کراچی پہ جو خدائی عذاب نازل ہوا تھا، جس نے کراچی میں بسنے والوں کی راتوں کو وحشت ناک اور دنوں کو اذیت ناک بنادیا تھا، وہ عذاب تو ٹل گیا اور کراچی ایک بار پھر ویسا ہی بن گیا ہے جیسا کہ وہ ماضی میں تھا۔ لیکن کراچی کے مسائل، اس کی الجھنیں اور پریشانیاں آج بھی ویسی ہی ہیں جیسی ماضی میں تھیں۔ ان مسائل اور پریشانیوں کا آغاز اُسی دن سے ہوگیا تھا جب فسادات میں لٹے پٹے مہاجرین ہجرت کرکے دکھوں کو اٹھائے اس شہر میں آکر بسے تھے۔ کراچی تبھی سے شہرِ ناپرساں بن گیا تھا اور آج تک شہرِ ناپرساں ہی ہے، جس کا مطلب ہے اس شہر کو کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی اس کی دیکھ بھال کرنے والا نہیں۔ اس شہر سے سب اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں، یہ شہر سب کا رکھوالا ہے، ہر ایک کے درد کا درماں ہے، یہاں تک کہ حکومتوں کا بھی، کہ سب سے زیادہ ٹیکس یہی شہر انہیں دیتا ہے۔ لیکن یہ شہر آج بھی اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ترس رہا ہے، تڑپ رہا ہے۔ پانی، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، صحت، صفائی ستھرائی، امن و امان.. غرض کون سا مسئلہ ایسا ہے جو اس شہر کا حل ہوا ہو یا کسی حکومت نے حل کیا ہو؟ کوئی ایک بھی نہیں۔
یہ شہر جمہوریت کا گڑھ رہا۔ کہا گیا کہ کراچی جو آج سوچتا ہے پورا ملک کل وہی سوچتا ہے۔ جمہوریت کی بنیادوں کو اس شہر نے اپنا لہو دے کر سینچا اور اس کی سزا بھی پائی۔ آخر آخر کو تنگ آکر اس نے نسلی اور لسانی سیاست بھی کرکے دیکھ لی لیکن اس کی اذیتوں میں اضافہ ہی ہوا، کوئی کمی نہیں آئی۔ اب یہ شہر اپنے پچھلے سارے گناہوں سے توبہ تلا کرکے راہ پہ آگیا ہے۔ پچھلے انتخابات میں اس نے اُن لوگوں کا ساتھ دیا اور اُن پر اعتماد کیا جو ”تبدیلی“ لانے کے دعوے دار تھے۔ لیکن ان کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی اس شہر کو پلٹ کر نہیں پوچھا۔ اس سے زیادہ اس شہر کے ساتھ بے وفائی کیا ہوگی! یہ بے وفائی کیوں ہے؟ جو اپنے ہیں وہ بھی کراچی کے نہیں ہیں، اور جو بیگانے ہیں ان کا تو پوچھنا اور ان سے شکوہ کرنا ہی فضول ہے۔ اس کے اپنے کون ہیں؟ وہی جنہوں نے کہا تھا ”وفا کرو گے وفا کریں گے، جفا کرو گے جفا کریں گے، ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے“۔ لیکن انہوں نے کس کے ساتھ وفا کی؟ اگر کراچی کے ساتھ کرتے تو یہ شہر لہولہان تو نہ ہوتا، یہ شہر انسانی لاشوں کا انبار تو نہ بنتا، اس کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تو نہ آتا، ان کی تعلیم تو برباد نہ ہوتی، تھانوں میں ان کی ایف آئی آر تو نہ کٹتی، اور اس کے قائد، ایسے مہمل اشعار پڑھنے والے قائد چوروں کی طرح رات کی تاریکی میں اس شہر کو تباہ حال کرکے لندن فرار تو نہ ہوتے، اور پھر وہاں سے اس شہر کو مزید برباد کرنے کا سامان تو نہ کرتے رہتے۔ خیر یہ قصہ تو پارینہ ہوا۔
