حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
” اگر کوئی آدمی ایسی قوم سے ہو جس میں گناہ ہوتے ہوں اور وہ اسے منع کرنے کی قدرت بھی رکھتے ہوں پھر بھی اسے نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ ان کی موت سے پہلے انہیں عذاب میں مبتلا کردے گا“۔
(سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الملاحم :4339)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ: ’’تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ (طاقت) سے بدل دے۔
اگر ہاتھ سے بدلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے بدلنے کی کوشش کرے۔
اور اگر زبان سے بھی نہ بدل سکتا ہو تو دل سے بدل دے،
لیکن یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘۔
(اسے مسلم نے روایت کیا ہے)
اس حدیث میں برائی کو روکنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
قرآن مجید میں نیکی کی ترغیب دینے اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری امت ِمسلمہ کے سپرد کی گئی ہے۔ متعدد مقامات پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تذکرہ یکجا ہوا ہے۔ چند مقامات دیکھیے!
(ترجمہ)’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے، وہی فلاح پائیں گے‘‘۔
(آل عمران: 104)
دوسری جگہ فرمایا:
(ترجمہ)’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو، جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو‘‘۔
(آل عمران:110)
(ترجمہ)’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے‘‘۔
(التوبہ:71)
(ترجمہ)’’یہ وہ لوگ ہیں، جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے، اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
(الحج:41)
یہ تو اہلِ ایمان کی صفات کا ذکر تھا۔ قرآن مجید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں بھی انہی صفات کا ذکر فرمایا ہے:
(ترجمہ)’’وہ انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور بدی سے روکتا ہے‘‘۔
(الاعراف: 157)
ان آیات کے مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ ایمان محض نماز، روزہ اور حج، زکوٰۃ کی ادائیگی کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ اس مکمل نظامِ زندگی کا نام ہے، جس میں ایک مسلمان خود نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیتا اور تبلیغ کرتا ہے۔
نیکی کی اس ترغیب کا ایک لازمی پہلو یہ ہے کہ اس نظام زندگی پر استوار ہونے والے معاشرے کے اندر پھیلنے والی برائیوں کو روکا جائے اور اس کے لیے مروج و معقول تمام ذرائع استعمال کیے جائیں۔
برائی کی تردید اور نیکی کی تبلیغ کی تعلیم احادیثِ رسولؐ میں بھی کثرت سے دی گئی ہے۔
حضرت عبداللہؓ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جو بھی نبی بھیجا، اس کی امت میں سے اس کے ایسے اصحاب و حواری ہوتے تھے جو اس کی سنت پر عمل کرتے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے۔ پھر ان کے بعد کچھ ایسے لوگ آتے گئے جو کچھ کہتے تھے کرتے نہیں تھے، اور وہ کام کرتے تھے جس کا ان کو حکم نہیں دیا گیا تھا۔ لہٰذا جس نے ایسے لوگوں سے ہاتھ سے جہاد کیا وہ مومن ہے، جس نے زبان سے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، اور جس نے دل کے ساتھ جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں ہے‘‘۔