حکومت آئی ایم ایف کی دہلیز پردیوالیہ کا خوف!

آئی ایم ایف کڑی شرائط کے ساتھ قرض دے گا اور قرض چکانے کے لیے ملک کے عام آدمی کا پیٹ ہی کاٹا جائے گا

ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ اسے عام آدمی کی نظر سے دیکھا جائے یہ اشرافیہ کو پسند نہیں ہوگا، اور اشرافیہ کی نظروں سے دیکھا جائے تو یہ ملک کے عام آدمی کے لیے بے معنی ہوگا۔ ملک کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بائیس کروڑ عوام جو چاہتے ہیں، جو مانگ رہے ہیں، یہ اشرافیہ کو قبول نہیں ہے۔ عام آدمی عزتِ نفس کا تحفظ مانگ رہا ہے کہ عزت کے ساتھ جینے اور عزت کے ساتھ روزی کمانے کا موقع ملنا چاہیے، لیکن اشرافیہ چاہتی ہے کہ عام آدمی اپنے مسائل کے حل کے لیے اُس کی دہلیز پر کھڑا رہے۔ یہ اشرافیہ سیاسی بھی ہے اور غیر سیاسی بھی، جمہوری بھی ہے اور غیر جمہوری بھی۔ عام آدمی کا اسی سے مقابلہ ہے اور ملک کی سیاسی جماعتوں میں کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جو عام آدمی کو اشرافیہ سے آزادی دلاسکے۔ یہی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کنگ پارٹیاں راتوں رات کھڑی کردی جاتی ہیں جن کی قیادت اشرافیہ کی ہی نمائندہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ملکی سیاسی نظام کھڑا نہیں ہورہا اور ملکی معیشت بیٹھ رہی ہے۔ پارلیمنٹ میں عام آدمی کی فلاح و بہبود کے لیے قانون سازی ہوتی ہے اور نہ اس کا کردار ملک کے گلی محلوں کے مسائل حل کرتا ہے۔ جہاں بھی عام آدمی کے مسائل کے حل اور فلاح و بہبود کی بات ہوتی ہے وہاں اشرافیہ کی مالی کرپشن شروع ہوجاتی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہو یا کورونا سے بچائو کے لیے 12 ارب روپے کا پیکیج، یہ دونوں صرف دیگ کا ایک دانہ ہیں۔

ان دنوں بھی ملک میں ایک بحث جاری ہے کہ کیا ملک نادہندہ ہونے والا ہے؟ یہی خوف حکومت کو آئی ایم ایف کی دہلیز پر لے جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کڑی شرائط کے ساتھ قرض دے گا اور قرض چکانے کے لیے ملک کے عام آدمی کا پیٹ ہی کاٹا جائے گا، کہ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ سبسڈیز ختم کی جائیں۔ کڑی شرائط اس لیے ہیں کہ آئی ایم ایف سابق حکومت کی جانب سے معاہدے پر عمل نہ کرنے پر ناراض ہے۔ آئی ایم ایف تو کئی بار ناراض ہوا یہ کوئی نئی بات نہیں، ہر حکومت آئی ایم ایف سے قرض کی قسط کے لیے نیا سودا کرتی ہے اور ہر بار ایسا ہوا کہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے سے مشکلات بڑھی ہیں۔ یہ مشکل اس لیے بھی بڑھ گئی ہے کہ اب اس کے بغیر کوئی دوست ملک بھی مالی تعاون پر تیار نہیں ہوتا۔ حکومت بھی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کوشاں ہے، تاہم معاشی ابتری بڑھتی چلی جارہی ہے، ڈالر کی قدر پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہ گیا ہے اورملک میں ڈالر کے ذخائر بھی مسلسل کم ہوتے جارہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد وشمارکے مطابق امارات کے دو بینکوں کو تقریباً سوا ارب ڈالر کا قرض واپس کیے جانے کے بعد اسٹیٹ بینک کے پاس اب صرف ساڑھے چار ارب ڈالر باقی رہ گئے ہیں جو ایک ماہ کی ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی کافی نہیں۔ کمرشل بینکوں کے پاس موجود 6 ارب ڈالر بھی پاکستان ہی کے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ملک میں موجود ڈالروں کی اصل مالیت ساڑھے چار ارب نہیں بلکہ ساڑھے دس ارب ہے، پاکستان پر واجب الادا قرض وقت پر واپس کررہے ہیں اور پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائردوبارہ مستحکم ہوں گے کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ کا وفد جلد پاکستان کا دورہ کرے گا، جنیوا میں بھی آئی ایم ایف حکام سے ملاقات ہوئی ہے۔ وزیر خزانہ جنیوا سے واپسی پر تین روزہ سرکاری دورے پر متحدہ عرب امارات جائیں گے، سعودی عرب سے بھی انہیں فنڈز پاکستان منتقل ہونے کی امید ہے۔ لیکن آج کا سچ یہ ہے کہ ملک قومی تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں مبتلا ہے۔ یہ جاننا بھی قوم کا حق ہے کہ ملک اس نہج تک کیسے پہنچا اور حکومت کے پاس معاشی حکمت عملی کا روڈمیپ کیا ہے؟ آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کے نتیجے میں عوام کو کن مزید مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا اور حکومت ان کی شدت کم کرنے کے لیے کیا کرے گی؟ ڈالر کی اسمگلنگ کس طرح رک سکتی ہے؟ ہر روز لاکھوں ڈالروں کی افغانستان منتقلی روکنے میں اب تک کامیابی کیوں نہیں ہوپائی ہے؟ قرض کی ایک اور قسط مل جانے کے بعد حالات میں کیا بہتری متوقع ہے؟ اور کچھ تو بتایا جائے کہ اس کے بعد عام آدمی کی زندگی کیسے آسان ہوگی؟ پانچ ماہ پہلے آئی ایم ایف کی قسط ملنے کے بعد دوست ملکوں اور عالمی اداروں سے جو مالی تعاون متوقع تھا اس کی حقیقت کیا ہے؟ عمومی بے اعتباری کی کیفیت دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان سوالوں کا جواب مہیا کرکے قوم کو اعتماد میں لیا جائے۔ تسلیم کرلینا چاہیے کہ2022ء ملکی سیاست، معیشت، کاروبار اور عوام کے لیے ایک غیر معمولی سنگین سال ثابت ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے ذاتی مفادات کی خاطر ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جس سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ IMF پروگرام کی بحالی کے لیے حکومت کو بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑا جس سے عوام کو ریکارڈ30 فیصد افراطِ زر کی شکل میں مہنگائی کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر 4سال میں نچلی ترین سطح 5.5 ارب ڈالر پر پہنچ گئے جس میں ایک ارب ڈالرکا قرضہ چار روز قبل ادا کیا گیا ہے، اور اس قسط کی وجہ سے ڈالر اوپن مارکیٹ میں 257روپے کی بلند ترین سطح پر جاپہنچا۔ آئی ایم ایف یہی کہہ رہا ہے کہ ڈالر مصنوعی طور پر کنٹرول نہ کیا جائے۔ اگر اُس کی بات مان لی گئی تو انٹر بینک میں ڈالر 227روپے پر رکھنا آنے والے مہینوں میں ممکن نہیں رہے گا۔ جنوری سے دسمبر 2022ء تک زرمبادلہ کے ذخائر میں 67فیصد کمی ہوئی جو 16.6ارب ڈالر سے کم ہوکر 5.5ارب ڈالر پر آگئے ہیں۔ اب ملٹی نیشنل کمپنیوں کی جانب سے حکومت پر دبائو بڑھ رہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے جلد از جلد قرض پروگرام کو بحال کرے، نان کمرشل غیر ملکی قرضوں کو ری اسٹرکچر کیا جائے، اور یہ بھی مطالبہ شامل ہوگیا ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ پر ازسرنو مذاکرات کیے جائیں، ایکسپورٹ کے لیے خام مال کو کلیئر کیا جائے اور ڈالر کی افغانستان کو غیر قانونی اسمگلنگ روکی جائے۔ آئی ایم ایف کو تشویش ہے کہ حکومت کے پاور سیکٹر کے 4000 ارب روپے کے گردشی قرضے ہیں جن میں پاور سیکٹر کے 2500 ارب روپے اور گیس اور LNG سیکٹر کے 1500ارب روپے شامل ہیں۔ آئی ایم ایف نے جون 2023ء تک انہیں کم کرکے 1100 ارب روپے تک لانے کا ہدف دیا ہے، اسی لیے حکومت ان اداروں کے بقایا جات کی ادائیگی کے لیے ایک نظام بنا رہی ہے۔ سب سے بری خبر یہ ہے کہ FBR نے دسمبر 2022ء میں 17فیصد گروتھ کے باوجود 7470ارب روپے کے ہدف میں 170ارب روپے کم وصول کیے جس کے لیے حکومت کو منی بجٹ میں نئے ٹیکس لگانا پڑیں گے۔

