وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئے تقریباً نو ماہ ہونے والے ہیں، یہ نو ماہ تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال کے مقابلے میں بہت بھاری ثابت ہوئے ہیں، بطور وزیر اعلیٰ پنجاب، وزیر اعظم شہباز شریف کی گورننس کے بہت چرچے تھے، وفاق میں اب تک ان کی حکومت مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں دے سکی، پی ڈی ایم کے طرز حکمرانی کی وجہ سے عوام سابق وزیراعظم کی کارکردگی بھول گئے ہیں اور آج کی مہنگائی نے ان کا دم نکال دیا ہے، شہباز شریف کی وہ ٹیم جس نے صوبہ پنجاب چلا یا وہ وفاق میں کامیاب کیوں نہیں ہوئی اس سوال کا جواب خود مسلم لیگ(ن) کے پاس بھی نہیں ہے ایک تلخ حقیقت ہے کہ تجربہ کار لیبل کی حامل مسلم لیگی لیڈر شپ اب تک کسی بھی شعبے میں معمولی کارکردگی بھی نہیں دکھاسکی،معیشت کا حال سامنے ہے اگر یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ مسائل عمران خان نے پیدا کیے، تب بھی حکومت کوئی بہتر انتظامی فیصلہ نہیں کر سکی ہے حکومت میں شامل دیگر جماعتوں پر عوام کی توجہ بہت کم ہے مسلم لیگ (ن) کی وزارتوں سے کارکردگی کی توقع تھی جو پوری نہیں ہورہی شہبازشریف کو اگر اپنا سیاسی کیریئر بچانا ہے تو انہیں اپنی حد تک حقیقی تبدیلی لانا ہوگی پارلیمانی اور سیاسی تاریخ انہیں ایک ناکام وزیر اعظم کی حیثیت سے یاد کرے گی، جہاں تک ملکی معیشت کا حال ہے،غیر ملکی اقتصادی امداد،ایف ای اے کی تازہ ترین رپورٹ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جس کے مطابق پاکستان کو رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں 5.115ارب ڈالر کے قرضے موصول ہوئے ہیں۔ عمران خان کے دور میں اسی مدت کے دوران ان کی مالیت تقریباً 4.449 ارب ڈالر تھی اور نومبر میں بیرون ملک سے محض 84کروڑ 20لاکھ ڈالر آئے ہیں ان پانچ ماہ کے دوران ملنے والا 5.115 ارب ڈالر کا یہ زرمبادلہ پورے سال کے ہدف 22.817 ارب ڈالر کے بجٹ تخمینے کا صرف 22.4 فیصدہے مالی سال 22-2021 کے پہلے پانچ ماہ میں 4.5 ارب ڈالر بیرون ملک سے آئے تھے جو 12.233 ارب ڈالر کے سالانہ بجٹ تخمینے کا 37 فیصد تھا یہ اعدادوشمار معیشت کے استحکام کے حوالے سے انتہائی تشویشناک ہیں کیونکہ مرکزی بنک کے پاس اس وقت زر مبادلہ کے ذخائر 6.1ارب ڈالر رہ گئے ہیں ہوسکتا ہے آئی ایم ایف کی 9ویں جائزہ رپورٹ کے بعد صورتحال بہتر ہوجائے تاہم حکومت کو آئی ایم ایف کی اگلی قسط حاصل کرنے کے لیے تقریباً 8 کھرب روپے کا اضافی ریونیو حاصل کرنا ہوگا،عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹانے کے اقدام سے لے کر پنجاب حکومت کو تحلیل کرنے یا نہ کرنے کی کشمکش تک پورا ایک کھیل ہے جسے سمجھنا ضروری ہے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد، در اصل پارلیمنٹ میں چھوٹی جماعتوں کا ایک کھونٹے سے الگ ہوکر دوسرے سے بندھ جانے کا فعل اور عمل تھا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں، یہی چھوٹی جماعتیںتحریک انصاف کی اتحادی تھیںبعد میں پی ڈی ایم کی اتحادی بن گئیں، اور اسی کو جمہوریت سمجھ رہی ہیں، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ وہ مستقبل میں سمجھوتہ کرکے بلیک میل ہوکر حکومت حاصل نہیں کریں گے لیکن مسلم لیگ(ق) سے مذاکرات کیا بلیک میل ہونا نہیں؟ یہ کہناجب عمران خان نے دو ماہ قبل 26نومبر کو اپنے لانگ مارچ کے اختتام پر جلسہ عام میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت کے لوگ موجودہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیں گے اور اس سسٹم کا حصہ نہیں رہیں گے تو اس وقت اس اعلان کے لیے ان کا ہوم ورک نہیں تھا۔ نہ صرف ان کے اتحادی بلکہ انکے اپنے ارکان اسمبلی بھی اس صورتحال کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سیاسی چال اب ان کی اپنی نہیں رہی بلکہ پنجاب میں اقلیتی جماعت کے ہاتھ میں سارا کھیل چلا گیا ہے چوہدری پرویز الٰہی کے ہاتھ میں ہی عمران خان کا سیاسی مستقبل ہے، جن کی پنجاب اسمبلی میں صرف دس نشستیں ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو لکھ کر دے دیا ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی تحلیل کر دیں گے اور عدالت کو لکھ کر دے دیا کہ وہ پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں کرینگے جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، اسکے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا منصوبے کا بلیو پرنٹ یقینی طور حقیقی حکمرانوں کے پاس ہو گا سیاستدانوں کی کرپشن کے مقدمات،آڈیوز اور وڈیوز لیکس سب کچھ کسی ایجنڈے کا حصہ تو نہیں؟ہر گزرتے دن کے ساتھ تحریک انصاف کی 2 صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے درمیان دشمنی کی کیفیت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ہر سیاسی اور آئینی حربہ آزمایا جارہا ہے آئینی اختیارات اورحدود کا بھی لحاظ نہیں رکھا جارہا۔یہ بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی ملک میں ایمرجنسی کے نفاذکی طرف اشارہ ہے،وزیرِاعلیٰ پنجاب نے ’مالی ایمرجنسی‘ کا حوالہ بھی دیا ہے اوروزیرِ داخلہ رانا ثنااللہ پنجاب میں ’گورنر راج‘ کے لیے سمری ارسال کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں ایمرجنسی کے حوالے سے دفعات آئین کا حصہ ہیں آرٹیکل 232 سے 237 میں اس کی مکمل وضاحت موجود ہے،آئین کا آرٹیکل 232 دو صورتوں میں ایمرجنسی لگانے کے حوالے سے ہے جنگ یا بیرونی جارحیت اور دوسری صورت ایسا داخلی خلفشار جس پر قابو پانا صوبے کی اہلیت سے باہر ہو۔ اگر صوبے میں داخلی خلفشار کے باعث ایمرجنسی نافذ کی جائے گی تو اس کے لیے صوبے کی اسمبلی ایک قرارداد منظور کرے گی صدرِ مملکت بھی ایمرجنسی کا نفاذ کرسکتے ہیںاس صورت میں ایمرجنسی کے معاملے کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا جنہوں نے 10 روز کے اندر اس کی منظوری دینی ہوگی۔اس آرٹیکل کے تحت لگنے والی ایمرجنسی کے دوران صوبائی اسمبلی کام کرتی رہے گی اور پارلیمان کی جانب سے صوبے کے حوالے سے منظور کیے گئے قوانین کو دیگر صوبائی قوانین پر سبقت حاصل ہوگی صدرِ مملکت یا گورنر کے ذریعے وفاق کے عاملانہ اختیار کا اطلاق صوبے پر بھی ہوگا۔ تاہم ایمرجنسی کے دوران عدالتوں کے اختیار معمول کے مطابق رہیں گے۔