امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور معاشی بدحالی

جمعیت علمائے اسلام کی کل جماعتی کانفرنس

جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے امن وامان کی بگڑتی صورتِ حال، معاشی بدحالی اور صوبائی حکومتی غیر سنجیدگی کے حوالے سے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن نے کی۔ اس اے پی سی میں جماعت اسلامی کے صوبائی امیر اور سابق سینیٹر پروفیسر محمدابراہیم خان، مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی اور صوبائی ترجمان اختیارولی، پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور سابق وفاقی وزیر نجم الدین خان، قومی وطن پارٹی کے مرکزی سینئر وائس چیئرمین باشم بابر، عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی نائب صدر شاہی خان شیرانی نے شرکت کی۔ اے پی سی کے اختتام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ صوبہ 900 ارب روپے کا مقروض ہے جس کا وزیراعلیٰ کو حساب دینا ہوگا، صوبائی حکومت امن کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے، ہیلی کاپٹر بل صرف عمران خان کو نیب کیسوں سے بچانے کے لیے پاس کیا گیا، ہم ذاتی قانون سازی کی مذمت کرتے ہیں۔ کسی کو اندازہ نہیں کہ پی ٹی آئی کے لوگوں نے ملک کا کیا حشر کیا ہے، بیرونی ایجنڈے کے لیے عمران خان ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ پی ٹی آئی سے توشہ خانہ اور توپ خانہ بھی محفوظ نہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتحادی حکومت کی کاوشوں سے ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل چکا ہے۔ کل جماعتی کانفرنس کے شرکا نے صوبہ خیبر پختون خوا میں جاری بدامنی کی لہر، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان و قتل و غارت گری کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے حکومت کی نااہلی کا نتیجہ قراردیا۔ آل پارٹیز کانفرنس نے بی آرٹی، مالم جبہ کیس، آٹا چینی اسکینڈل اور بیرونی فنڈنگ کیس میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے خیبر پختون خوا میں ہدفی قتل، اغوا برائے تاوان اور قتل وغارت کے واقعات کو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی نااہلی اور ناقص پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

کل جماعتی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ڈاکوئوں، لٹیروں اور بھتہ خوروں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جس سے عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اس وقت حکومت کے وزیر بدعنوانی اور مال بٹورنے میں مصروف ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس میں شامل سیاسی جماعتوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ صوبے میں امن و امان کی بحالی کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے، بصورتِ دیگر صوبے کی اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف سخت فیصلے پر غور کرسکتی ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے کے مطابق صوبے میں 10 سال کے دوران حکمرانوں نے 9 سو ارب روپے کا قرضہ لیا ہے، یہ قرض بدعنوانی کے لیے حاصل کیا گیا ہے لیکن ان پیسوں سے صوبے میں اب تک کسی میگا ترقیاتی پراجیکٹ، یونیورسٹی، ہسپتال اور ترقیاتی منصوبوں کا آغاز نہیں کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے دونوں ادوار میں ترقی کا کوئی نام و نشان نہیں، جس کے لیے صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ کو اربوں روپے کا حساب دینا ہوگا۔ اعلامیے کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں عددی اکثریت کے بل بوتے پر ہیلی کاپٹر کے استعمال سے متعلق منظور کردہ قانون محض عمران خان نیازی کو نیب کے مقدمے سے بری کرنے کے لیے پاس کرایا گیا ہے، اس لیے ذاتی مفاد کے اس امتیازی قانون کی مذمت کی جاتی ہے۔ پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ صوبے میں جاری بدامنی صوبائی حکومت کی نااہلی ہے، صوبائی حکومت فوری اقدامات کرے بصورتِ دیگر اپوزیشن جماعتیں سخت فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں گی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ دو صوبائی حکومتوں کی جانب سے وفاقی حکومت کی مشکلات میں اضافہ کیا جارہا ہے، روزانہ اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کرنے والے وزیراعلیٰ کو کیسے فنڈ جاری کیے جائیں! انہوں نے کہا کہ مرکز پر حملے ہورہے ہیں لیکن ہم حکمت عملی کے ذریعے مرکز کا دفاع کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک بڑا منصوبہ تھا لیکن ساڑھے تین سال میں اسے خراب کیا گیا، ان لوگوں نے پاکستان کا معاشی قتل کیا ہے، ملک کو ڈبویا ہے جس کا ان سے حساب لیا جائے گا۔

