’’نہرزبیدہ‘‘ ایک فرشتہ صفت خاتون کا صدقہ جاریہ

عہد فاروقی سے دور جدید تک مکہ مکرّمہ اور مشاعر مقدّسہ میں پانی کی ترسیل کے چند کامیاب منصوبوں کا تذکرہ

خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد اس کے آس پاس قبیلہ جرہم آباد ہوگیا تھا اور اس کا انحصار صرف زمزم کے پانی پر تھا۔ جب قبیلہ خزاعہ نے بھی یہاں سکونت اختیار کرلی تو انہوں نے اپنی ضروریات کی خاطر مکہ کے اردگرد پانی کے چند کنویں کھود لیے تھے۔

اسلام کے ظہور اور زبردست فتوحات کے بعد مختلف دور دراز علاقوں سے لوگوں نے مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرنا شروع کردیا تھا، جس کی وجہ سے تیزی کے ساتھ یہاں کی آبادی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اس لیے زمزم اور چند کنویں لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر کم ہوگئے۔ پھر موسم حج میں پانی کی طلب میں خصوصاً اضافہ ہوجانا قدرتی امر تھا۔ خلیفۃ الرسول حضرت عمر فاروقؓ جب 17ھ میں حج کے لیے تشریف لائے تو یہاں پانی کی کمی محسوس کرتے ہوئے پانی کے مصدر کے لیے کچھ انتظامات فرمائے۔

ان کے بعد خاص طور پر عرفات کے لیے سب سے زیادہ توجہ خلافتِ عثمانؓ بن عفان کے زمانے میں جلیل القدر صحابی عبداللہؓ بن عامر بن کریز نے کی۔ امیر معاویہؓ نے اپنے زمانے میں مکہ مکرمہ کے لیے پانی کی کچھ سہولتوں کا مزید اضافہ کیا، لیکن یہاں آبادی میں مزید اضافے اور حجاج کرام کی تعداد میں مستقل زیادتی کے باعث تمام تر پانی ناکافی ہوتا گیا اور لوگ پانی کی وجہ سے سخت بے چین ہوتے گئے۔

خلیفہ ہارون رشیدؒ کے زمانے (809-776ء) میں موسم حج میں پانی کی طلب میں اضافے کے باعث ایک بالٹی پانی 20 درہم میں بکنے لگا لیکن خلیفہ کی ذاتی دلچسپی کے باعث پانی کی سہولتوں میں مزید اضافہ کروایا گیا۔ خلیفہ ہارون رشیدؒ کی چہیتی بیوی ام جعفر زبیدہ بنتِ جعفر بن المنصور (المتوفی 216ھ) جو خلیفہ کی چچازاد بھی تھیں ، اپنے شوہر کے انتقال کے بعد 193ھ میں حج کی غرض سے مکہ مکرمہ آئیں (وفات ہارون رشیدؒ۔ جمادی الثانی 193ھ)۔ اس صالحہ خاتون نے جب حجاج کرام اور اہلِ مکہ مکرمہ کو پانی کی دشواری اور سخت مشکلات میں مبتلا پایا تو ان کو شدید صدمہ پہنچا، تب انہوں نے ذاتی مال سے ایک عظیم و شاندار نہر کھودنے کا منصوبہ تیار کروایا جو زبیدہ کے باقیات الصالحات کا عظیم شاہکار ہے۔

منصوبے کی تکمیل کے لیے مختلف ممالک کے ماہرین کو طلب کیا گیا تھا۔ منصوبے کی تکمیل پر کئی لاکھ دینار کے اخراجات آئے۔ اس عظیم الشان کام کی انجام دہی سے فراغت کے بعد منتظم اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات تحریری طور پر ملکہ کی خدمت میں پیش کی تھیں۔ اُس وقت ملکۂ محترمہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں، انہوں نے وہ تمام کاغذات دریا برد کردیے اور فرمایا کہ میں یہ حساب قیامت کے دن پر چھوڑتی ہوں۔ میں نے یہ کام محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا ہے۔ مجھے حساب کتاب سے کوئی سروکار نہیں۔ منصوبے سے جو رقم بچ گئی تھی، وہ منتظمین میں تقسیم کردی گئی۔

