مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک

زندہ قومیں فتح ہی سے نہیں شکست سے بھی بہت کچھ سیکھا کرتی ہیں مگر پاکستان کے اہل اقتدار نے سقوطِ ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا

لوح تاریخ پر جلی حروف میں تحریر ہے کہ جو اپنے ماضی کو بھلا دیتے ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جن لوگوں نے اپنے ماضی کو یاد رکھا اور اس کی غلطیوں سے سبق سیکھا وہ ہمیشہ کامیاب و کامران ہوئے۔ قوموں کی زندگی میں شکست ایک تلخ اور اذیت ناک تجربہ ہوتا ہے لیکن زندہ قوموں کی تاریخ میں بارہا ایسا ہوا کہ انہوں نے شکست سے سبق سیکھا، پھر ایک بڑی فتح ان کا مقدر بن گئی اور وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور معزز قوم بن کر ابھریں۔ بدقسمتی سے ہم نے بھی اپنے ماضی کو یکسر بھلا رکھا ہے اور اپنی ایک شکست کے 51 سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس سے سبق حاصل کرنے کے بجائے اس کے جواز بیان کرنے میں مصروف ہیں۔ ہمارا ماضی جسے ہم بھلا بیٹھے ہیں، تاریخ کے اوراق میں یوں درج ہے کہ 1947ء میں دنیا کے نقشہ پر انسانی تاریخ کی پہلی نظریاتی مملکت، اللہ کی حاکمیت لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آئی، جسے دنیا کی سب سے بڑی مسلم مملکت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس مملکت کے حصول میں 1947ء میں پنجاب کے مشرقی دریا بیاس، ستلج اور راوی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوگئے۔ ہزارہا عصمتیں لٹیں، شیرخواروں کے پیٹ کرپانوں سے پھاڑے گئے۔ بہنوں کے سامنے بھائی اور مائوں کے روبرو بیٹوں کو تہہ تیغ کیا گیا۔ 10 لاکھ لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں تب جاکر یہ ملک حاصل ہوا۔ اس قربانی کی کوئی دوسری مثال پیش کرنے سے تاریخ کی قاصر ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر لاکھوں لوگ اپنی جائیدادیں اور اور سارا مال و اسباب چھوڑ کر صرف تن کے کپڑوں میں آگ اور خون کا دریا عبور کرکے اس مملکت کی طرف ہجرت کرکے آئے۔ انسانی تاریخ اتنی بڑی اور ایسی دردناک ہجرت کی مثال شاید قیامت تک نہ پیش کرسکے۔ اسباب اور وسائل سے تہی دامن اس مملکت کے متعلق دنیا کو یقین تھا کہ یہ مملکت چند روز سے زیادہ اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے گی لیکن اس نظریاتی مملکت کے جان نثاروں نے اَن تھک محنت، ایثار اور قربانی کی ساتھ دنیا کے سارے اندازے غلط ثابت کردکھائے اور جلد ہی پاکستان کا شمار دنیا کے معزز ملکوں میں ہونے لگا۔

