلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مولود وطن مالوف اُر میں داخل ہوتا تھا، جہاں سے مصر کے بازاروں کی رونق بنتا تھا۔
آریائی قبیلے وسط ایشیا کے علاقے سے وادی سندھ میں داخل ہوئے۔ ان کی زبان سنسکرت تھی۔ وہ خود کو سب سے اعلیٰ وارفع سمجھتے تھے، اس لیے خود کو آریا کہتے تھے۔ سنسکرت میں آریا کا مطلب اونچے حسب ونسب اور اونچی ذات سے تعلق رکھنے والا اور آزاد کے ہیں۔ آریائوں سے قبل سندھ میں دراوڑ آباد تھے۔ دراوڑ امن پسند تھے، علم وہنر میں یکتا تھے۔ دراوڑوں کے معاشرے میں مادری نظام رائج تھا، سنسکرت میں بھی دراوڑی زبان کے بے شمار الفاظ شامل ہیں۔ ہندو مذہب کا کئی جنموں کا نظریہ بھی آریائو ں نے دراوڑوں سے ہی حاصل کیا ہوگا۔ رگ ویدوں میں دراوڑوں کا ذکر تین ناموں داس، داسیو یعنی غلام اور اسوریا اشور سے آیا ہے۔ وادی سندھ میں آریائوں کی آمد کے بعد کی تہذیب کو اگر آریائی تہذیب کے ساتھ دراوڑ تہذیب کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
وادی سندھ کی تہذیب وتاریخ اور صنعت وتجارت کا ایک سنہری دور جو قبل از تاریخ رہا ہے اسے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ اس زمانے یا اس کے بعد ملنے والی آثار قدیمہ کی تحقیقات، شہادتوں اور تحریروں کا جائزہ لیا جائے، کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جس سے سندھ کی قبل از تاریخ زمانوں میں جاری تہذیب و ثقافت اور صنعتی وتجارتی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔
وادی سندھ کی تہذیب کی باقیات سے دستیاب ہونے والی دوہزار مہریں بجائے خود صنعتی، تجارتی اور ثقافتی شہادتیں ہیں۔ مصری تہذیب وتاریخ کے محققین مسٹر لئسن اور ولکسن نے پنی لوگوں کی تجارت اور تجارتی سفر سے متعلق جو تحقیقات کی ہیں اس سے ہمیں یہ اشارے ملتے ہیں کہ سمندری ساحلوں کے ذریعے جو تجارتی مال سندھ کی بندرگاہوں سے روانہ ہوتا تھا وہ براہِ راست مصر نہیں آتا تھا بلکہ یہ تجارت صابی بندرگاہوں کے ذریعے قائم تھی (ص۔63قدیم سندھ کی تجارتی تاریخ۔ مصنف چیتن لال ماڑی والا)۔ دوسری صدی قبل از مسیح کے محقق اگارتھا سیڈس تحریر کرتے ہیں کہ سندھی تاجروں کے لیے یہ کام آسان تھا کہ وہ اپنا تجارتی مال لاد کر خلیج فارس کے راستے اپنے وطن روانہ ہوجاتے۔ وادی سندھ کی باقیات سے سونے، چاندی اور قیمتی پتھروں کے زیورات کی دریافت کچھ اس طرح سے ہوئی ہے کہ مسٹر ڈکشٹ کو جوDKایریا کی کھدائی کے نگراں تھے، چاندی کے برتن میں بہت خوبصورت سونے اور چاندی کے ہار ملے۔ ہڑپہ کی کھدائی کے دوران مسٹر وتس کو ایک بیش بہا ہار چاندی کے ڈبے میں رکھا ہوا ملا جو انمول تھا۔
مغربی ایشیاء، مشرقِ وسطیٰ اور مصر کی وادیوں سے سندھ کی تہذیب کی کئی اشیاء ملی ہیں جن کی صنّاعی وادی سندھ میں ہوئی تھی۔2750ق۔م کے سمیری تہذیب کے ایک بادشاہ کے مقبرے سے سونے کی ایک پن دستیاب ہوئی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سوئی کی ڈھلائی اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ اس سوئی کو وادی سندھ کے زرگروں نے بنایا ہوگا۔