ایمرجنسی کے اعلان کیے جانے کے 30 روز کے اندر اس معاملے کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا اس ایمرجنسی کی معیاد 2 ماہ ہوگی اور مشترکہ اجلاس میں اس کی توسیع کی منظوری دی جاسکتی ہے اگر یہ منظوری نہ دی گئی تو 2 ماہ بعد ایمرجنسی ختم ہوجائے گی۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایمرجنسی کے دوران پارلیمان قومی اسمبلی کی مدت میں ایک سال تک کی توسیع کرسکتی ہے تاہم یہ توسیع ایمرجنسی ختم ہونے کے بعد کسی صورت بھی 6 ماہ سے زیادہ نہیں رہے گی۔آئین کا آرٹیکل 233 یہ وضاحت کرتا ہے کہ صدرِ مملکت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ایمرجنسی کے اعلان کے ساتھ ہی کچھ بنیادی حقوق کو معطل کردیا جائے۔آئین کا آرٹیکل 234 صوبے میں آئینی مشینری کی ناکامی کی صورت میں ایمرجنسی لگانے کے اختیار سے متعلق ہے یہی وہ آرٹیکل ہے جس کے بارے میں صوبوں کو خدشات ہوتے ہیں۔ یہ ایمرجنسی اس صورت میں لگتی ہے جب صدرِ مملکت کو صوبائی گورنر کی جانب سے یہ رپورٹ ملے کہ صوبائی حکومت اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہی اور صدرِ مملکت اس رپورٹ سے مطمئن ہوجائے۔ ایسی صورت میں پارلیمان کے دونوں ایوان ایمرجنسی لگانے کے مطالبے پر مبنی علیحدہ علیحدہ قراردادیں منظور کریں گے جس کے بعد صدرِ مملکت ایمرجنسی لگانے کے پابند ہوں گے۔ ایمرجنسی کے دوران عدالتوں کے اختیارات بحال رہیں گے،آئین کا آرٹیکل 235 مالی ایمرجنسی سے متعلق ہے جس میں صدر اس وقت ایمرجنسی کا اعلان کرتا ہے جب وہ صوبائی گورنر کے ساتھ مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اب ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں جس سے پاکستان یا اس کے کسی حصے کے مالی استحکام، اقتصادی زندگی اور ساکھ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔اس قسم کی ایمرجنسی کے نافذ العمل ہونے کے بعد وفاق کا انتظامی اختیار کسی بھی صوبے کو مالی معاملات کے حوالے سے ہدایات دینے پر بھی ہوگاان ہدایات میں صوبے یا وفاق کے لیے کام کرنے والے کچھ یا تمام افراد کی تن خواہوں اور مراعات میں کمی کی ہدایت بھی شامل ہوسکتی ہے،ملک میں حکومت کی سیاسی کاکردگی اور کمزور معیشت کے اس ماحول میں جس طرح اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر شہروں میں دہشت گردی اور فورسز پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا میں غیر قانونی مسلح جتھوں کی موجودگی کی اطلاع سے خبردار کیا گیا ہے، جو کچھ ان دنوں بنوں اور بلوچستان کے متعدد شہروں میں ہوا ہے یہ ہر لحاظ سے الارمنگ صورت حال ہے، جس کے پیش نظر سیکورٹی اداروں کو پہلے سے زیادہ چوکس رہنا ہوگا خوش قسمتی سمجھیے کہ اسلام آباد دہشت گردی کا منصوبہ ناکام ہوجانے سے وفاقی دارالحکومت ایک بڑے نقصان سے بچ گیا ہے،آرمی چیف جنرل عاصم منیر اس روز میران شاہ شمالی وزیرستان کے دورے پر تھے، نے ملک میں سیکورٹی صوتحال بہتر بنانے اور انتہا پسندوں کو انجام تک پہنچانے کا عزم کااظہار کیاکہ پاک فوج دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا گٹھ جوڑ توڑ کر سیکورٹی صورت حال کے ساتھ ساتھ سماجی اور اقتصادی ترقی کیلیے پائیدار امن یقینی بنائے گی، ان کے بیان کا ایک ایک لفظ قابل غور ہے، حالیہ دنوں میں دہشت گرد جس رفتار سے اپنی مذموم کارروائیاں تیز کررہے اور خیبر پختون خوا کو پھر سے اپنا مسکن بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اپنے