اسلا م آباد میں بھی مسلم لیگ ن او ران کے اتحادیوں کی حکومت نے 31دسمبر کو ہونے والے مقامی انتخابات کو بھی ملتوی کردیاہے
پاکستان کی سیاست اور جمہوریت سمیت ریاستی اداروں کے مجموعی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو برملا ایک بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ لوگ عملی طور پر محض جذباتی بنیادوں پر یا خوش نما نعروں کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں ۔سیاست اور جمہوریت کا حقیقی تصور اہل سیاست میں بہت کمزور ہے اور وہ اس خوشنما فلسفہ کو محض ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ کمزور بنیادوں پر کھڑا ہے ۔ ریاست ، حکومت اور عوام کے درمیان جو واضح خلیج ہے یا اس میں جو بداعتمادی کا ماحول ہے وہ بھی ہماری کمزور سطح کی جمہوریت کے منہ پر ایک بڑا سیاسی طمانچہ ہے ۔جمہوریت میں مقامی حکومتوں کو بنیادی جمہوریت کے ادارے کہا جاتا ہے ۔ عالمی سطح پر جو تجربات اس وقت جمہوریت کے تناظر میں ہورہے ہیں ان میں مقامی حکومتوں کے نظام کی سیاسی ، انتظامی او رمالی خومختاری سے جڑے معاملات ہیں ۔لیکن پاکستان میں مقامی حکومتوں کو مکمل طور پر نہ صرف نظرانداز کیا جارہا ہے بلکہ عملی طور پر ان کی ریاستی و حکومتی سطح پر ایک بڑا سیاسی استحصال کیا جارہا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب تک پاکستان میں جمہوریت کا نظام مکمل نہیں ہے ۔کیونکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوںکی ملک میں موجودگی میں مقامی حکومتوں کی عدم موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان میں نامکمل جمہوریت ہے ۔
اگرچہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ جیسے مرکز نے صوبوں کو سیاسی ، انتظامی اور مالی اختیارات دیے ہیں اسی سوچ اور فکر کی بنیاد پر ملک میں صوبائی حکومتیں مقامی اضلاع کو مقامی حکومتوں کی صورت میں اختیارات کی تقسیم کو یقینی بنائیں گے ۔ کیونکہ صوبائی خود مختاری اسی صورت میں ممکن ہوگی جب اسی صوبہ میں اضلاع کو بھی مکمل خود مختاری دی جائے گی ۔اس لیے اگر ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام مکمل طور پر نافذ العمل نہیں تو اس کی بڑی سیاسی وجہ صوبائی حکومتیں ہیں جن کی سیاسی ترجیحات میں مقامی حکومتوں کا نظام نہیں ہے ۔اس میں جہاں عملا صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں وہیں اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں حکمرانی سے جڑی سیاسی جماعتیں او ران کی قیادت ہیں جو اس نظام کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ سمجھتی ہیں ۔حکمران جماعتیں جب حزب اختلاف میں ہوتی ہیں تو ان کا مقامی حکومت کا مقدمہ ایک او رجب یہ اقتدار میں ہوتی ہیں تو ان کا مقامی حکومتوں کا مقدمہ پہلے مقدمہ سے متضاد ہوتا ہے ۔ پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، پی ٹی آئی ، عوامی نیشنل پارٹی جو وقفہ وقفہ سے اقتدار کی سیاست کا حصہ رہی ہیں یا آج بھی ہیں وہ مقامی حکومتوں کے نظام کو نظرانداز کرتی ہیں ۔