تہذیبوں کے تقابلی جائزوں سے بھی پتا چلتا ہے کہ قدیم سندھی لوگ بڑے جوہری تھے اور اُس وقت کی ہم عصر تہذیبوں میں اُن کے تیار کیے ہوئے زیورات کی بڑی مانگ تھی۔ وادی سندھ کی تہذیب کی کھدائیوں کے دوران کئی جگہوں سے سونے، چاندی اور منکوں کے گراں قدر زیورات ملے تھے۔آثارِ قدیمہ کے ماہر محمد ادریس اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ موئن جو دڑومیںHایریا کی کھدائی کے دوران سونے کے لاتعداد منکے دریافت ہوئے ہیں۔ سونے کے منکے مصر میں2300ق۔م سے2500ق۔م، اور ٹرائے میں تقریباً 2300ق۔م کے زمانے کے ہیں۔
پاکستان کے مایہ ناز محقق وتاریخ دان سبط حسن اپنی کتاب ’’پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ سندھی دراوڑوں کا شمار دنیا کی گنتی کی اُن چند اقوام میں ہوتا تھا جو اُس وقت اپنی شہری زندگی کی تنظیم کو بام عروج پر پہنچاچکی تھیں۔ جب دوسری اقوام غاروں یا قبیلوں کی شکل میں خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہی تھیں وادی سندھ میں رہنے والے دراوڑ اس زمانے میں بھی نہ صرف مہذب بلکہ ممتدن تھے۔ دراوڑ بہت ہی نفیس،تیز فہم اور تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔
موئن جو دڑو کے کھنڈرات دیکھنے سے آج بھی لگتا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کرنے والے انجینئر فقط مادی سوچ نہیں بلکہ تخلیقی ذہن رکھتے تھے، موئن جو دڑو میں فراہمی ونکاسی آب کے بہترین نظام کے آثار موجود ہیں۔ سندھی دراوڑوں کا اپنی ہم عصر تہذیبوں سے بڑا مضبوط تجارتی رشتہ تھا۔ سندھ کے باشندوں کی خوش قسمتی تھی کہ ان کے پاس بہترین محلِ وقوع کی حامل ساحلی پٹی تھی۔ وادی سندھ کا ایک احسان جو باقی دنیا پر تاقیامت رہے گا وہ کپاس کی کاشت اور اس کے ریشے سے دھاگا بنانے کے بعد کپڑا بُننے کے فن کی ایجاد ہے۔ یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس وقت دوسری اقوام کھالوں سے اپنی ستر پوشی کرتی تھیں اُس وقت وادی سندھ کے زرخیز کھیتوں میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول ستاروں کی طرح جگمگاتے تھے۔ جس وقت دوسری اقوام کے افراد درختوں کی چھال میں پتّے پروکر کمر سے باندھتے تھے اُس وقت موئن جو دڑو کے ہر آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے پہیّے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں۔
قدیم سندھ کی قدیم صنعت پارچہ بافی کی جیتی جاگتی حقیقت اُس وقت کھل کر سامنے آئی جب آثار قدیمہ کے ماہر دیا رام شافی کو کھدائیوں کے دوران چاندی کے ایک برتن میں ہار اور نگینے ملے۔ یہ زیورات ایک ملائم اور نفیس کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔ اللہ کی شان ہے کہ سندھ کی تہذیب سے وابستہ کپڑے کا ٹکڑا جو چاندی کے برتن کے ساتھ منسلک تھا، پانچ ہزار برس تک اپنی حیثیت قائم رکھ سکا۔ زمانۂ قبل از تاریخ وادی سندھ میں پیدا ہونے والی کپاس کے ریشوں سے بنے کپڑے کی پائیداری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی!