شومئی قسمت اس عظیم الشان کامیابی کے بعد اس مثالی مملکت کو اس المیہ کا سامنا کرنا پڑا جس نے پوری ملتِ اسلامیہ کے حواس کو مائوف کرڈالا۔ یہ مملکت اپنی عمر کے 25ویں سال کی ابتداء ہی میں دولخت ہوگئی۔ ہماری ملی تاریخ میں بہت سے ایسے المیے ملیں گے جن پر قوم خون کے آنسو بہا سکتی ہے لیکن کوئی المیہ اتنا شرمناک اور کرب ناک نہیں تھا جتنے کرب اور شرم کا باعث سقوطِ ڈھاکہ ہے۔ جب 16 دسمبر 1971ء کو دنیا نے ملت اسلامی کی سب سے بڑی اور مایہ ناز فوج، جو دنیا بھر کے مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز تھی، جن کا ماٹو شہید یا غازی تھا، ہزاروں کی تعداد میں ہوتے ہوئے ہنود کے سامنے ہتھیار ڈالتے دیکھا۔ ایک رات 14 اگست 1947ء کی تھی جب ڈھاکہ میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے گونج رہے تھے اور دوسری رات 15 اور 16 دسمبر کی درمیانی رات تھی جب کلمہ کی گونج کا امین ڈھاکہ آخری ہچکیاں لے کر ہمیشہ کے لیے موت کی وادیو ںمیں اتر گیا، پھر 16 دسمبر کی صبح سیکولر ڈھاکہ نے جنے بنگلہ کی چنگھاڑ کے ساتھ جنم لیا۔ اسلامی تاریخ میں کسی رات کے اندھیرے ایسے ہولناک نہیں ہوں گے جس قدر ہولناک اندھیروں سے ہمیں 15 اور 16 دسمبر کی درمیانی رات کی ساعتوں میں گزرنا پڑا جب نہرو کی بیٹی مسرت سے جھولتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ ہم نے ہزار سال کا بدلہ چکا دیا اور دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال کے پانیوں میں ڈبو دیا۔اس المیہ نے پوری ملت اسلامیہ کے ماتھے پر وہ کالک مل دی جو رہتی دنیا تک تاریخ کا انمٹ حصہ ہے۔ اس المیہ کا سبب حدیث کے الفاظ کے مصداق ناخلف لوگوں کا قیادت و سیادت کے منصب پر بیٹھنا تھا جس کے نتیجے میں عدیم النظیر اور بے مثال کامیابیوں کے بعد انجام گلستان بھی ایسا المناک ہوا کہ تاریخ اس زوال اور شکست کی مثال بھی شاید پیش نہ کرسکے۔ اس سے کہیں بڑا سانحہ یہ ہوا کہ ناقابل بیان ہزیمت کے بعد قومی سطح پر کہیں دور دور تک کوئی تاسف اور ملال کے آثار نہیں دکھائی دیئے۔ زندہ قومیں فتح ہی سے نہیں شکست سے بھی بہت کچھ سیکھا کرتی ہیں مگر پاکستان کے اہل اقتدار نے سقوطِ ڈھاکہ سے کچھ نہیں سیکھا۔ بے حسی اور بے شرمی کی انتہا کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ روئیداد خان جو ماشاء اللہ ابھی بقیدِ حیات ہیں، تب وہ مرکزی سیکریٹری اطلاعات کے منصب پر فائز تھے۔ صدر مملکت جنرل یحییٰ خان نے ان سے کہا کہ وہ پریس بریفنگ کے ذریعہ قومی اور بین الاقوامی پریس کو مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے Surrender کے واقعہ سے آگاہ کریں۔ روئیداد خان نے عرض کیا کہ یہ ایک فوجی شکست فاش ہے لہٰذا پریس بریفنگ میں ایک فوجی افسر کا موجود رہنا بھی ضروری ہے۔ جنرل یحییٰ خان یہ سن کر آگ بگولہ ہوگئے، کہنے لگے کہ تمہیں فوجی شکست کہنے کی جرأت کیسی ہوئی۔

بے حسی کا مزید اندازہ لگائیں کہ ملک دو ٹکڑے ہوگیا، آدھا ملک اور وہاں موجود فوجی اور دیگر سرکاری لوگ 90 ہزار کی تعداد میں ہندوستان کے قیدی بن گئے اور یہاں جنرل یحییٰ خان ہر قسم کے ملال ،فکر اور ندامت سے عاری ہوکر بقیہ بچ جانے والے آدھے پاکستان پر اپنی صدارت کو مستحکم کرنے کے انتظامات میں مصروف تھے۔

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاںجاتا رہا

پاکستان کی تاریخ کے اس بڑے مجرم کو سول حکمران بھٹو صاحب نے صرف نظربند رکھنے پر اکتفا کیا لیکن بعد میں آنے والے مارشل لاء میں جنرل ضیاء الحق صاحب نے، ایک جانب تو سابق وزیراعظم بھٹو کی عدالتی پھانسی پر رحم کی اپیل کو انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے فوری مسترد کردی اور دوسری جانب قومی تاریخ کے بڑے مجرم، اپنے پیش رو کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کے معاملہ میں انصاف کے ہر تقاضے کو پامال کرتے ہوئے موصوف کی نظربندی ہی ختم نہیں کی، ان کی تمام مراعات بھی بحال کردیں اور مرنے پر مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین عمل میں لائی گئی۔

