کراچی نےکروٹ بدلی ہےاور اپنی کھوئی ہوئی اور اس کی کھوئی سماجی،سیاسی،ثقافتی شناخت واپس آنے میں پیش رفت ہوئی ہے اور امکانات بڑھے ہیں اور چمکتا دمکتا مہکتا کراچی بنانے کے لیے کراچی کے لوگوں نے جماعت اسلامی کو مینڈیٹ دیا ہے جس پر پیپلز پارٹی نے شب خون مارا ہے اور جماعت اسلامی کی اس ضمن میں بھی جدوجہد جاری ہے.
اس سے قبل جماعت اسلامی کی ”حق دو کراچی“ تحریک نے بہت تیزی کے ساتھ پذیرائی حاصل کی اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کراچی کے ہر شہری کی تحریک بن گئی ہے،ا س میں کوئی دو رائے نہیں کہ شہر کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اسے بڑی فتح حاصل ہوئی ہے۔ صورتِ حال یہ تھی کہ شہر میں جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن ہر گھر کی آواز بن چکے تھے، کیا بچہ اور کیا بوڑھا اور کیا نوجوان.. سب کے منہ سے ایک ہی بات سننے کو مل رہی تھی اور مل رہی ہے کہ حل صرف جماعت اسلامی ہے۔ اور کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں دیگر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور ذمہ دار سطح کے لوگوں نے بھی ووٹ ترازو کو دیا۔ جماعت اسلامی کی گھر گھر مقبولیت سے پیپلز پارٹی بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی تھی، اُس نے اپنی اتحادی ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر انتخابات ملتوی کرانے کی پوری کوشش کی جسے جماعت اسلامی کی جدوجہد اور حافظ نعیم الرحمٰن کی استقامت نے ناکام بنادیا اور یہ آپس میں لڑ پڑے۔ وہ تو پسِ پردہ کسی قوت نے انہیں اکٹھا رکھا ہوا ہے ورنہ اب تک ایم کیو ایم حکومت سے نکل چکی ہوتی۔ لیکن پیپلز پارٹی نے انتخاب والے دن اپنے روایتی کام کو جاری رکھا اور جہاں بس چلا اُس نے دھاندلی کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اس کے بعد جو کسر رہ گئی تھی وہ الیکشن کمیشن اور اپنے منظورِ نظر ڈی سی اوز کے ذریعے نتائج میں تبدیلی کرکے پوری کی۔
کراچی ڈویژن کی 245 یوسیز میں سے 235 یوسیز میںجماعت اسلامی شہر کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے،لیکن نتائج کی ہیرا پھیری ابھی بھی جاری ہے اورتادم تحریر الیکشن کمیشن کے مطابق پیپلز پارٹی کو 91سیٹیں ملیں، اور جماعت اسلامی 88 نشستوں کے ساتھ اب تک دوسرے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف 40 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ن) 7، جے یو آئی 3، تحریک لبیک نے 2،ایم کیو ایم حقیقی نے ایک نشست جیتی، جبکہ آزاد امیدوار 3 یوسیز پر کامیاب ہوگئے۔
اب تک کے نتائج کی تفصیلات کو دیکھا جائے تو ضلع ملیر میں پیپلز پارٹی 20 یوسیز پر کامیاب ہوئی جبکہ پی ٹی آئی 4، جماعت اسلامی2، نون لیگ 2 یوسیز پر کامیاب ہوئی، ایک یو سی پر آزاد امیدوار کامیاب ہوا۔ کراچی کے ضلع جنوبی میں 26 میں سے 15 یونین کونسلز پر پیپلز پارٹی اور 9 پر تحریک انصاف کامیاب ہوئی، ایک نشست پر تحریک لبیک کا پینل منتخب ہوا اور ایک نشست پر انتخاب ملتوی ہوگیا۔ لیاری ٹاؤن کی 13 میں سے 12 نشستوں کے نتائج میں 11 نشستیں پیپلز پارٹی نے جیت لی ہیں جبکہ پی ٹی آئی ایک نشست پر کامیاب ہوسکی ہے۔ صدر ٹاؤن کی تمام 13 نشستوں کے نتائج سامنے آچکے ہیں جن میں پی ٹی آئی اب تک 8 نشستیں حاصل کرچکی ہے جب کہ پیپلز پارٹی نے 4، اور ایک نشست تحریک لبیک نے حاصل کی ہے۔ کراچی کے ضلع وسطی میں جماعت اسلامی واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی ہے، یہاں جماعت اسلامی نے 42 میں سے 39 یوسیز میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جماعت اسلامی گلبرگ اور نارتھ ناظم آباد ٹاؤن میں تمام 16یوسیز پر کامیاب ہوئی ہے، جب کہ لیاقت آباد ٹاؤن میں7 اور نیوکراچی ٹاؤن میں 10 یوسیز جماعت اسلامی کے نام رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ضلع وسطی میں 3 یوسیز پر کامیابی حاصل کی۔ ضلع شرقی کے نتائج کے مطابق جماعت اسلامی 22 یوسیز کے ساتھ سب سے آگے ہے، پیپلز پارٹی 14 یوسیز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جب کہ تحریک انصاف 7 یوسیز کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی ہے۔ چنیسر ٹاؤن میں جماعت اسلامی نے 4، پیپلز پارٹی نے 3 اور پی ٹی آئی نے ایک یوسی جیتی ہے۔ جناح ٹاؤن میں جماعت اسلامی نے 7، تحریک انصاف نے 4 یوسیز جیتی ہیں۔ گلشن ٹاؤن میں جماعت سلامی نے 6 یوسیز جیتی ہیں جب کہ 2 یوسیز پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی ہیں۔ صفورا ٹاؤن میں جماعت اسلامی نے 5 یوسیز میں کامیابی حاصل کی ہے، جب کہ 3 یوسیز پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے سہراب گوٹھ ٹاؤن میں 6 یوسیز جیتی ہیں جب کہ 2 یوسیز پر پی ٹی آئی کامیاب ہوئی ہے۔ کراچی کے الیکشن کا سب سے بڑا اَپ سیٹ ضلع جنوبی میں ہوا ہے، تحریک انصاف کراچی کے صدر اور کراچی سے رکن صوبائی اسمبلی خرم شیر زمان یوسی کا الیکشن ہار گئے ہیں۔ انہیں صدر ٹاؤن یوسی 11 سے پیپلز پارٹی کے سید نجمی عالم کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نجمی عالم نے اس نشست پر 2 ہزار 696 ووٹ حاصل کیے۔ خرم شیر زمان اس علاقے سے 10سال سے ایم پی اے ہیں اور انہیں پی ٹی آئی کی جانب سے میئر کا امیدوار بھی قرار دیا جا رہا تھا۔ رکن صوبائی اسمبلی ہونے کے باوجود وہ یوسی چیئرمین کی نشست پر انتخاب لڑ رہے تھے۔
یہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ غیر حتمی نتائج ہیں جس پر امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے جماعت اسلامی کی نشستیں کم کرنے پر سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے اور جس کے بعد کچھ نشستوں میں اضافہ ہوا اور ممکنہ طور پر جماعت اسلامی کی نشستوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی شہر کی نمبر ون پارٹی بن کر سامنے آئی ہے اور ہم سادہ اکثریت کی جانب جا چکے ہیں لیکن ہماری واضح اکثریت کو کم کرنے کے لیے آر اوز کے دفاتر میں نتائج تبدیل کیے گئے ہیں، سب سے زیادہ ڈسٹرک ویسٹ کے ٓآفس میں آر او غلام قادر تالپورکے دفتر میں نتائج تبدیل کیے گئے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ 95یوسی میں ہمارے امیدواروں کے فارم 11اور 12ہمارے پاس موجود ہیں ان میں سے 9یوسیز کے نتائج میں آر او آفس میں سازش کے ذریعے ہمیں ہارا ہوا ظاہر کیا گیا ہے۔ ان میں سے 2ہمیں واپس مل گئی ہیں باقی یوسیز میں اورنگی ٹاؤن کے یوسی نمبر 8,7,3 منگھوپیر معمار یوسی 12، گلشن اقبال یوسی 1، مومن آباد یوسی 3اورماڈل کالونی یوسی 8شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 10یوسیز میں ہم نے دوبارہ گنتی کی درخواست بھی الیکشن کمیشن میں جمع کرا دی ہے۔ ہمارے مینڈیٹ پر شب ِ خون ماراگیا ہے اس دھاندلی کے خلاف شہر بھر میں احتجاج کیا جائے گا۔ ہم پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بلاول بھٹو، مراد علی شاہ سے کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے نتائج کی تصحیح کی جائے پھر بات ہوگی،پی ٹی آئی کو بھی شکایت ہیں ہم ان سے بھی کہتے ہیں کہ فارم 11اور 12کے حوالے سے وہ آئیں ہم ان کا ساتھ دیں گے اور اگر اس طرح کا کوئی معاملہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پیش آتا تو ہم اس کی بھی مذمت کرتے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اورنگی ٹاؤن یوسی 7میں فارم 11کے مطابق ہمارے اُمیدوار نے 7494ووٹ حاصل کیے جس کا ثبوت ہمارے پاس موجود ہے لیکن فارم 13میں ان ووٹوں کی تعداد کم کر کے 4500کر دی گئی اور اسی طرح یوسی 8ماڈل کالونی میں ہمیں فراہم کیے گئے فارم 11میں ترازو کے نشان کو 5272ووٹ ملے لیکن فارم 13میں اس تعداد کو 2589کر دیا گیا ہے،جماعت اسلامی شہر میں سب سے بڑی سیاسی و انتخابی قوت بن کر سامنے آئی ہے اور عوام نے ہماری حق دو کراچی تحریک پر بھر پور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ہم اہل کراچی سے بھی بھر پور اظہار تشکر کرتے ہیں کہ جنہوں نے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے شدید ابہام اور گومگو کے باوجود گھروں سے نکل کر ایک معقول تعداد میں ووٹ دیا، ترازو کو کامیاب کرا اوران عناصر کو مسترد کردیا جو چاہتے تھے کہ کوئی گھر سے ہی نہ نکلے۔
پیپلزپارٹی اس وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی ہے ایک طرف سعید غنی میڈیا پر ایسا تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ جیسے پیپلز پارٹی کا یہ مسئلہ ہی نہیں اور دھاندلی میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں ،یہاں تک کے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن سے ٹلیفونک رابطہ ہوا اور انہوں نے بھی ،حافظ نعیم کو خدشات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے لیکن دوسری طرف پیپلزپارٹی کی پوری کوشش ہے کہ وہ کسی طر ح بھی اپنے بظاہر پہلے نمبر کا تاثر ختم نہ ہونے دے، اور اس نے ری کاونٹنگ کا کھیل شروع کردیا ہے کہ جماعت اسلامی کے احتجاج اور مطالبے کے تاثر کو کم کیا جاسکے کیونکہ اگر الیکشن کمیشن صرف فارم 11کے مطابق صحیح نتیجہ دے تو جماعت اسلامی کے پاس 95سے زائد نشستیں آجائیں گی اوروہ شہر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت تو ہے ہی نشستیںلینے والی جماعت بھی بن جائےگی۔
کراچی میں بڑھتی کشید گی اور جماعت اسلامی کی درخواست پر کے بعد الیکشن کمیشن نے کراچی کی 6 یونین کونسلز میں بے ضابطگیوں کا نوٹس لے لیا ہے،اور بلدیاتی انتخابات بے ضابطگی کیس 23 جنوری کو مقرر کر دیا ہے ۔الیکشن کمیشن نے نوٹس اورنگی ٹاؤن کی یو سی 3، 7 اور 8 کے حوالے سے لیا ہے۔ اسی طرح گلشن یوسی 1 میں بے ضابطگی پر بھی نوٹس لیا گیا۔
اس ساری صورت حال میں جماعت اسلامی کی پشت پر پورا ملک کھڑا ہے انتخابی دھاندلی کے خلاف امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی احتجاج کی اپیل پر پورے ملک میں بھرپور احتجاج بھی کیا گیا۔
جماعت اسلامی نے اس شہر کے لیے اپنی خدمات اور تاریخی جدوجہد کو پھر ثابت کیا ہے، اور ایک بار پھر یہ بھی بتایا ہے کہ اگر کوئی اس شہر کی تقدیر بدل سکتا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، کیونکہ یہ علم، کتاب، پڑھے لکھے سنجیدہ، باوقار، محبِ وطن اور محبِ کراچی لوگوں کی جماعت ہے۔ وڈیروں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا مفاد پرست ٹولہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے جس چیز کو ٹھیک اور حق سمجھا اُس کے لیے درست حکمت عملی اور وقت کے تقاضوں کے ساتھ جدوجہد کی ہے، اور ”حق دو کراچی“ تحریک اس کی سب سے اہم مثال ہے جس کا ایک مرحلہ مکمل ہوگیا ہے لیکن جدوجہد کے اہم مرحلے کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس وقت کراچی برباد ہے اور وسائل سندھ حکومت کے قبضے میں ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ صوبہ سندھ کا تعلیمی بجٹ 277 ارب روپے ہے جو کہ صرف حکمرانوں کی عیاشی پر خرچ ہورہا ہے، وڈیرے اور جاگیردار دیہی و شہری سندھ کے بچوں کو تعلیم سے محروم کررہے ہیں، سالانہ تعلیمی بجٹ 277 ارب روپے وڈیروں اور جاگیرداروں سے چھین کر نکالنا ایک بڑا کام ہے کیونکہ اس وقت سندھ کے 44فیصد بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں، صحت اور تعلیم کو تباہ کردیا گیا ہے، کے ایم سی کے بہت اسکول و ڈسپنسریاں سندھ حکومت نے لے لی ہیں۔ کراچی کا شہری اپنے بچوں کو معیاری تعلیم نہیں دلوا سکتا، سرکاری سطح پر کوئی اسکول موجود نہیں ہے کہ جہاں بچوں کو پڑھایا جاسکے۔ کروڑوں کی آبادی والے شہر میں ٹرانسپورٹ کا کوئی مؤثر نظام تک موجود نہیں ہے، کراچی کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں چنگ چی رکشوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ پارک تباہ حال ہیں، پارکنگ پر مافیا کا قبضہ ہے، شہر کے وسائل تقسیم ہیں، اور جو ہیں اُن کا استعمال بھی ٹھیک نہیں ہے۔
اس وقت کراچی کے میئر کے اختیارات کا معاملہ اہم ہے۔ بی بی سی کے مطابق:
”جنرل پرویزمشرف کے دور کے بلدیاتی انتخابات میں شہری حکومتیں قائم کی گئیں، جس میں صحت، تعلیم، پولیس اور مقامی ریونیو محکمے کے علاوہ واٹر بورڈ سمیت دیگر متعدد محکمے میئر کے ماتحت کیے گئے۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد یہ اختیارات واپس لے لیے گئے۔ کراچی کے میئر کے پاس ایم اے جناح روڈ اور شارعِ فیصل سمیت شہر کی 106 سے زائد سڑکوں کی دیکھ بھال اور تعمیر و مرمت کی ذمہ داری ہے، اس طرح ان سڑکوں پر پل، فلائی اوورز اور انڈر پاسز کی تعمیر کا ذمہ بھی ان کا ہے۔ عباسی شہید ہسپتال یعنی شہر کے تیسرے بڑے ہسپتال سمیت شہر میں دانتوں و امراضِ قلب سمیت سات کے قریب ہسپتال بھی ان کے ماتحت ہیں۔ کراچی چڑیا گھر کا شمار پاکستان کے بڑے چڑیا گھروں میں ہوتا ہے۔ اس سمیت سفاری پارک، ایکوریم اور ساحلِ سمندر پر سو سے زائد ہٹس کے نگران بھی میئر کراچی ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی آتشزدگی کا واقعہ پیش آجائے تو اس کے لیے فائر بریگیڈ کا محکمہ موجود ہے۔ یہ محکمہ بھی میئر کے زیر نگرانی کام کرتا ہے۔ بلدیہ کراچی کی حدود میں آپ بائیک کھڑی کریں یا کار.. یہ چارجڈ پارکنگ فیس بھی میئر لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر غیر قانونی تجاوزات لگ جائیں تو اُنھیں ہٹانے کی ذمہ داری بھی ان کے پاس ہے۔ آپ کے گھر کے سیوریج کے پانی کی نکاسی اور بارش کے پانی کی نکاسی دونوں کی ذمہ داری میئر کے پاس ہے، یعنی برساتی نالوں کی دیکھ بھال و مرمت ان کا ذمہ ہے۔ تو پھر میئر کے پاس کون سے اختیارات نہیں ہیں؟ اگر آپ کے گھر کے باہر کچرا پڑا ہے تو یہ ذمہ داری سندھ سالڈ ویسٹ بورڈ کی ہے جو حکومتِ سندھ کے ماتحت ہے، اسی طرح اگر آپ کے گھر نلکے میں پانی نہیں آتا تو یہ محکمہ یعنی کراچی واٹر بورڈ بھی حکومتِ سندھ کے ماتحت ہے۔ ہاؤسنگ، پولیس اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں کا بھی میئر سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ بھی حکومتِ سندھ کے ماتحت ہیں۔ کچرا اٹھانے اور پینے کے پانی کی فراہمی کا اختیار میئر کے حوالے کرنے کی قانونی تجویز پیش کی جا چکی ہے جس کو ابھی متعلقہ فورمز سے منظور ہونا ہے۔“