نہر زبیدہ کا محل وقوع:
مختلف ممالک کے انجینئروں نے مکہ مکرمہ اور مشاعرِ مقدسہ (عرفات، منیٰ، مزدلفہ) کے قریبی علاقوں کے تفصیلی معائنے کے بعد فیصلہ کیا کہ مکہ و طائف (طریق سیل کعبہ) کے راستے پر وادی حنین کے پہاڑی علاقے ’’طاد‘‘ سے نہر نکالی جائے۔ اس وادی میں ایک چشمہ تھا، جس سے کہ اس علاقے کے لوگ مستفید ہوتے اور زراعت کرتے تھے۔ یہ وہی علاقہ ہے جس کے لوگوں (مشرکین) سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ فرمائی تھی جو غزوہ حنین کہلاتی ہے۔ اس تمام علاقے کو خرید کر وہاں کے چشمے کو مختلف طریقوں اور راستوں سے گزار کر عرفات کے جبل الرحمۃ تک لایا گیا۔

یہ وادی مکہ سے تقریباً 35 کلومیٹر پر واقع ہے۔ ایک دوسری نہر جس کا پانی جبل کرا سے وادی نعمان کی طرف جاتا تھا، اسے بھی اس میں شامل کردیا گیا۔ یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا (’’جبل کرا‘‘ وہ پہاڑ ہے جس پر چڑھنے میں کم از کم آدھا دن لگ جاتا تھا)۔ اس کے علاوہ منیٰ کے جنوب صحرا میں ایک تالاب ’’بیر زبیدہ‘‘ نامی تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا، اس سے سات کاریزوں (نالیوں)کے ذریعے نہر میں پانی شامل کیا جاتا تھا۔ پھر وہاں سے ایک لائن مسجد نمرہ، مزدلفہ، منیٰ اور مکہ مکرمہ کی طرف بھی لے جائی گئی تھی۔ اس سخت محنت طلب منصوبے کی تکمیل میں زبردست کھدائی اور پہاڑوں کے کام شامل ہیں۔

عرفات میں کئی سمتوں میں مختلف چھوٹے چھوٹے حوض بناکر انہیں پانی پہنچایا گیا۔ اسی طرح مزدلفہ کے ایک علاقہ دقم الوبر تک لایا گیا اور منیٰ کی مسجد خیف کے پیچھے حوض البقرالثانی تک اسی نہر کے ذریعے پانی کی سہولت پہنچائی گئی۔ اگر ہم آج سے اس زمانے کی طرف سوچیں تو زبردست حیرانی ہوگی کہ کس طرح ان علاقوں کے پہاڑی علاقوں سے گزارا گیا ہوگا اور کس طرح ان بنجر زمینوں کی کھدائی کی گئی ہوگی۔

یہ صرف ان نیک خاتون کے عزم ہی کا نتیجہ تھا، ورنہ یہ کام جس سے کہ اہلِ مکہ مکرمہ، زائرینِ حرم اور صحابہ کرام کو زبردست سہولت ہوگئی، کوئی معمولی کام نہ تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کچھ فنی، پہاڑی علاقوں کی کٹائی اور بعض سخت و پیچیدہ کھدائی کے باعث وادی النعمان کا پانی مکہ مکرمہ تک نہ پہنچایا جا سکا، البتہ اٖسی زمانے میں اس سے حجاج کرام عرفات، مزدلفہ اور منیٰ میں خوب مستفید ہوتے رہے، لیکن عین حنین سے مکہ والے بھی قدرے فائدے اٹھاتے رہے۔

نہر زبیدہ کی ترجیحات و اصلاحات اور بعد کے دوسرے منصوبے :
210ھ اور 241ھ میں مکہ مکرمہ کے بعض علاقوں میں مزید چھوٹے چھوٹے حوضوں کے اضافے کیے گئے تھے۔ 245ھ میں مکہ مکرمہ میں زلزلہ آگیا جس کی وجہ سے نہر اور چشموں کو خاصا نقصان پہنچا، جن کی مرمت اور اصلاحات کے لیے خلیفہ المتوکل علی اللہ جعفر نے ایک لاکھ دینار ارسال کیے۔ اس کے بعد 502ھ میں ابراہیم بن خلقان نے کچھ کام کرایا اور انہوں نے جبل الرحمہ کے جوار میں اپنے کام کا پتھربھی نصب کروایا تھا۔

