کابل میں پاکستانی سفارت خانے، حزب اسلامی کے مرکز اور ہوٹل پر حملے

حکومتِ پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل ہے۔ بات چیت اور مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے مواقع پیدا کرنے کی تگ و دو بہرحال آئندہ بھی ہونی چاہیے۔ اس گروہ کے ساتھ فائربندی کا معاہدہ بھی ہوچکا تھا، جس پر یہ قائم نہیں رہے۔ خیبر پختون خوا کے مختلف مقامات اور سرحدی علاقوں میں فورسز پر یہ متواتر حملے کرتے ہیں۔ ایسا بلوچستان کے اندر بھی ہوتا رہا ہے۔ 29 نومبر2022ء کو اس کالعدم گروہ نے سیزفائر معاہدہ ختم کرنے کا باقاعدہ اعلان کردیا اور اپنے کارندوں کو پاکستان کے اندر حملوں کا کہہ ڈالا۔چنانچہ 30 نومبر کو کوئٹہ کے نواحی علاقے بلیلی کے مقام پر انسدادِ پولیو ٹیموں کی سیکورٹی ڈیوٹی پر جانے والے پولیس اہلکاروں کے ٹرک پر بارود سے بھرا رکشہ ٹکرا کر دھماکا کردیا، جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے جبکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی۔ دھماکا کھلے مقام پر ہوا، یہی وجہ ہے کہ نقصان کم ہوا۔ یعنی حملوں کے اعلان کے بعد پہلی کارروائی کوئٹہ میں کی گئی۔ حکومتِ بلوچستان3 دسمبر کو ایک مراسلے کے ذریعے مزید دہشت گرد سرگرمیوں کا امکان بھی ظاہر کرچکی ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے اندر تین بڑے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے۔ 3دسمبر کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں متعین پاکستانی ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی پر ایک عمارت سے نشانے باز نے گولیاں چلائیں۔ ناظم الامور محفوظ رہے البتہ اُن کے محافظ اسرار احمد سینے میں گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوئے۔ اُسی روز کابل ہی میں حزبِ اسلامی کے مرکز میں جمعہ کی نماز کے وقت خودکش حملہ آور نے حملہ کردیا۔ محافظین نے حملہ آوروں کو روکا، دو کو ہلاک کردیا جبکہ ایک فرار ہوگیا۔ یہ بارود سے بھری گاڑی لے کر گئے تھے۔ ہدف بلاشبہ حزبِ اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار اور حزب کی دیگر اعلیٰ قیادت تھی۔ 12دسمبر کو کابل کے علاقے شہرنو میں ایک ہوٹل پر حملے میں تین افراد ہلاک اور چینی شہریوں سمیت بیس سے زائد زخمی ہوئے۔
پاکستان نے سفارت خانے پر حملے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ افغان حکومت نے مرتکب ملزمان کو پکڑنے اور سفارتی عملے کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس سلسلے میں افغان قائم مقام وزیرخزانہ امیر خان متقی نے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو فون کیا۔ یاد رہے کہ اس حملے سے قبل29نومبر کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ حنا ربانی کھر نے کابل کا دورہ کیا جہاں انہوں نے افغان حکومتی نمائندوں سے امن و امان سمیت دیگر امور پر بات چیت کی۔ داعش نے حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے۔ نیز کابل حکومت نے ملوث داعشی کارندے کو گرفتار بھی کرلیا ہے۔
افغان حکومت داعش سے غافل ہے نہ اس گروہ سے رعایت برتتی ہے۔ یہی گروہ مختلف عوامی مقامات کو بھی نشانہ بناتا ہے۔ حزبِ اسلامی کے مرکز میں گھسنے اور خودکش حملوں کی کوشش بھی اسی گروہ نے کی ہے۔ تحقیقات کے مطابق پاکستانی سفارت خانے، شہر نو کے ہوٹل اور حزبِ اسلامی کے مرکز پر حملے ایک ہی گروہ نے کیے۔ حملہ آوروں کا تعلق وسط ایشیائی ملک تاجکستان سے بتایا گیا، یہ تاجک باشندے تھے۔ اس گروہ کے بعض اہم افراد تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ منتقل ہوئے ہیں۔ افغان حکومت مخالف نیشنل ریزسٹنس فرنٹ (این آر ایف)کے نیدرلینڈ اور ترکیہ کے دفاتر کے داعش گروہ سے روابط ہیں۔ اس گروہ کے پشت پناہ امن کے عالمی ٹھیکیدار ہیں، جن کا اوّل مکروہ عزم افغانستان میں خانہ جنگی بپا کرنے کا تھا۔ ناکامی کے بعد وہ اب اِس گروہ کے ذریعے مقاصد پانے کی کوشش میں ہیں۔ ایران کے اندر حالیہ حکومت مخالف پُرتشدد تحریک میں امریکہ اور یورپ نے حتی الوسع مظاہرین کے ذریعے نظام گرانے کی کوشش کی ہے۔ تہران بارہا اس جانب دنیا کو توجہ دلا چکا ہے۔ چناں چہ ادراک اور سمجھنے کی بات ہے کہ اگر داعش گروہ کی افغانستان میں رکھوالی کی جائے گی تو یہ ایران کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہوگی۔ رواں سال اپریل میں ایران کے شہر مشہد میں امام رضا کے مزار میں حملہ آوروں نے گھس کر قتل عام اور دو کو زخمی کردیا۔ ایران اور افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی عالمی سازش کے برخلاف کابل حکومت کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ پاکستان اگرچہ چوکنا ہے، چناں چہ مربوط حکمت عملی کے ساتھ اس پہلو پر آگے بڑھنا ہوگا۔ احمد ضیاء مسعود اور امر اللہ صالح جیسے لوگوں کا طرزعمل داعش سے مراسم ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں شہبازشریف نے افغانستان کی صورتِ حال میں بہتری کے لیے بین الاقوامی برادری کو کردار ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