اس وقت کراچی میں بلدیاتی حکومت کا نظام 3 درجوں پر مشتمل ہے، جن میں پہلا یونین کمیٹی (یو سی)، دوسرا ٹاؤن میونسپل کارپوریشنز (ٹی ایم سیز) اور تیسرا سٹی کونسل یا کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) ہے۔ ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق گزشتہ بلدیاتی حکومت کے نظام میں کراچی کے 7 اضلاع کئی ضلعی میونسپل کارپوریشن پر مشتمل تھے اور گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں 209 یونین کونسل اور 99 مخصوص نشستیں تھیں۔ تاہم نئے بلدیاتی نظام میں ضلع میونسپل کارپوریشن کو ختم کرکے یونین کمیٹی کے وائس چیئرمین اور مخصوص نشستوں پر منتخب کردہ اراکین پر مشتمل 25 ٹاؤن بنائے گئے ہیں۔ نئے بلدیاتی نظام کے تحت شہر میں 246 یونین کمیٹیاں ہیں اور ان کے منتخب کردہ چیئرمین کراچی میونسپل کونسلز (کے ایم سیز) کی سٹی کونسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 121 مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخابات کے بعد کُل 367 اراکین ہوں گے۔ ان میں نوجوانوں، غیر مسلموں اور مزدوروں کی 5،5 فیصد نشستیں ہیں، جبکہ ٹرانس جینڈر اور معذور افراد کے لیے ایک ایک فیصد نشستیں مخصوص کی گئی ہیں۔ سٹی کونسل کی 121 نشستوں میں خواتین کے لیے 81 مخصوص نشستیں، مزدوروں، نوجوانوں اور اقلیتوں کے لیے 12، جبکہ ٹرانس جینڈر اور معذور افراد کے لیے 2،2 مخصوص نشستیں شامل ہیں۔ اس کے بعد 367 اراکین پر مشتمل ایوان ہاتھ اٹھاکر میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کرے گا۔ لوکل گورنمنٹ قانون کے مطابق 4 جنرل کونسلز کے ساتھ چیئرمین اور وائس چیئرمین مشترکہ طور پر 246 یونین کونسلز میں انفرادی کے بجائے پینل کے طور پر انتخاب لڑتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ 246 یونین کونسل کے چیئرمین، وائس چیئرمین اور 984 جنرل کونسلرز براہِ راست منتخب ہوں گے۔ یونین کونسل میں منتخب کردہ 6 نمائندگان مخصوص نشستوں (دو خواتین، ایک مزدور یا کسان، ایک نوجوان اور غیر مسلم رکن) کے لیے کونسلرز کو نامزد کریں گے۔ اس کے علاوہ شہر میں 25 ٹاؤن میونسپل کونسلز ہوں گی جو اپنے کُل اراکین میں سے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گی۔
کراچی کے عوام نے صاف لفظوں میں بتادیا ہے کہ وہ میئر جماعت اسلامی کا دیکھنا چاہتے ہیں، اب آئندہ آنے والے دنوں میں جماعت اسلامی کی قیادت فیصلہ کرے گی کہ پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی میں سے کس کے ساتھ کراچی کو بہتر بنانے کے لیے اپنے نئے دور اور سفر کا آغاز کیا جائے۔ حافظ نعیم بار بار کہہ رہے ہیں کہ جماعت اسلامی کا میئر سب کو ساتھ لے کر چلے گا، ہمارا میئر تمام ٹائون کونسلوں اور تمام یوسی کونسلوں کے چیئرمینوں کو ساتھ ملا کر کراچی کے مسائل حل کروائے گا اور تعمیر و ترقی کا ادھورا سفر وہیں سے شروع کرے گا جہاں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے چھوڑا تھا۔
جماعت اسلامی کراچی کی اس شہر کی خدمت کی بلاشبہ ایک تاریخ ہے، اور اس کی تعمیر و ترقی میں اس کا خون بھی شامل ہے۔ وہ اپنے فرض سے کبھی غافل نہیں رہی اور آئندہ بھی نہیں رہے گی۔ اس کے کارکنان ہر مشکل وقت میں اپنے شہر کے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ اس کے منتخب لیڈر چاہے ماضی میں عبدالستار افغانی ہوں، نعمت اللہ خان ہوں، محمد حسین محنتی ہوں، نصراللہ شجیع ہوں، یونس بارائی ہوں، یا حالیہ انتخابات میں لیاری سے منتخب ہونے والے ایم پی اے سید عبدالرشید ہوں… یہ اپنے گلی محلوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں، اور آج پھر ان کے مسائل کے حل کے لیے ان سے دو قدم آگے موجود ہیں، اور جماعت اسلامی اس وقت پورے ملک کی طرح شہر کراچی کے تشخص اور اس کے لوگوں کے جائز حقوق دلوانے کے لیے میدانِ عمل میں موجود ہے۔