سعید بن عروہ کا بیان ہے:
حجاج بن یوسف ایک مرتبہ مکہ مکرمہ جارہا تھا، راستے میں پڑائو ڈالا۔ اس نے اپنے دربان سے کہا: دیکھو، اگر کوئی اعرابی(بدو) نظر آئے تو اسے لائو تاکہ وہ میرے ساتھ کھانے میں شریک ہوسکے۔ حجاج کی یہ عادت تھی کہ جب کھانے پر بیٹھتا تو لازماً کسی دوسرے شخص کو بھی دسترخوان پر اپنے ساتھ بٹھاتا۔
دربان کی نگاہ ایک اعرابی پر پڑی جو دو چادریں لپیٹے ہوئے تھا۔ اس نے اعرابی کو مخاطب کرکے کہا: گورنر کی دعوت قبول کرو۔
جب اعرابی حجاج کے پاس آیا تو حجاج نے کہا: قریب آئو اور میرے ساتھ کھانا تناول کرو۔
اعرابی: مجھے اس ہستی نے دعوت دے رکھی ہے جو تجھ سے بہتر ہے۔
حجاج: کون ہے وہ ہستی؟
اعرابی: اللہ عزوجل نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی ہے، سو میں روزے سے ہوں۔
حجاج: اس شدید گرمی میں روزہ؟
اعرابی: جی ہاں، میں نے اُس دن کے لیے روزہ رکھا ہوا ہے جو اِس سے کئی گنا زیادہ گرم ہوگا۔
حجاج: چلو، آج کھا لو، کل روزہ رکھ لینا۔
اعرابی: تجھ پر تعجب ہے اے حجاج! کیا کل تک میری زندگی کا تُو ضامن ہوسکتا ہے؟
حجاج : یہ تو میرے بس میں نہیں ہے۔
اعرابی: پھر تُو کیوں آج کا عمل کل پر ڈالنے کی بات کررہا ہے جس کا اختیار ہی تیرے پاس نہیں ہے؟
حجاج: بھئی یہ بڑا ہی لذیذ اور اچھا کھانا ہے۔
اعرابی: نہ تو تُو نے کھانا اچھا بنایا ہے اور نہ ہی یہ باورچی کے ہاتھوں کا کمال ہے، بلکہ صحت و عافیت نے اس کی لذت کو دوبالا کیا ہے۔ اگر صحت و عافیت نہ ہو تو پھر کوئی لذیذ سے لذیذ کھانا بھی اچھا نہیں لگتا۔ اے حجاج! میں تجھے اور تیرے کھانے کو چھوڑتا ہوں، تُو مجھے میرے رب کے ساتھ چھوڑ دے!
یہ کہہ کر اعرابی چل پڑا اور حجاج کے ساتھ کھانا تناول نہ کیا۔
(عبدالمالک مجاہد ،’’سنہرے اوراق‘‘ سے انتخاب)
مجلس اقبال
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
یہ شعر کل کی طرح آج بھی اہلِ مغرب کی حکومتوں کی منافقانہ پالیسی بیان کرتا ہے کہ ان کی حکومتیں علم و حکمت اور فلسفہ کی تعلیم کے دعوے تو بہت کرتی ہیں، جس طرح برصغیر میں برطانوی راج میں ہورہا تھا کہ اصل میں تو وحشی اور ظالم مگر زبان پر حقوق، محبت، انسانیت اور مساوات جیسے دعوے ہوتے تھے۔ آج کے حالات میں عراق، افغانستان، لیبیا اور شام وغیرہ مسلمان ممالک میں مغربی وحشت و دہشت اور درندگی کا منظر دیکھیں اور ان کی زبانوں پر امن و حقوقِ انسانی جیسے دعوے، تو ان کی منافقانہ روش سامنے آجاتی ہے۔ کس قدر غضب کا مقام ہے کہ پورے عالمِ اسلام پر ننگی جارحیت کے ارتکاب اور آگ و بارود کی موسلادھار بارش کے باوجود عالمی سلامتی کونسل کے مالکان بنے ہوئے ہیں۔ یوں ’’پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات‘‘۔ حقیقت میں علامہ کے الفاظ میں گویا مستقبل کی پالیسی ہے۔