وادی سندھ کے لوگوں کا اصل مذہب کیا تھا؟ اس عظیم تہذیب کے وارث کسی الہامی مذہب کے پیروکار تھے یا اُن کا مذہب خودساختہ یا تحریف شدہ تھا؟ مذہبی نقطہ نظر سے وادی سندھ کی تہذیب کی تفہیم کے لیے بہت زیادہ کام نہیں ہوا۔
سب سے پہلے سر الیگزینڈر کنگھم، ڈاکٹر پی کے جیسوال اور رائے بہادر بشن سروپ نے براہمی حروف کی مدد سے موئن جو دڑو کی مہروں اور تصویری نشانات کو سنسکرت میں پڑھنے کی کوشش کی۔ ان کا دعویٰ تھا کہ براہمی حروف اور اس کا رسم الخط براہِ راست وادی سندھ کی لکھائی سے ماخوذ ہے۔ اس طرح سنسکرت زبان کا وادی سندھ سے خاص تعلق قائم کیا گیا، جس کا نتیجہ یہی تھا کہ تہذیب کا تعلق ہندومت سے جوڑ دیا جائے۔ فادر ہیراس نے اپنی کتاب(Studied in proto-Mediterranean Culture Bombay 1953) میں ثابت کیا ہے کہ مہروں کی اصل زبان دراوڑی دور سے پہلے کی زبان (Proto-Dravidian) ہے اور اسی سے ہندوستان کی تمام دراوڑی زبانیںنکلی ہیں۔ آریائوں کی آمد کے بعد دراوڑوں نے ہندومت اختیار کرلیا تھا، لہٰذا اس نقطہ نظر سے بھی وادی سندھ کے لوگوں کا تعلق ہندو دھرم سے جوڑا جاسکتا ہے۔
بنارس ہندویونیورسٹی کے محقق اور مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر پران ناتھ کے دو تحقیقی مضامین (Indian Historical Quarterly Vol.vii & viii Cucutta 1931-32)اور پھر روزنامہ پائنیر (لکھنؤ 1957ء) فروری10,17,24،3… مارچ 3,10,17,24… اور7اپریل میں شائع ہوئے جن میں وادی سندھ کے لوگوں کو ہندو مت سے وابستہ قرار دیا گیا۔ ان مضامین میں وادی سندھ کی تہذیب کو ہندو تہذیب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
وادی سندھ کا رسم الخط الف بائی ہے۔ اس کے حروف کا علم سندھی نشانات کا تجزیہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے جو براہمی حروف سے مشابہت رکھتے ہیں۔ وادی سندھ کے رسم الخط کا تعلق اُن علامات سے ہے جو جنوبی ہند کے مٹی کے تابوتوں پر پائی جاتی ہیں۔ سنسکرت زبان والوں اور ہندومذہب کے پیروکاروں کا دوسری زبانوں سے تحقیر آمیز رویہ تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا رویہ نہیں ہے، مختلف اقوام تاریخی طور پر ان رویوں کا شکار ہوچکی ہیں، مثلاً یہودی اپنے آپ کو اللہ کی محبوب ترین قوم ظاہر کرتے ہیں، اسی بنیاد پر نجات اور جنت کا حق دار صرف اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر پران ناتھ کا دعویٰ کہ ہندو مت وادی سندھ کا دھرم تھا، اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً انہوں نے گجرات کے ہندو راجائوں کی حکومت کا ذکر کیا ہے کہ یہ ایک تاریخی حکومت تھی۔ گجرات میں صنعت وحرفت کی عالی شان ترقی کے بارے میں تاریخ تفصیل سے بیان کرتی ہے۔گجرات کی تاریخ اکتشافات، ایجادات وکمالات کی تاریخ ہے، حتیٰ کہ وہاں مغل دور اور اس سے پہلے بھی کاغذ کی صنعت کے شواہد ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے پر کسی زبردست تہذیب کا سایہ ماضی میں رہا ہے۔ یہ سایہ وادی سندھ کی تہذیب کے سوا کوئی اور سایہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن مولانا ابوالجلال ندوی اس تہذیب کو مذہبِ ابراہیمی سے ملاتے ہیں اور ڈاکٹر پران ناتھ اسے ہندو مت کا مظہر قرار دیتے ہیں۔
