کراچی سے اٹھنے والی تبدیلی کی لہر

الحمدللہ! سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا، ثم الحمدللہ! کہ دہشت گردی کی پیش گوئیوں اور بدامنی کے خدشات کے برعکس یہ انتخابات مجموعی طور پر خوشگوار ماحول اور پُرامن فضا میں تکمیل کو پہنچے۔ جمہوری نظام میں انتخابات ایک لازمی اور صحت مند سرگرمی ہیں، مگر وطنِ عزیز میں جمہوریت کی علَم بردار سیاسی جماعتیں ہمیشہ ان سے گریزاں رہی ہیں جس کی ایک نمایاں مثال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے اندرونی انتخابات تک کروانے پر تیار نہیں، اور ہر سیاسی جماعت کی قیادت پر ایک خاندان کی اجارہ داری روایت بن چکی ہے، اور پھر اس کی وراثت میں منتقلی میں بھی کوئی قباحت کسی سطح پر محسوس نہیں کی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ دعوے تو جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے کیے جاتے ہیں مگر طرزِعمل میں بادشاہی روش اپنائی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس غیر جمہوری روش کا سب سے زیادہ نقصان مقامی حکومتوں کے اداروں کو برداشت کرنا پڑا ہے، حالانکہ یہی ادارے جمہوریت کی اساس تصور کیے جاتے ہیں اور عوام کے مسائل کے حل میں فعال کردار ادا کرتے ہیں، اسی لیے دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں بلدیاتی اداروں کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنایا جاتا ہے اور شہریوں کے مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ وسائل خوش دلی سے فراہم کیے جاتے ہیں۔ مگر پاکستان میں صورتِ حال اس کے قطعی برعکس ہے، یہاں ان اداروں سے ہمیشہ سوتیلی ماں کا سلوک کیا گیا ہے، سیاسی جماعتیں نام تو جمہوریت کا لیتی ہیں مگر ملک میں ان کے اقتدار کے ادوار میں یہی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اوّل تو بنیادی جمہوری اداروں کو ہر ممکن طریقے سے وجود میں آنے سے روکا جائے، اور اگر کسی مجبوری کے سبب بلدیاتی ادارے وجود میں آ ہی جائیں تو انہیں مضبوط و بااختیار اور مستحکم نہ ہونے دیا جائے۔ ’’جمہوریت ہماری سیاست ہے‘‘ اور ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ کے نعرے پیپلز پارٹی کے چار بنیادی اصولوں میں شامل ہیں، مگر اُس نے سندھ میں اپنی حکمرانی کے دوران صوبے کے عوام خصوصاً کراچی کے شہریوں کو اُن کے بنیادی جمہوری حقوق سے محروم رکھنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے پہلے 24 جولائی 2022ء کی تاریخ مقرر کی گئی جسے بارش کے بہانے ملتوی کردیا گیا، اور 28 اگست کی نئی تاریخ کا اعلان کیا گیا، مگر پھر سیلاب کو جواز بناکر انتخابات 23 اکتوبر تک ملتوی کردیے گئے، لیکن ضروری عملہ کی عدم دستیابی کا بہانہ بناکر چوتھی بار 15 جنوری کی تاریخ طے کی گئی… مگر پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی ایم کیو ایم نے بلدیاتی حلقوں کی حد بندیاں درست نہ ہونے کا حیلہ کرتے ہوئے انتخابات ایک بار پھر ملتوی کردیے، تاہم اِس مرتبہ الیکشن کمیشن 15 جنوری کو انتخابات کروانے پر ڈٹ گیا۔ انتخابات سے فرار کے لیے الیکشن کمیشن کے علاوہ عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ سے بھی رجوع کیا گیا، مگر جب ہر طرف سے فرار کی راہیں مسدود ہوگئیں تو دبائو کے دوسرے حربے آزمائے جانے لگے۔ ایم کیو ایم نے دھمکی دی کہ 15 جنوری کے انتخابات میں حصہ لیں گے نہ انہیں ہونے دیں گے، تاہم واضح شکست نوشتۂ دیوار دکھائی دی تو وقتِ مقررہ سے چند گھنٹے قبل بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرنے میں عافیت محسوس ہوئی۔ یوں دھونس اور دھمکیوں کے باوجود الحمدللہ انتخابات ہوگئے، بہت پُرسکون اور نہایت پُرامن ہوگئے…!!!

جماعت اسلامی کراچی کے کارکنان نے اپنے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی قیادت میں شہر کے عوام کے حقوق کی جنگ جس جرأت، بہادری، پامردی، استقلال اور استقامت سے لڑی، نہ صرف کراچی کے عوام نے اس کا اعتراف کیا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس کی بازگشت سنائی دی ہے۔ حکومتِ سندھ نے اقتدار اور اختیار کا سہارا لے کر شہریانِ کراچی کا مینڈیٹ چرانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا مگر جماعت اسلامی کی منظم جدوجہد نے تمام کوششیں ناکام بنادیں۔ سندھ کے اندرونی اور دور دراز علاقوں کے نتائج کا تو اعلان کردیا گیا مگر کراچی کے نتائج چوبیس بلکہ تیس گھنٹے بعد لوگوں کو معلوم ہوسکے، ان میں بھی جہاں جتنی دھاندلی ہوسکی اس سے گریز نہیں کیا گیا، مگر سلام ہے حافظ نعیم الرحمٰن اور اُن کے ساتھیوں کی استقامت کو، جنہوں نے دلیل اور ثبوت کے ذریعے اپنا حق حاصل کرنے کی بے مثال جدوجہد کا نیا باب رقم کیا اور اپنا مؤقف تسلیم کروا کے چھوڑا۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی شہ رگ ہے، یہ بجا طور پر ’منی پاکستان‘ کہلاتا ہے، مگر طویل عرصے سے حقوق سے محروم چلا آرہا ہے۔ یہ پورے ملک کی ضرورتیں پوری کرتا ہے مگر اس کی ضرورتیں پوری کرنے اور اس کے دکھوں کا مداوا کرنے پر کوئی تیار نہیں، جس کے سبب ایک مدت سے محرومیاں اس کا مقدر بن چکی ہیں اور روشنیوں کا یہ شہر تاریکیوں میں ایسا ڈوبا ہے کہ کسی کو کچھ سجھائی نہیں دیتا… اب جو کراچی بیدار ہوا ہے تو اس کے مثبت اثرات پورے ملک پر مرتب ہوں گے۔ آج امتِ مسلمہ کی امیدوں کے مرکز، ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان نے بھی اپنی مقبولیت کا آغاز بلدیاتی سیاست ہی سے اُس وقت کیا تھا جب وہ 1990ء کی دہائی میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے اور ایسی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ استنبول دنیا کا مثالی شہر بن گیا اور اردوان پورے ملک کے عوام کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اس کے علاوہ بھی دنیا میں کئی مثالیں ایسی موجود ہیں جہاں بلدیات سے ابھرنے والی قیادت نے قومی سطح پر اہم کردار ادا کیا۔ اس لیے یہ توقع بے جا نہ ہو گی کہ کراچی سے اٹھنے والی یہ لہر پورے پاکستان میں ایک ایسے انقلاب کی بنیاد بن سکتی ہے جو ملک و قوم کی کشتی کو بھنور سے نکال سکے، اِن شاء اللہ۔
(حامد ریاض ڈوگر)