630ھ میں امیر شرف الدین عباسی نے طائف سے منیٰ کی لائن میں اصلاحات کرائیں۔ خلیفہ المستنصر باللہ العباسی نے بھی 625ھ اور 634ھ میں اس پر کام کروایا۔ اسی طرح مختلف صدیوں میں مختلف اسباب کی وجہ سے نہر زبیدہ میں شگاف اور ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہی اور اصلاحات کے مختلف کام جاری رہے۔ 1295ھ میں ہندوستان کے مسلمان علما اور اہلِ خیر حضرات نے بھی اس کام کی طرف توجہ دی اور الشریف عبداللہ پاشا کے زمانے میں ایک مستقل امدادی کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس میں ہندوستان اور مصر کے معاونین نے مالی امداد فراہم کی۔ ہندوستان نے نہر کی اصلاح کے انجینئرز اور اوزار بھی مہیا کیے۔ مکہ مکرمہ کے اردگرد پہاڑوں کی کثرت کی وجہ سے بارش کے وقت بعض علاقے تیز سیلابی شکل اختیار کر جایا کرتے اور نہر کے راستوں کو نقصان پہنچاتے۔ اسی طرح 18محرم 1330ھ شریف حسین کے زمانے میں وادی نعمان کے علاقے میں نہر زبیدہ کی نالیاں سیلاب کی وجہ سے مٹی سے بھر گئیں۔ 10 روز تک پانی کا اجرا رُک گیا۔ امیر شریف نے اسے صاف کروایا۔

اسی طرح ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کے زمانے 1344ھ میں وادی نعمان میں زبردست سیلاب کی وجہ سے نہر کو نقصان پہنچا اور تقریباً تین ماہ تک پانی کی روانی رُک گئی تھی جس کے بعد ’’عین زبیدہ‘‘ کے نام سے مکہ مکرمہ میں ایک مستقل ادارہ بنادیا گیا تھا، تاکہ نہر کی دیکھ بھال کا کام مستقل طور پر کیا جا سکے۔ ملک عبدالعزیز نے اس کی سرپرستی فرمائی اور مکہ مکرمہ میں پانی کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی۔ 1371ھ میں امیر عبداللہؒ بن ملک فیصل نے مکہ طائف کے راستے 45 کلومیٹر پر ایک نئے چشمے کے پانی کو اپنے مال سے مکہ مکرمہ لانے کا ارادہ کیا لیکن ملک فیصل بن عبدالعزیزؒ (شہید) نے اس قیمتی کام کی ذمہ داری خود سنبھال لی اور مواصیر(پائپوں) کے ذریعے پانی مکہ تک پہنچایا اور تمام شہر میں اس کی شاخیں بھی بچھائی گئیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ملک سعود بن عبدالعزیزؒ نے 1376ھ میں بھی مکہ سے 70 کلومیٹر فاصلے پر وادی اللیمون کے ایک چشمے کے پانی کو بھی مکہ تک پہنچانے کا حکم دیا تھا، جس کی تکمیل میں کئی ماہ لگے۔

دورِ جدید میں مکہ مکرمہ اور ملحق شہر الطائف کے لیے مشترکہ پانی کے منصوبے:
دورِ جدید کے پہلے مرحلے میں مکہ مکرمہ سے تقریباً 20 کلومیٹر وادیٔ جموم سے پانچ میٹھے کنووں کے ذریعے مکہ کے مغربی علاقوں کو پانی سپلائی کیا گیا اور بڑے منصوبے پرمکہ مکرمہ، طائف اور مشاعر المقدسہ میں پانی کی مزید سہولت اور فراوانی کی غرض سے سمندر کے پانی کو میٹھا کرنے کا ایک پلانٹ مکہ سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر شعیبہ کے مقام پر لگایا گیا، اور جدید طریقے سے مکہ مکرمہ، مشاعر مقدسہ اور طائف تک پانی کی ترسیل کا انتظام کیا گیا۔ اس منصوبے پر 2.6 بلین ریال کے اخراجات ہوئے۔ مکہ مکرمہ میں 5 ملین گیلن روزانہ ضرورت کا حساب کیا گیا لیکن مستقبل کی ضرورت اور طلب کا بھی حساب رکھتے ہوئے 25 ملین گیلن روزانہ کے حساب سے پلانٹ بنایا گیا ہے۔ اس پلانٹ کا افتتاح خادم الحرمین الشریفین ملک فہد بن عبدالعزیزؒ نے عرفات کے قریب وادی نعمان میں بتاریخ 21 جولائی 1988ء – 7 ذوالقعدہ 1408ھ کو کیا تھا۔ اس پلانٹ کی تکمیل میں تقریباً 4 سال کا عرصہ صرف ہوا۔ سعودی عرب میں کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے ادارےSWCC سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق1989 ء میں مکہ/الطائف کے لیے تین مراحل میں مشاعرالمقدس سمیت حج کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے بتدریج منصوبہ بندی کرکے 2005ء سے کافی پانی مہیا کیا جارہا ہے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ میٹھے پانی کے تخزین کے مسئلے پر بھی خاصی توجہ دی گئی اور اس کے لیے 20 بڑے ٹینک مکہ اور دو دیوہیکل ٹینک بالترتیب منیٰ کے علاقے المعیصم والشرایٔع میں بڑی جدوجہد کے بعد پہاڑوں پر تعمیر کردیے گئے ہیں۔