جمعیت(ف) کی اے پی سی پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خیبر پختون خوا کے وزیر برائے محنت شوکت یوسف زئی نے کہا کہ جے یو آئی کی کل جماعتی کانفرنس کا مقصد اپنی چوریوں کو تحفظ دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی روکنے کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے پر غیر قانونی اور ناجائز قبضے کی سازش ہورہی ہے تاہم الیکشن میں اپوزیشن کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ صوبائی وزیر نے سوال کیا کہ کیا اسلام آباد میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہے جو بلدیاتی انتخابات نہیں ہوسکتے؟ اسلام آباد اورکراچی کے بلدیاتی انتخابات سے راہِ فرار شکست کے خوف کی وجہ سے اختیار کی جارہی ہے۔ عام انتخابات کا فی الفور اور شفاف انعقاد پی ڈی ایم کی چڑ بن چکی ہے، اور وہ پی ٹی آئی سے شکست کے خوف کی وجہ سے ان انتخابات سے بھاگ رہے ہیں، لیکن ہم انہیں بھاگنے نہیں دیں گے۔

جے یو آئی (ف) کی جانب سے صوبے میں گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں نمایاں پوزیشن، اور بعد ازاں قومی اسمبلی کی دونشستوں پر ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے ہاتھوں واضح شکست کے بعد اب جے یوآئی صوبے میں اپنے قدم جمانے کے لیے ایک بار پھر ہاتھ پائوں مار رہی ہے، اور یہ حالیہ اے پی سی اسی سلسلے کی ایک کڑی بتائی جاتی ہے۔ مولانا کی اس حقیقت سے ہرکوئی واقف ہے کہ وہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کے ہنر سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ وقتاً فوقتاً یہ کھیل بوقتِ ضرورت کھیلتے بھی رہے ہیں، اور اب چونکہ ان کی جماعت مرکزمیں برسراقتدار ہے اور پچھلے سات آٹھ ماہ سے اس مخلوط حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری کے ساتھ ساتھ بدامنی کے جونئے ریکارڈ قائم کیے ہیں مولانا نے زیربحث اے پی سی کے ذریعے بڑی ہوشیاری سے اگر ایک طرف اپنے حصے کا گند صوبائی حکومت کے توسط سے پی ٹی آئی کے سر تھوپنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف وہ خیبرپختون خوا میں پی ٹی آئی کے خلاف اپوزیشن کی جماعتوں کاکندھا استعمال کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ یہ حقیقت اب کوئی راز نہیں ہے کہ مولانا کی آئندہ عام انتخابات میں تمام تر توجہ کا مرکز خیبر پختون خوا اور

کسی حد تک بلوچستان ہیں، اور وہ ان دونوں صوبوں میں ہر حال میں حکومت بنانے کے چکر میں ہیں جس کے لیے منظم انداز میں فضا سازگار بنائی جارہی ہے، اور اس کاآغاز بلوچستان میں سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کی جمعیت (ف) میں شمولیت سے ہوچکا ہے، جب کہ خیبر پختون خوا میں اس خاکے میں رنگ بھرنے کاآغاز اگر ایک طرف یہاں مولانا کے دستِ راست حاجی غلام علی کی بطورگورنر تعیناتی سے ہوچکا ہے تو دوسری جانب اس سلسلے کا آغاز پشاور سے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ناصر خان موسیٰ زئی کی جے یوآئی میں شمولیت کے متوقع اعلان سے ہوچکا ہے، جب کہ اس سلسلے میں پی ٹی آئی سمیت بعض دیگر جماعتوں سے بھی ہوا کا رخ دیکھ کر کئی فصلی بٹیروں کی جمعیت(ف) کی جانب اڑان کی پیشن گوئیاں کی جارہی ہیں۔ گوکہ یہ کہنا فی الحال قبل ازوقت ہوگا کہ خیبر پختون خوا کے مستقبل کا سیاسی نقشہ کیا بنے گا اور اس میں کون کہاں کھڑا ہوگا، لیکن صوبے میں بدامنی اور دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں، اور خاص کر افغانستان کے حالات کے تناظر میں نظر یہی آرہا ہے کہ مستقبل کے کسی بھی ممکنہ سیاسی سیٹ اَپ میں بلوچستان اور خیبرپختون خوا کی حد تک جمعیت (ف)کی اہمیت کو نظرانداز کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا۔