سفر انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہی، نت نئے تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ انسان کی سوچ میں تبدیلی آتی ہی، علم میں اضافہ ہوتا ہے، شاعر یا ادیب کے سفر کی ادبی اہمیت ہوتی ہے۔
شاعر مشرقی علامہ اقبال نے بھی کئی اندرون و بیرون ملک سفر کئے۔ ان تمام اسفار کو یکجا کرنے کا سہرا عنایت علی کے سر ہے۔ عنایت علی پیشے کے اعتبار سے انجیئر ہیں۔ آپ نے علمی، تعلیی اور ملی جذبات کے تحت کئے جانے والے اسفار کو ہی شامل کتاب کیا ہے۔ نجی، ذاتی اور خاندانی اسفار کو درج نہیں کیا۔ تمام اسفار زمانی اعتبار سے درج ہیں۔ کل 19 اسفار جزو کتاب ہیں۔
سب سے پہلے انگلستان وغیرہ کا سفر ہے جس میں کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ، میونخ یونیورسٹی میں داخلہ اور بائیڈل برگ میں قیام کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انگلستان میں اقبال کی ملاقات پروفیسر آرنلڈ سے ہوئی یہ وہی پروفیسر آرنلڈ ہیں جو اپنے احباب سے اقبال کی تعریف کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ایسا شاگرد استاد کا مہقق اور محقق کو محقق تر بنادیتی ہے۔
پھر امرتسر، حیدرآباد (دکن)، کشمیر، مدراس، میسور اور کانپور وغیرہ کے اسفار ہیں۔ مدراس میں اقبال نے خطبات مدراس دیئے، پھر علی گڑھ کا سفر ہے جہاں آپ نے خطبات دیئے، پھر الٰہ آباد کا سفر ہے جہاں کا خطبہ الٰہ آباد مشہور ہے، پھر دوسری گول میز کانفرنس کا سفر درج ہے۔ جس میں عنایت علی صاحب نے مسلمانوں کے وفد کی حکوتم ہند کے انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ کے ساتھ ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو بھی درج کی ہے، اس گفتگو کی دریافت کا سہرا ڈاکٹر رشید احمد جالندھری کے سر ہے۔ پھر تیسری گول میز کانفرنس کا سفر ہے، اس کے بعد افغانستان اور بھوپال کے اسفار شامل ہیں۔
عنایت علی صاحب نے کتاب میں شامل فارسی اشعار کا ترجمہ بھی دیا ہے۔ آپ نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا نہ ہی عبارت میں کوئی سقم ہے۔ یہ امر بھی حوصلہ افزا ہے کہ عنایت علی صاحب پانچ سال کے اندر اندر ترمیم و اضافہ شدہ ایڈیشن سامنے لائے ہیں۔ آپ موضوع سے جڑے ہوئے ہیں، اس تصنیف میں بہت محنت کی گئی ہے۔
یہ اس کتاب کا تیسرا ایڈیشن ہے۔ امید ہے آپ کی آئندہ بھی اقبالیات کے مزید تصنیفات منظرعام پر آئیں گی۔