اس وقت ملک میں اگر آپ نے جمہوریت او رمقامی حکومتوں کا سیاسی تماشا دیکھنا ہو تو اس کی جھلک مختلف صوبائی حکومتوں کی صورت میں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ اس وقت پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات تواتر کے ساتھ التو ا کا شکار ہیں ۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اور ان کے اتحادی مسلم لیگ ق کی حکومت ہے مگر پنجاب کے انتخابات پر آج بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔پنجاب میں باربار مقامی حکومتوں کے نظام میں تبدیلی اور پنجاب کے سیاسی بحران کی وجہ سے جان بوجھ کر سیاسی جماعتوں نے تاخیری حربے اختیار کیے۔ اب الیکشن کمیشن کی جانب سے اپریل 2023ء میں پنجاب میں مقامی انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا ہے مگر جو سیاسی حالات ہیں لگتا ہے کہ نئے برس2023ء میں بھی مقامی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکے گا۔پنجاب میں پہلے مسلم لیگ ن او راب پی ٹی آئی کی رویوں کی وجہ سے مقامی حکومتوں کا نظام مکمل طور پر نہیں چلایا جارہا۔پی ٹی آئی جو سب سے زیادہ پرجوش تھی مقامی نظام کے حوالے سے ان کا رویہ بھی درست نہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے اتحاد نے مقامی حکومتوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق اختیار کیا ہوا ہے ۔ الیکشن کمیشن اورسندھ ہائی کورٹ کے فیصلو ں کے باوجود صوبائی حکومت مسلسل انتخابات کرانے میں تاخیری حربے اختیار کررہی ہیں ۔سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو باربار درخواست دی ہے او راب بھی ایک نئی درخواست دی ہے کہ سندھ میں مختلف وجوہات کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر کی جائے ۔ سندھ حکومت کے بقول ہمیں موجودہ حالت میں سندھ کے مقامی انتخابات قبول نہیں ۔ الیکشن کمیشن اور سندھ ہائی کورٹ بھی مکمل طور پر سندھ حکومت کے سامنے یا تو بے بس ہے یا وہ بھی صوبائی حکومتوں کے ساتھ سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہیں ۔پیپلزپارٹی جو ہمیشہ خود کو جمہوریت پسند اور 18ویں ترمیم کا چیمپین قرار دیتی ہے خود اپنے ہی صوبہ میں مقامی حکومتوںکے نظام کو چلانے کے لیے تیار نہیں ۔ پہلے ایم کیوایم ، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی پیپلزپارٹی کی اس پالیسی کے خلاف مزاحمت کررہی تھی ،لیکن اب پیپلزپارٹی او رایم کیوایم اتحاد کا گٹھ جوڑ مقامی انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ ہے ۔ مگر یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ سندھ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کی بڑی آواز جماعت اسلامی اٹھارہی ہے ۔ حافظ نعیم الرحمن اس کی قیادت کررہے ہیں ۔ جماعت اسلامی کے بعد توانا آواز پی ٹی آئی کی ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ باقی جماعتوں کا رویہ مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے زیادہ مضبوط نہیں ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور سندھ ہائی کورٹ بھی پیپلزپارٹی کی مقامی حکومت پر ظالمانہ پالیسی پر کیوں خاموش ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟،الیکشن کمیشن جو ہمیشہ خود کو خودمختارادارہ کہتا ہے مگر سندھ کے مقامی انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی بھی کارکردگی پر کئی سوالیہ نشان ہیں او رایسے لگتا ہے کہ سندھ میں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تاخیر کی وجہ جہاں سندھ حکومت او رپیپلز پارٹی ہیں وہیں اس کی بڑی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر بھی عائد ہوتی ہے ۔سندھ میں اب اگر انتخاب ملتوی ہوتے ہیں تو یہ ساتویں بار ہونگے جو خود الیکشن کمیشن کی نااہلی کو بھی ثابت کرتا ہے ۔ایم کیو ایم نے اس بار حلقہ بندیوں پر اعتراض کیا ہے او رکہا ہے کہ کراچی او رحیدرآباد کے مقامی انتخابات ملتوی کیے جائیں ۔ جو خط الیکشن کمیشن کو صوبائی حکومت کی جانب سے لکھا گیا ہے وہ بھی ایم کیو ایم کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو سب سے زیادہ خطرہ کراچی اور حیدرآباد کے انتخا بات میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سے ہے ۔کیونکہ ان کو اندازہ ہے کہ ان ہی جماعتوں کے لوگ انتخاب جیت جائیں گے ۔ اب کوشش کی جارہی ہے کہ پہلے ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو متحد کرکے میدان میں اتارا جائے او رپھر پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر ایم کیو ایم متحدہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا مقابلہ ہوتاکہ نتائج کو اپنے حق میں تبدیل کیا جاسکے ۔
اب اسلا م آباد میں بھی مسلم لیگ ن او ران کے اتحادیوں کی حکومت نے 31دسمبر کو ہونے والے مقامی انتخابات کو بھی ملتوی کردیاہے ۔ کیونکہ حکمران اتحاد کو اس بات کا ڈر ہے کہ یہ انتخابات کے نتائج پی ٹی آئی کے حق میں ہونگے ۔ انتخابات کو ملتوی کروانے کے لیے وفاقی حکومت نے عدالتوں سے مدد حاصل کی اور اب وہاں بھی غیر معینہ مدت کے لیے انتخابات ملتوی ہوگئے ہیں ۔ بلوچستان میں آخری مراحل کے انتخابات باقی رہ گئے ہیں جب کہ خیبر پختونخواہ میں مقامی انتخابات ہوگئے ہیں مگر ا ن اداروں کو صوبائی حکومت زیادہ اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں جس سے ان کاصوبائی حکومت کے ساتھ اختلافات چل رہے ہیں ۔ جبکہ آزاد کشمیر میں بھی 31برس کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کی وجہ سے مقامی انتخابات ہوئے ہیں کیونکہ وہاں بھی سیاسی حکومت انتخابات میں تاخیری حرنے اختیار کررہی تھیں۔ یہ سارا مقدمہ جو پاکستان کا ہے ظاہر کرتا ہے کہ ہم جمہوریت اور مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے مخدوش صورتحال کا شکار ہیں ۔جب ہمارے ریاستی ادارے اپنی نیشنل سیکورٹی پالیسی بناتے ہیں تو اس میں کہا جاتا ہے کہ ہمیں اپنے داخلی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بااختیا رکرنا ہے تو اس کے لیے بھی ضرورت کی کنجی مضبوط مقامی حکومتوں کا نظام ہی بنتا ہے ۔پاکستان میں ہمارے اہل دانش سمیت خود میڈیا کا مجموعی رویہ مایوس کن ہے ۔ کیونکہ وہ ملکی جمہوریت کی بات تو کرتے ہیں مگر مقامی سطح پر مقامی جمہوریت کی عدم موجودگی یا صوبائی حکومتوں کی عدم ترجیحات پر کوئی کھل کر بات نہیں کرتا ۔ہم بطور پریشر گروپ کوئی بڑا سیاسی دباو سیاسی جماعتوں یا ریاستی اداروں پر نہیں ڈال سکے کہ وہ مقامی حکومتوں کے ساتھ اختیار کیے جانے والے دوہرے معیارات کو تبدیل کریں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ طاقت ور طبقہ سمجھتا ہے کہ ہمیں ایک ایسا نظام درکار ہے جو ان کے مفادات کو تحفظ دے سکے ۔
ہماری سیاست ، جمہوریت اور ریاست سے جڑے فیصلہ ساز یہ سمجھ ہی نہیں رہے کہ ملک میں جو حکمرانی یا گورننس کا بحران ہے اس کی اہم وجہ ہی ملک میں مقامی حکومتوں کے نظام کی عدم موجودگی ہے ۔ مقامی حکومت کو نظر انداز کرکے گورننس کے بحران کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم گورننس کے بڑے بحران سے گزررہے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ دنیا بھر میں میگا شہروں میں مقامی حکومتوں کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور بڑے شہروں کے مسائل جن میں کراچی ، لاہور ، پنڈی ، پشاور او رکوئٹہ جیسے سرفہرست شہر میں ان کے مسائل کا حل بھی مضبوط سطح کے مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے ۔ بڑے شہروں کا ہمارے پاس کوئی ماسٹر پلان نہیں او رنہ ہی کوئی ایسی ٹھوس منصوبہ بندی ہے جو ظاہر کرے کہ بڑے شہروں کے مسائل کو کیسے حل کرنا ہے ۔