قدرت کا انصاف سامنے آیا اور وہ جو ”ون، ٹو، تھری“ کہہ کر لاکھوں کے مجمع کو سانپ سنگھا دیتے تھے، آج مسخری بن کر اپنی تنہائی کا عذاب جھیل رہے ہیں۔ ان کا تو انجام ابھی ہونا ہے، تنہائی کا عذاب بھی کچھ کم سزا نہیں، لیکن ہزاروں گھروں کو اجاڑنے والے اس ڈکٹیٹر کو اپنے انجام تک پہنچنا ہے۔ ابھی تو ٹریلر چل رہا ہے، فلم کی کہانی ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچی۔
تو یہ اپنے تھے جنہوں نے کراچی اور مہاجر سیاست کے نام پر اس شہر کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کمی اور کسر نہیں چھوڑی۔ ہم نے اُس وقت بھی لکھا تھا کہ الطاف حسین کی مہاجر سیاست اُن کے اَنا کے پھیلے ہوئے سائے کا نام ہے، اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.. اور یہ لکھنے کی جواب دہی بھی ہمیں کرنی پڑی۔ خداوند تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی، وگرنہ بوری میں بند لاشوں میں ایک اور کا اضافہ ہوجاتا۔
آج کراچی کو ایک فیصلے کا سامنا کرنا ہے کہ کراچی کا حقیقی قائد کون ہو؟ اس کے دکھوں اور اذیتوں پر مرہم رکھنے کی ذمہ داری کس کو دی جائے؟ ظاہر ہے یہ کوئی ایسا مشکل سوال نہیں کہ کسی کو اس کا جواب معلوم نہ ہو۔
پچھلے چند برسوں میں ایک شخصیت جو کراچی کے مصائب پر تڑپ اٹھنے والی اور انہیں حل کرنے کے لیے اپنے تن من دھن کی بازی لگا دینے والی سامنے آئی ہے وہ حافظ نعیم الرحمٰن کی ہے۔ یہ صاحب جو خیر سے خداوند تعالیٰ کی آخری لافانی کتاب اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہیں اور دردِ دل کی دولت سے بھی مالا مال ہیں اور پوری قوت اور کردار کی طاقت سے کراچی کے ہر مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشاں رہے ہیں، اور اس لیے رہے ہیں کہ ان کا تعلق اُس جماعت سے ہے جو گزشتہ 75 برس سے اس شہر کی بے لوث خدمت کرتی آرہی ہے۔ اس کے شفا خانے اور اسپتال، اس کی میت گاڑیاں، سستی روٹی فراہم کرنے والے ریستوراں، بیواؤں اور یتیموں کی امداد، کنواری اور غریب بچیوں کے لیے جہیز اور اسی طرح کے بے شمار رفاہی کام کسی عوض، کسی لالچ کے بغیر جو ہورہے ہیں تو یہ وہی جماعت کررہی ہے جو ”جماعت اسلامی“ کہلاتی ہے، اور کراچی میں جس کے امیر کا نام ”حافظ نعیم الرحمٰن“ ہے۔ کے الیکٹرک کی زیادتیوں کے ازالے کے لیے انہی حافظ صاحب نے آواز اٹھائی، حکومتِ سندھ کی ناانصافیوں کے خلاف انہی نعیم الرحمٰن صاحب نے دھرنے دیے۔ ”کراچی کو اس کا حق دو“ کی آواز اگر کسی نے بلند کی تو انہی انجینئر حافظ نعیم الرحمٰن نے۔ تو اگر کراچی والوں کو اپنے شہر کو بدلنا ہے، اسے خوب صورت بنانا، منظم کرنا،اور مسائل سے پاک کرنا ہے تو اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ اسی شخص کو اس شہر کی سربراہی دی جائے جو اس شہر کے دکھوں پہ تڑپتا رہا ہے اور جس کے دن اس شہر کے مسائل کو حل کرنے کے لیے سیاہ ہوتے رہے ہیں۔
قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ ”احسان کا صلہ احسان کے سوا اور کیا ہے“۔ تو جس شخص کا اِس شہر پہ بے لوث احسان ہے اُسے اس کے احسانات کا عوض دیا جائے اور اسے انتخابات میں کامیاب و کامران کیا جائے۔ جب وہ اختیارات کے بغیر شہر کے مسائل محض اپنی کوشش اور جدوجہد سے حل کرا سکتا ہے تو اختیارات مل جانے پر وہ کیا کچھ کر گزرے گا، اس کا تو صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت میں تو وہ اندازے سے بڑھ کر کرے گا، آزمائش شرط ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن سے پہلے اس شہر میں جماعت کے دو میئر منتخب ہوئے۔ میئر عبدالستار افغانی اور ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ۔ افغانی صاحب نے اس شہر کی کتنی تن دہی سے خدمت کی اس کا عینی شاہد تو میں خود ہوں، کیوں کہ میں مخصوص نشستوں پر کونسلر منتخب ہوا تھا اور افغانی صاحب کے گروپ کا سیکرٹری اطلاعات تھا تو میں نے دیکھا کہ افغانی صاحب اور ان کے ساتھی کونسلروں نے کس طرح شہر کی سڑکیں دھڑا دھڑ تعمیر کرائیں، گندی گلیوں اور ابلتے نالوں اور گٹروں کی مرمت کراکے شہریوں کو ایک صاف ستھرا ماحول فراہم کیا۔ پہلی بار اوورہیڈ پل بھی افغانی صاحب ہی کے دور میں بنے۔ ان کی انہی خدمات کے انعام میں اس شہر نے انہیں دوبارہ میئر منتخب کیا اور موٹر وہیکل ٹیکس کراچی کا کراچی کو دینے کے حق پر اصرار کرنے کے ”جرم“ میں بلدیہ عظمیٰ توڑ دی گئی اور میئر افغانی کو گھر کا رستہ دکھا کر شہر کو اُن لوگوں کے حوالے کردیا گیا جن کا تذکرہ پیچھے ہوچکا ہے۔
صدر جنرل پرویزمشرف کے دور میں نعمت اللہ خان کو شہر کی قیادت ملی۔ جنرل صاحب کو جماعت اسلامی سے کوئی دل چسپی نہیں تھی لیکن نعمت اللہ خان صاحب نے اپنی محنت، اخلاص اور دردمندی سے جو شہر کراچی کی خدمت کی تو جنرل صاحب کی بھی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے اعلانیہ نعمت صاحب کی تحسین کی اور ایسی تعریف کی کہ مخالفین بھی بھنّا گئے۔ کوئی شبہ نہیں کہ جنرل صاحب کو اس شہر کی بہتری منظور تھی۔ نعمت اللہ خان صاحب نے شہر کو اپنی خدمت سے کہاں سے کہاں پہنچا دیا کہ بعد میں آنے والے مصطفیٰ کمال کو بھی ایک ٹارگٹ، مشکل ٹارگٹ مل گیا اور بلاشبہ انہوں نے بھی شہر کی خدمت کی، لیکن اس کا کریڈٹ بھی بالواسطہ نعمت اللہ خان صاحب کو ہی جاتا ہے۔ نہ وہ اس شہر کی خدمت کی مثال قائم کرتے اور نہ بعد میں آنے والوں کو اس کی توفیق ہوتی۔ آخر اس پارٹی کے پاس پہلے بھی تو میئر شپ رہی تھی، تب انہوں نے یہ خدمت کیوں نہ کی؟
حافظ نعیم الرحمٰن انہی میئر عبدالستار افغانی اور ناظم نعمت اللہ خان کی صحبت اٹھائے سپوت ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو اس قیادت کا اہل ثابت کردیا ہے۔ اگر اب بھی اہلِ کراچی کی آنکھیں نہ کھلیں تو پھر کب کھلیں گی؟ ہوا کا رُخ بتا رہا ہے کہ حافظ نعیم الرحمٰن کی فتح قریب ہے، باہر سے گواہیاں آرہی ہیں، مزاح نگار انور مقصود ہوں یا عالمِ دین مولانا طارق مسعود، سب یک زبان ہیں کہ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمٰن نے وہ کام اس شہر کے کیے ہیں جو حکومت کے کرنے کے ہیں۔ کیا یہ گواہیاں رائیگاں جائیں گی؟ نہیں…. ہرگز نہیں۔