51 سال ہونے کو آئے ہیں، ہم نے ماضی کے اس حادثے سے کچھ نہیں سیکھا، حد یہ ہے کہ آج تک اس حادثہ فاجعہ کے اسباب اور ذمہ داروں کا تعین تک نہیں کرسکے۔ لے دے کے ایک حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ تھی، وہ بھی برسہابرس خفیہ رکھنے کے باعث طاق نسیاں کی نذر ہوگئی۔ ہماری تمام تر کاوشیں جواز تراشنے اور انگریزی محاورہ کے مطابق “Shouldering the responsibility” سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ ابھی حال ہی میں سبکدوش ہونے والے جنرل باجوہ صاحب نے اپنی الوداعی تقریب میں یہ وضاحت دہرائی کہ 1971ء کی شکست فوجی نہیں، سیاسی شکست تھی۔ 1971ء کے بحران کے متعلق یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اس کے ذمہ دار سیاست دان تھے اور یہ سیاسی شکست تھی۔ پاکستان اگر 1958ء سے 1971ء تک سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہوتا تب تو یہ درست تھا کہ اسے سیاسی شکست کہا جاتا لیکن 1971-1958، چودہ سال کے عرصہ میں تمام تر امور سلطنت و سیاست بالکلیہ دوفوجی جرنیلوں کے ہاتھ میں تھے، لامحالہ شکست کے ذمہ دار بھی وہی ہیں۔ جنرل باجوہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ جنرل یحییٰ کے فوری بعد کمانڈر انچیف مقرر ہونے والے جنرل گل حسن نے برملا اس شکست کو فوجی شکست تسلیم کیا تھا۔ ملاحظہ ہو (المیہ مشرقی پاکستان کے پانچ کردار، منیر احمد)

جنرل صاحب نے دوسری بات یہ بھی فرمائی کہ مشرقی پاکستان میں فوج کو دو محاذ درپیش تھے۔ سرحد پر بھارتی فوج اور اندرون ملک مکتی باہنی کے کارندوں سے مقابلہ درپیش تھا لیکن جنرل صاحب نے ان پاکیزہ روحوں کا ذکر تک نہیں کیا جنہوں نے مکتی باہنی کے خلاف فوج کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ جنہوں نے بنگالی ہوتے ہوئے بھی بنگلہ قوم پرستی کے بت پر صورتِ البدر تیشہ چلایا اور سبز ہلالی پرچم کی حرمت پر بے داغ جوانیاں نچھاور کردیں۔ فوج تو ہتھیار ڈالنے کے بعد قیدی بن کر جانی اعتبار سے محفوظ ہوگئی لیکن فوج کے ہتھیار ڈالنے کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے البدر کے کمانڈروں کی گرفتاری پر انعامات کے اعلانات نشر ہوتے رہے۔ آج بھی البدر کی باقیات کو، جو 50 برس گزر جانے کے بعد اب 70 سے 80 سال کے پیٹے میں ہیں، پاکستان سے وفاداری اور افواج پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں پھانسی کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ وہ مجاہد پھانسی کے پھندے پر آخری لمحے تک پاکستان کی سا لمیت کی دعائیں کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ادھر ہماری بے حسی اور احسان فراموشی کا یہ عالم ہے کہ ان کے لیے نہ کسی کی آنکھیں نم ہوئیں اور نہ زبان سے کلمہ خیر نکلا۔ بے حسی نے دیدوں کا پانی خشک کردیا اور احسان فراموشی نے زبانوں پر قفل چڑھا دیے۔

گریباں چاک دیوانوں میں ہوتا تھا شمار ان کا
قضا سے کھیلتے تھے، وقت کے الزام سہتے تھے

جنرل عبداللہ نیازی کہتے ہیں ’’البدر میں حد درجہ وفادار لوگ شامل تھے، جنہوں نے خود کو پاکستان کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ البدر اور الشمس نے دل و جان کے ساتھ پاکستانی فوج کے ساتھ تعاون کیا۔ انہوں نے ہمیں کبھی دغا نہیں دی، کبھی فریب نہیں دیا۔ مجھے اپنے کمانڈوز کو دشمن کے علاقے میں بھیجنے کی اجازت نہ تھی، چنانچہ دشمن کی سرزمین میں اکثر و بیشتر کاروائیاں البدر کے رضاکار کرتے تھے۔ (مصنف جنرل اے کے نیازی، Betray of East Pakistan، صفحہ ۴۲) ۔ البدر نے تو فوج کے ساتھ وفاداری نبھائی لیکن پاک فوج نے ہتھیار ڈالتے وقت البدر اور الشمس کے لوگوں کے تحفظ کا رتی برابر خیال نہ کیا اور اس کے بعد بھی کبھی ان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