غیر ملکی آقائوں کی شہہ پر سرگرم ہوئے ہیں،ان کا نیٹ ورک کم سے کم وقت میں تباہ کرتے ہوئے انہیں انجام تک تک پہنچانا ناگزیر ہوگیا ہے، اس میں کامیابی اسی صورت ممکن ہے کہ جب ملک میں سیاسی دھینگا مشتی اور اسمبلیوں کی تحلیل کے دعوئوں کاکھیل بند ہو اور ملک میں ہر اسمبلی اور حکومتوں کو آئین کے مطابق کام کرنے کاموقع میسر آنا چاہیے، اسمبلیوں کی تحلیل کے دعوئوں کے اس کھیل نے ملک کو ایک بار پھر تیس سال پرانی سیاسی کشکمش کی دلدل میں پھینک دیا ہے، چوہدری پرویز الہی اس وقت منظور وٹو کے خلاف نواز شریف کے کیمپ میں تھے، ملکی سیاست کے یہ سیاہ باب اس قدر طویل ہوتے جارہے ہیں کہ ماضی کی سیاسی کشکمش میں مبتلا سیاسی گھرانوں کی اب اگلی نسل آج کے اسی کھیل کا مرکزی کردار بنی ہوئی ہے اس لیے بند نہیں ہورہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی گھرانوں کے پیٹ میں دو کی جگہ چار روٹیاں اور ان کی تجوریاں بھری پڑی ہیں، انہیں کسی قسم کی فکر معاش نہیں ہے اور عوام بھوکے ننگے اور بے بس ہیں، دروغ گوئی اب ہماری ملکی سیاست میں رچ بس گئی ہے۔سابق وزیر اعظم کی احتجاجی تحریک جلسوں جلوسوں اور لانگ مارچ کے مراحل سے گزرتی ہوئی پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلانات تک آ پہنچی لیکن ایک طرف عمران خان کی ہدایت پر اسمبلی توڑنے کی بھرپور یقین دہانی کے باوجود تحریک انصاف کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کا مؤقف یہ رہا کہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اپوزیشن کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہوگی وفاقی حکومت نے بھی اسمبلیوں کی تحلیل کی صورت میں سیاسی افراتفری کے مزید بڑھنے کے خدشات کی وجہ سے اس عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے سیاسی شطرنج کا یہ کھیل ملک میں مستقل سیاسی بے یقینی کا سبب بنا ہوا ہے جس کے نہایت تباہ کن اثرات قومی معیشت پر مرتب ہورہے ہیں، زرمبادلہ کی شدید قلت ہے اور ضروری ادویات تک کی درآمد محال ہوگئی ہے، شرح ترقی محتاط اندازوں سے بھی کم رہنے کے خدشات نمایاں ہیں جبکہ مہنگائی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے یہ حالات سیاسی محاذ آرائی کے بجائے قومی سلامتی کی خاطر افہام و تفہیم سے اختلافات کا حل تلاش کرکے سیاسی بے یقینی کے خاتمے کے متقاضی ہیں، حکومت اوراپوزیشن دونوں کو اس ناگزیر تقاضے پر لبیک کہنا ہوگا ورنہ کوئی بھی ناقابل تلافی نقصانات سے بچ نہیں سکے گا ملکی معیشت پر دبائو کا عالم یہ ہے کہ وزارت خزانہ، ایف بی آر اور مالیاتی امور سے تعلق رکھنے والے دیگر محکموں کو آئندہ دو سے تین ہفتوں میںآئی ایم ایف کے مطالبات تسلیم کرنے ہیں اور اہداف پورے کرنے ہیں آئی ایم ایف نے مطالبات کی فہرست حکومت کو دے رکھی ہے اور تمام مطلوب اقدامات کے نفاذ کے لیے دو سے تین ہفتوں کی مہلت دی گی ہے، اسی مدت میں سامنے آنے والی کارکردگی ہی عملے کی سطح کے معاہدے پر عملدرآمد اور توسیعی فنڈ سہولت کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر مناسب سطح پر رکھنے کی ضرورت سے لے کر محاصل کی وصولیابی بجلی اور گیس کے گردشی قرضوں سمیت کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہیں۔