ہڑپہ اور موئن جو دڑو سے ایک عالی شان مجسمہ بھی دریافت ہوا ہے جس نے احرام کی طرح کا لباس زیب تن کررکھا ہے جو ابراہیمی مذہب کی یادگار ہے اور مسلمان آج بھی سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں حج وعمرہ کے دوران احرام یعنی غیر سلا کپڑا ملبوس کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذہبِ ابراہیمی کا لباس پہننے والا مجسمہ سازی اور بت گری کیسے کرسکتا ہے؟ ابوالجلال ندوی کا یہ دعویٰ درست ہوسکتا ہے کہ موئن جودڑو اور ہڑپہ والے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت میں شامل تھے اور گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں شرک کے آثار پیدا ہوگئے ہوں۔ ہڑپہ، موئن جودڑو، کوٹ ڈیجی، ڈیرہ اسماعیل خان، چولستان اور مہرگڑھ کی کھدائیوں سے ابھی تک کوئی مندر برآمد نہیں ہوا ہے، لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مندروں کے بغیر وادی سندھ کی تہذیب کا تعلق ہندو مت سے کیسے جوڑا جاسکتا ہے؟ مولانا ابوالجلا ل ندوی کے ایک مضمون بعنوان ’’آثار وافکار‘‘کے مطابق سندھ کی قدیم قبریں قبلہ رخ ہیں، بلوچستان میں ہرونامی پہاڑی پر ایک نقش بنا ہوا ہے، اس نقش کے بالکل سامنے ایک قبر ہے جو اس لیے نہیں کھودی گئی کہ یہ ایک مسلمان کی قبر ہے۔ قدیم زمانے کی جتنی قبریں ملی ہیں سب مسلمانوں جیسی ہیں، اُن کا رخ کعبہ کی جانب ہے، یہاں کے لوگ ملتِ ابراہیمی کے قائل تھے۔ ہم نے ایک مہر میں حنفہ ایک شخص کا نام پڑھا، ان لوگوں کا عقیدہ تحریر ہی نہیں بلکہ بنی ہوئی تصویر سے بھی ثابت ہوا۔ وادی سندھ کی تہذیب حضرت ابراہیمؑ کی آمد سے پہلے کی تہذیب تھی اور حضرت ابراہیمؑ سے پہلے بھی انبیاء کی آمد کا سلسلہ کائنات میں جاری وساری رہا۔ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل مشرکینِ عرب کے کچھ طبقات، اور اہلِ کتاب میں اصحابِ فطرت(اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل)موجود تھے، اسی طرح وادی سندھ کے لوگوں میں بھی وحدانیت کے افکار وعقائد یقیناً موجود رہے ہوں گے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی اسماعیلی شاخ میں ڈھائی ہزار سال بعد تشریف لائے۔ اس طویل مدت میں عرب کے لوگ مشرک بھی ہوئے، لیکن ایسے بھی بہت سے لوگ تھے جو شرک اور بت پرستی سے بیزار تھے، جو صحرائوں میں جاکے اللہ کو پکارتے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حنفاء کہا۔
ہڑپہ اور موئن جو دڑوکی کھدائی کے دوران ایک ایسے بڑے مکان کا نشان ضرور ملتا ہے جس کو کہا جاسکتا ہے کہ وہ مرکزی عبادت گاہ ہوگی، تاہم موئن جودڑو کے گلی کوچوں میں مندر یا معبد خانے ہوں گے ایسی عمارتوں کی نشاندہی ابھی تک نہیں ہوسکی۔
(جاری ہے)