آئی ایم ایف نے 1.1ارب ڈالر کی نویں جائزہ قسط کی ادائیگی اور پروگرام کی بحالی کے لیے اضافی شرائط پیش کی ہیں، اس کے بغیر حکومت کو دوست ممالک سے سافٹ ڈپازٹ اور ڈونر ایجنسیوں سے نئے قرضے نہیں مل سکتے۔ تاہم وزیر خزانہ نے اس ماہ سعودی عرب اور چین سے مالی امداد ملنے اور آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کا عندیہ دیا ہے۔ دوسری بری خبر یہ ہے کہ تجارتی خسارہ پورا کرنے کی وجہ سے ہمارے بیرونی قرضے 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جو جی ڈی پی کا 40فیصد ہیں۔ خام مال اور پارٹس کی عدم دستیابی کی وجہ سے فارما، پولٹری، موبائل اور ٹیکسٹائل صنعتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں، جبکہ انڈس موٹرز، ڈائولینس اور فوجی فرٹیلائزر بن قاسم کی فیکٹریاں بند کردی گئی ہیں جس سے ملک میں بے روزگاری کا سیلاب آسکتا ہے۔

ملکی معیشت کی یہ زبوں حالی اس بات کا بھی پتا دے رہی ہے کہ ملکی جمہوریت اور سیاسی نظام بھی خطرے سے دوچار ہے۔ عین ممکن ہے کہ عام انتخابات وقت پر نہ ہوسکیں۔ یہ کام جنرل ضیاء الحق کی طرح مثبت نتائج تک رک سکتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سے ہوگا۔ انتخابات سے قبل ’باپ‘ پارٹی کا ٹوٹ جانا اور نئی صف بندی مثبت نتائج کی تیاری ہی تو ہے۔ ملک کے اس سیاسی اور معاشی پس منظر میں وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی کابینہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ہمراہ پاکستان پر بین الاقوامی کانفرنس کی مشترکہ میزبانی کے لیے جنیوا گئے ہیں جہاں سیلاب متاثرین کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس فورم کے سامنے لچک کے ساتھ بحالی اور تعمیرنو کے لیے تباہی کے بعد کا جامع فریم ورک پلان رکھا جائے گا اورآئی ایم ایف کو بتایا جائے گا کہ پچھلی قسط ملنے کے بعد دیگر ذرائع سے مالی تعاون کے راستے کھلنے کی امید کیوں پوری نہیں ہوسکی ملک گیر سیلاب کی تباہ کاریوں نے قومی معیشت کو مزید زبوں حالی سے دوچار کردیا اس صورت حال کی وجہ سے حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق گیس بجلی کے نرخوں، پٹرولیم مصنوعات پر محصول اور دیگر ٹیکسوں میں اضافے کی شرائط کی تکمیل دشوار اور معاہدے کے تحت قرض کی نئی قسط کی بروقت فراہمی رکاوٹ کا شکار ہوگئی عالمی مالیاتی فنڈ کی ٹیم پاکستان آرہی ہے عالمی مالیاتی فنڈ نے چین سے بھی پاکستان کے معاشی حالات پر معلومات لی ہیں، آئی ایم ایف نے بہر حال قدرے اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ حکومت نے پورا زور لگا کر اس معاہدے کو مکمل کیا ہے جسے تحریک انصاف نے توڑ دیا تھا آئی ایم ایف نے چین کے علاوہ سعودی عرب سے بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کے بارے میں بھی پوچھا، دونوں ملکوں کے مثبت جواب پرآئی ایم ایف کی ٹیم پاکستان آرہی ہے آئی ایم ایف سے نئی قسط کے لیے معاہدے کی تجدید کے امکانات روشن ہوئے ہیں جس کے بعد دوست ممالک اور دیگر عالمی اداروں سے بھی مالی تعاون کا حصول ممکن ہوگا۔ تاہم معیشت کا قرضوں پر منحصر رہنا بہرکیف کوئی مستقل حل نہیں، کفایت یعنی غیر ضروری اخراجات اور درآمدات کی بندش اور قومی وسائل کے بہترین استعمال پر مبنی ایسی جامع معاشی حکمت عملی ہماری ناگزیر ضرورت ہے، ہماری نحیف معیشت کے اثرات سے متعلق اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام،یواین ڈی پی نے ملک میں مزید90لاکھ افراد کے غربت کی لکیر سے نیچے جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف کا ریویو مکمل ہونے پرچین، سعودی عرب، امارات اور قطر سے اربوں ڈالرز کے وعدوں