بریگیڈ حیات محمد خان جو 1971ء میں مشرقی پاکستان میں جیسور، کھلنا سیکٹر کے ذمہ دار تھے، البدر کے نوجوانوں کے متعلق کہتے ہیں ’’مجھے سلام کرنے دیجیے البدر اور الشمس کے ان جیالوں کو جو پاکستان کے شانہ بشانہ لڑے اور جنہوں نے اپنے لہو سے عزیمت و استقامت کے نئے باب رقم کیے۔ انہوں نے شجاعت کے عظیم کارنامے انجام دیے اور سنگین حالات میں عزم کی شمعیں روشن کیے رکھیں۔ ان میں سے بہت سے شہید ہوگئے، بہت سے بار بار زخمی ہوئے۔ ان کے گھربار لٹے، عزیزوں کو قتل کردیا گیا اور ان کے سامنے ان کے والدین اور بھائیوں سے وہ سلوک کیا گیا کہ پتھروں کا دل شق ہوتا تھا، مگر ان کے قدم ذرا متزلزل نہ ہوئے۔‘‘
(انٹرویو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ (اگست ۱۹۷۸ء)

حضرت ابو عبیدہؓ کے نقش قدم پر

بریگیڈیئر محمد حیات خان صاحب نے کہا کہ میں البدر کے اس تذکرے کا آغاز اس نوجوان سے کرنا چاہتا ہوں جس نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کی روایت تازہ کی۔ اس نوجوان کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ وہ چند ساتھیوں کے ہمراہ اپنے گائوں میں راتوں کو پہرہ دیا کرتا۔ ایک رات مکتی باہنی کا ایک ٹولہ گائوں پر حملہ آور ہوا، حملہ آوروں میں اس نوجوان کا باپ بھی شامل تھا۔ شدید جھڑپ ہوئی، اس جھڑپ میں باپ اپنے بیٹے کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ اگرچہ بیٹے کو یہ بات صبح کی روشنی میں معلوم ہوئی کہ رات کی لڑائی میں اس کا باپ مارا گیا ہے۔ نوجوان نے اپنے باپ کی لاش دیکھی مگر وہ نہ تو رویا نہ غمگین ہوا بلکہ ایمان اور یقین کا عجیب مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے صرف یہ کہا: ’’ٹھیک ہے وہ میرا باپ تھا مگر وہ میرے دین اور ملت کے دشمنوں کا ساتھی تھا، وہ اپنے درست انجام کو پہنچا ہے۔‘‘

میں نے اس سے ملاقات کی، اس کے جذبے کو سراہا اور یاد دلایا کہ اس نے یہ کارنامہ انجام دے کر حضرت امین الامت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی روایت دہرائی ہے تو اس نے بڑے انکسار سے کہا: ’’میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے، مجھے اپنا مقصد دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ مجھے اپنے دین کی خاطر ہر باطل قوت کے خلاف لڑنا ہے، میرے راستے میں اگر میری ماں بھی حائل ہوئی تو میں اس سے بھی ٹکرانے سے نہیں ہچکچائوں گا۔

’’’البدر اور الشمس‘‘ کے رضاکاروں نے پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں، وہ ہر وقت حکم پرلبیک کہتے تھے۔ انہیں جو کام سونپا جاتا وہ پوری ایمانداری اور جانی قربانی سے اداکرتے۔ اس تعاون کی پاداش میں تقریباً پانچ ہزار رضاکاروں یا اُن کے زیرکفالت افراد نے شرپسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھایا، ان کی بعض قربانیاں روح کو گرما دیتی ہیں۔ (انٹرویو ماہنامہ اردو ڈائجسٹ، اگست ۱۹۷۸ء)

گلستان کی لہو کی ضرورت پڑی،
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے اہل چمن،
یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں

البدر نے بدر کی تاریخ دہرادی ، تاریخ انہیں شہیدانِ راہِ وفا کے طور پر یاد رکھے گی لیکن ہم نے بحیثیت قوم، احسان کشی کی تاریخ رقم کی۔ زندہ قومیں اپنی تاریخ اور ماضی کو یاد رکھنے کے سارے جتن کرتی ہیں، ادھر ہمارا یہ حال ہے کہ ہم نے اپنے ماضی اور اپنے محسنین دونوں کو یکسر فراموش کردیا۔ ہمارے اس طرزِعمل کے باعث تاریخ ہمیں شکست خوردہ ہی نہیں احسان فراموش قوم کے طور پر یاد کرے گی ۔ اللہ تعالیٰ بھلا کرے پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب کا ، انہوں نے البدر کی لازوال قربانیوں پر کتاب لکھ کر قوم پر ایک قرض اتارنے کی چھوٹی سی کوشش کی ہے۔