مقامی حکومتوں کے نظام کی بہت سی سیاسی ، انتظامی اور قانونی سطح پر کمزوریاں ہیں ۔ اول پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کو مکمل طو رپر اور مضبوط بنیاد وں پر آئینی تحفظ حاصل نہیں ۔ بھارت نے اپنے آئین میں مقامی حکومتوں کو مکمل خود مختاری او رایک مکمل تفصیلی باب دیا ہے جو پورے نظام کا احاطہ کرتا ہے ۔ جبکہ ہمارے پاس دو ہی آرٹیکل قانون میں ہیں جو 140-Aاور32تک محدود ہے ۔ اسی طرح اگر کوئی صوبائی حکومت انتخابات سے گریز کرتی ہے یا تاخیری حربے اختیار کرتی ہے تو اس کی کوئی جوابدہی نہیں ۔ دوئم پاکستان میں مقامی حکومتوں کا نظام صوبائی موضوع ہے اور اس میں وفاق کا کوئی کردار نہیں اور نہ ہی ہم اس کو جوابدہ بناسکتے ہیں ۔ جبکہ وفاق کا کردار سامنے لانا ہوگا اور جو بھی صوبائی حکومت مقامی حکومت کے نظام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کرے تو وفاق ان کو جوابدہ بنائے ۔ سوئم صوبائی حکومتیں ترقیاتی فنڈز کی وجہ سے مقامی حکومتوں کے نظام کو نظرانداز کرتی ہیں اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ اس نظام کی موجودگی سے ان کا سیاسی قد کم ہوتا ہے ۔جب تک ملک میں قومی اور صوبائی سطح پر ترقیاتی فنڈز کی سیاست ختم نہیں ہوتی اور ان کے کردار کو قانون سازی تک محدود نہیں کیا جاتا مقامی حکومتوں کا کوئی مستقبل نہیں ۔ چہارم ہمیں قومی ، صوبائی او رمقامی نظام کی مدت ایک جیسی ہی کرنی ہوگی کیونکہ ہر آنے والی صوبائی حکومت پہلے سے موجود مقامی حکومت کے نظا م کو ختم کردیتی ہے جس سے یہ نظام تجربہ گاہ بن جاتا ہے ۔ بار بار صوبائی سطح پر نظام کی تبدیلی اور نئے قوانین کا عمل مقامی نظام کو کبھی بھی مضبوط نہیں ہونے دے گا۔پنجم پی ٹی آئی نے اپنے قوانین میں خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کا براہ راست طریقہ کار اختیار کیا ہے اور اسی طریقہ کو ہی آگے بڑھانا چاہیے او رانتخابات کو جماعتی بنیادوں پر ہی چلایا جائے ۔ ششم صوبے کے ترقیاتی فنڈز کا تیس فیصد حصہ مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت خرچ کیے جائیں اور بیوروکریسی کے مقابلے میں مقامی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کو زیادہ باختیار کیا جائے ۔ہفتم صوبوں میں مقامی حکومتوں کے نظام کے مقابلے میں متبادل نظام جیسے اتھارٹیوں اور کمپنیوں کے نام پر نظام نہ بنائے جائیں اس سے مقامی حکومتوں کا نظام کمزور ہوتا ہے ۔ہشتم ترقیاتی فنڈز کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان سے ختم کیا جائے اور ان کو مکمل طور پر مقامی نظام حکومت کے ساتھ ہی جوڑا جائے ۔ دہم وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے درمیان موثر رابطہ کاری او ران کے درمیان باہمی تعلقات کو نئے فریم ورک میں ڈھالا جائے تاکہ کسی بھی سطح پر کوئی ٹکراو پیدا نہ ہو۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ہماری سیاسی جماعتیں ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہیں او ریہ جو مرکزیت کو بنیاد بنا کر ہم مقامی نظام کو یا اپنے سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش کررہے ہیں اس سے ملک میں حکمرانی کا بحران حل ہوسکے گا۔بدقسمتی یہ ہے کہ بڑی سیاسی سطح پر موجود جماعتیں ہی عملا مقامی نظام حکومت کے خلاف ہیں اور اوپر سے بیوروکریسی بھی اس نظام میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے موجودہ سیاسی نظام اور سیاسی طرز عمل کا جائزہ لیں اور ملک میں ایک نئے سیاسی فریم ورک کی بنیاد پر آگے بڑھیں جو عملا ملک میں ایک مضبوط مقامی حکمرانی کے نظام کو آگے بڑھاسکے ۔