پر عمل کی اُمید کی جاسکے گی اور پاکستان فروری یا مارچ تک مالیاتی ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل سکے گا تاہم اگر آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل ہوا تو ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 250روپے سے اوپر اور مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے 50 فیصد تک بڑھ سکتی ہے، وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے معیشت پر بریفنگ دی ہے طے کیا گیا کہ درآمدات میں توازن لایا جائے گا اور کرنسی کی بیرون ملک غیرقانونی منتقلی روکی جائے گی کہ قومی سلامتی کا تصور معاشی تحفظ کے گرد گھومتا ہے معاشی خود انحصاری کے بغیر قومی خود مختاری پر دبائو آتا ہے فیصلہ کیا گیا کہ زراعت کی پیداوار بڑھانے اور مینوفیکچرنگ کی شعبے پر خصوصی توجہ دی جائے گی تاکہ فوڈ سیکورٹی کو یقینی بنایا جاسکے قومی سلامتی کمیٹی نے درست کہا ہے کہ معاشی خود انحصاری، قومی خود مختاری کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح ملک کا دفاع اور مضبوط معیشت ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا طویل اجلاس میں یہ واضح اشارہ دے دیا گیا ہے کہ ملکی سلامتی اور معاشی استحکام اکٹھے کر دیے گئے ہیں۔دس سال کے بحالی منصوبے پر بھی اتفاق رائے ہے حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر وہ کڑوے، سخت اور ناگزیر اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو وہ اکیلے نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ان کڑوے اور سخت فیصلوں کے سیاسی نقصانات ہیں،اس لیے انھیں اسٹیبلشمنٹ سے کچھ یقین دہانیاں درکار تھیں۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ پی ڈی ایم یہ کڑوے فیصلوں پر عملدرآمد کر رہی ہو تو دوسری طرف ملک میں جنرل الیکشن کا بگل بج رہا ہوا۔ پاکستان کی معاشی بحالی کے روڈ میپ پر اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کے درمیان اتفاق ہوا ہے تو پھر پی ڈی ایم کی حکومت کہیں نہیں جا رہی لہٰذا فوری عام انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مقتدر حلقوں نے بھی اس نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں آنے سے پہلے ملک کی معاشی صورت حال پر پوری تیاری کی تھی۔یہ اطلاعات ہیں کہ اہم حلقوں میں معاشی ماہرین کو بلایا گیا تھا اور ملک کی معیشت کے حوالے سے نہ صرف تفصیلی غور ہوا بلکہ معاشی بحالی پر تجاویز بھی لی گئیں معاشی ٹیکنوکریٹس اسٹیبلشمنٹ کو مل رہے تھے،اس لیے ٹیکنوکریٹ حکومت کی خبریں سامنے آرہی تھیں حالانکہ اب صورت حال واضح ہو گئی ہے۔اسٹیبلشمنٹ اس میٹنگ کے لیے اپنا ہوم ورک کر رہی تھی، وہ بھی حالات کو سمجھ رہے تھے، وہ اپنی حکمت عملی بنا رہی تھے تا کہ وہ میٹنگ میں تیاری سے بیٹھ سکیں، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ حالات کو سمجھنے کے عمل کو ٹیکنوکریٹ حکومت سمجھ لیا گیا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کسی کو بلاتی ہے اور پوچھتی ہے کہ آپ کے نزدیک مسائل کا حل کیا ہے؟ تو وہ سمجھتا ہے کہ میری باری آگئی ہے۔ حالانکہ وہ صرف بات سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ باری دینے کے لیے نہیں بلایا گیا۔ لگ رہا کہ شہباز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک چارٹر آف اکانومی ہو گیا ہے۔دس سال کا چارٹر آف اکانومی ہو گیا ہے جس میں پاکستان کو دس سال میں تمام معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے کام کرنا شامل ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ2023 سخت فیصلوں کا سال ہے۔