ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ

اسلام آباد میں سہ فریقی ورکنگ گروپ کا اجلاس

پاکستان، افغانستان اور ازبکستان نے اسلام آباد میں سہ فریقی ورکنگ گروپ کے اجلاس کے دوران ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی کے آغاز پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ مجوزہ منصوبے کا مقصد افغانستان کے شمال سرحدی شہر مزار شریف پر موجودہ ریلوے لنک کو پاکستان ریلوے نیٹ ورک سے جوڑ کر پاکستان کو وسطی ایشیائی جمہوریہ ازبکستان سے ملانا ہے۔ وزارتِ ریلوے کے مطابق سہ فریقی اجلاس میں ابتدائی تکنیکی جائزوں پر ہونے والی پیش رفت اور منصوبے کی فزیبلٹی کو جلد شروع کرنے کے لیے اگلے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت مزار شریف سے طورخم تک 783 کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا، مزارشریف سے طورخم تک ٹریک کی لاگت 8 ارب ڈالر سے زائد ہوگی، ٹریک پر 148 کلومیٹر کی 80 ٹنل تعمیر کی جائیں گی، ٹنل پر مشتمل ٹریک پر 40لاکھ ڈالر فی کلومیٹر خرچ آئے گا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ مزارشریف سے طورخم تک ٹریک مکمل طور پر الیکٹرک ہوگا، منصوبے سے پاکستان وسطی ایشیا سے منسلک ہوسکے گا۔

وزارتِ ریلوے نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ نہ صرف شریک ممالک کے درمیان علاقائی اور دوطرفہ تجارت کو آسان بنائے گا بلکہ پورے خطے کے عوام کے درمیان بہتر روابط کے مواقع بھی فراہم کرے گا۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کی وزارتِ ریلوے کے ایڈیشنل سیکرٹری سید مظہر علی شاہ اور افغانستان سے الحاج ملا بخت الرحمان شرافت اور ازبکستان سے کمالوف اکمل سیداکابارووچ نے کی، جنہوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ یاد رہے کہ تینوں ممالک نے پہلے ہی 573 کلومیٹر طویل ٹرانس افغان ریلوے کی تعمیر کے لیے ایک روڈمیپ اسٹرے ٹیجک منصوبے پر دستخط کیے ہیں جو وسطی ایشیا کو بحیرۂ عرب کی بندرگاہوں سے جوڑے گا۔ معاہدے میں روٹ اور اس کے علاقے کا سروے کرنے کے لیے مشترکہ مہم چلانے کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے لیے ابتدائی فزیبلٹی اسٹڈی کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ لائن شمالی افغانستان کے شہر مزارشریف سے کابل کے راستے پشاور تک چلے گی اور موجودہ ترمز، ازبکستان، مزار شریف کراس بارڈر لائن سے جڑے گی جو 2012ء میں کھولی گئی تھی۔ یہ لائن پاکستان اور افغانستان کو ازبک دارالحکومت تاشقند سے جوڑنے میں بھی مدد فراہم کرے گی۔ اسی طرح یہ لائن مسافروں اور مال برداری… دونوں خدمات فراہم کرے گی، اور توقع ہے کہ اس سے جہاں پر لینڈلاک افغانستان اور ازبکستان کی معیشت پر اچھے اثرات پڑیں گے وہیں اس سارے ریجن میں کاروباری اور دوطرفہ روابط میں بھی بہتری آئے گی۔

ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیاہے جب ازبکستان اپنے سپلائی راستوں کو متنوع بنانے اور یورو ایشیائی تجارت کے حجم کو بڑھانے کے لیے پاکستان کی کراچی، گوادر اور قاسم کی بندرگاہوں تک رسائی کے لیے پرتول رہا ہے۔ روس اور یوکرین کے طویل تنازعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی جغرافیائی سیاسی تبدیلی اور عدم استحکام نے سپلائی کے راستوں کو بھی متاثرکیا ہے، خاص طور پر ازبکستان جیسے لینڈلاک ملک کے لیے یہ صورتِ حال اور بھی پریشان کن ہے، کیونکہ ماضی میں وسط ایشیا کی دیگر ریاستوں کی طرح ازبکستان کا بھی اپنی بیرونی تجارت کے لیے زیادہ تر انحصار روس پر رہا ہے۔ ازبکستان میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے جو پہلے ناقابلِ عمل سمجھے جاتے تھے اب ترقی کررہے ہیں جس کی ایک نمایاں مثال ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ ہے جس کے ذریعے ازبکستان تاشقند کو چین اور یورپی یونین سمیت بڑی ممکنہ برآمدی منڈیوں سے جوڑنے کی تیاری کررہا ہے۔ واضح رہے کہ ازبکستان پہلے ہی 2011ء میں ازبکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع حیراتان کو شمالی افغانستان کے شہر مزارشریف سے ملانے والا 75 کلومیٹر طویل ریل لنک تعمیر کرچکا ہے، تاہم زیادہ چارجز اور آپریشنل مسائل کی وجہ سے یہ سیکشن فی الحال کم استعمال ہورہا ہے۔

ٹرانس افغان ریلوے پراجیکٹ جو پہلی بار دسمبر 2018ء میں ازبکستان کی طرف سے تجویز کیا گیا تھا، اس کا مقصد افغان ریل نیٹ ورک کو مزارشریف سے کابل اور پھر جنوب مشرقی صوبے ننگرہار تک پھیلانا ہے جہاں سے یہ ریلوے ٹریک طورخم سرحد عبور کر کے پشاور کے راستے کراچی تک جائے گا۔ اس ریلوے پراجیکٹ میں سالانہ 20 ملین ٹن کارگو کی منتقلی کی گنجائش ہوگی اور آپریشنل ہونے کے بعد اس ٹریک کی بدولت ازبکستان سے پاکستان تک سامان کی آمدورفت کا دورانیہ 35 دن سے گھٹ کرصرف 5 دن رہ جائے گا۔ ابتدائی معلومات کے مطابق یہ ریلوے لائن 783 کلومیٹر طویل ہوگی جسے 8 بلین ڈالر کی لاگت سے 1,520 ملی میٹر روسی گیج کے ساتھ تعمیر کیا جائے گا۔

فروری 2021ء میں ازبکستان، پاکستان اور افغانستان کے درمیان لائن کی تعمیر کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ازبک وزارتِ سرمایہ کاری اور خارجہ امور نے اطلاع دی ہے کہ اس راستے کے قائم ہونے سے 2025ء تک افغانستان اور سی آئی ایس ممالک کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان کی تجارت کا حجم بالترتیب 20 بلین ڈالر اور 6 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔

مجوزہ ریل لائن کو ازبکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک اہم سنگِ میل کے طور پر دیکھا جارہا ہے جس سے اگر ایک طرف یہ لینڈلاک ملک جنوبی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، حتیٰ کہ افریقہ اور شمالی امریکہ سمیت دور درازکی غیر روایتی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا تودوسری جانب اس سے پاکستان کو بھی اپنی مصنوعات ازبکستان سمیت دیگر وسطی ایشیائی ممالک میں کھپانے کا موقع مل جائے گا۔ تاہم یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ مجوزہ ریلوے لائن کی مالی اعانت کون کرے گا؟ اس کے علاوہ افغانستان کے سیکورٹی کے پیچیدہ حالات اور خاص کر دشوارگزار پہاڑوں کے زمینی مسائل کو دیکھتے ہوئے متوقع لاگت بہت حد تک بڑھ سکتی ہے۔ حالیہ فزیبلٹی اسٹڈیز کو ازبکستان کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی جارہی ہے، گوکہ پاکستان نے بھی لائن کی تعمیر کے لیے فنڈ جمع کرنے میں مدد کا اعلان کر رکھا ہے، لیکن پاکستان چونکہ خود معاشی بحران کاشکار ہے اس لیے اُس کی جانب سے فی الحال کسی تعاون کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ مزید برآں افغانستان بھی کسی قسم کی مالی امداد فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ اُس کے اثاثے منجمد ہیں اور وہ خود بھی مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ طالبان حکومت نے اس مجوزہ ریلوے لائن کے لیے حفاظتی ضمانتیں پیش کی ہیں، لیکن دوسری جانب دولتِ اسلامیہ خراسان صوبہ (داعش ولایت خراسان) نے ٹرانس افغان ریلوے لائن پر کام کرنے والے کسی بھی شخص کو نشانہ بنانے کا اعلان کرکے اس اہم پراجیکٹ کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر دنیا پر واضح کردیا ہے۔ اس منصوبے کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ دشوار گزار پہاڑی سلسلوں اور شدید موسمی اثرات کو بھی قرار دیا جارہا ہے، مثلاً ریلوے لائن کا ایک حصہ 3500 میٹر کی بلندی پر ہندوکش کے پہاڑی علاقے میں سالنگ پاس سے گزارنے کا منصوبہ ہے۔ یہ اسے دنیا کی بلند ترین ریلوے لائنوں میں سے ایک بنادے گا۔ درہ سالنگ سردیوں کے موسم میں شدید برف باری کا شکار رہتا ہے جو طویل مدت کے لیے اس ریلوے ٹریک کو غیر فعال کرسکتا ہے۔ اس چیلنج کا ایک حل ریلوے لائن کو پہاڑ کے نیچے ایک سرنگ کے ذریعے گزارنے کی شکل میں نکالا جاسکتا ہے جس سے اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا جو اس منصوبے کو ملتوی یا روکنے کاباعث بھی بن سکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے یہ بات قابلِ ذکرہے کہ افغان فریق نے سالنگ پاس اور اس کی پیچیدگیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے بغلان اور بامیان کے راستے متبادل ریل روٹ کی منظوری بھی دی ہے، لیکن اس سے سفر کی مسافت اور وقت میں اضافے کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے، جب کہ بعض دیگر آپریشنل مسائل جیسے مجوزہ ریلوے لائن کے مالکان کو معاوضے کی ادائیگی، ریلوے لائن کی تعمیر و حفاظت اور دیکھ بھال کے لیے مقامی افرادی قوت کی تربیت سے منسلک اخراجات جیسے مسائل کا ازالہ بھی تینوں فریقین کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

اس منصوبے میں ایک اور چیلنج گیج کا مسئلہ ہے۔ افغانستان میں ریلوے لائن کو روسی براڈ 1520ملی میٹر گیج کے ساتھ بنایا جائے گا تاکہ یہ ازبکستان سے آنے والی ریلوے لائن سے باآسانی منسلک ہوسکے، کیونکہ ازبکستان میں یہی براڈ گیج استعمال کیاجاتا ہے، تاہم پاکستان میں چونکہ 1676 ملی میٹر گیج کی ریلوے لائن استعمال ہوتی ہے اس لیے پاک افغان سرحد پر1520 ملی میٹر سے 1676 ملی میٹر گیج کی ریل ٹریک پرمنتقلی کی ضرورت ہوگی، اس طرح ٹرینوں کو طورخم بارڈر پر کئی گھنٹوں تک رکنا ہوگا جس سے وقت کے ضیاع کے ساتھ ساتھ لاگت میں بھی اضافہ ہوگا۔ لہٰذا اس منصوبے کے تینوں فریقین ازبکستان، افغانستان اور پاکستان کو مل کر نہ صرف ان زیربحث مسائل سے نمٹنا چاہیے بلکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اس تاریخی منصوبے کی تکمیل اور کامیابی کے لیے چین اور روس جیسے اہم علاقائی ممالک کے تعاون کے حصول پر بھی توجہ دینی چاہیے۔