محترمہ ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی، سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کی دخترِ نیک اختر ہیں، اپنے والدین اور خاندان کے دیگر محترم رشتوں کو جس قدر عزت اور احترام انہوں نے دیا ہے، ان کی سطح کے مقام و مرتبے کے لوگوں میں اس کی نظیر تلاش کرنا آسان نہیں، مگر وہ ’’پدرم سلطان بود‘‘ پر یقین نہیں رکھتیں بلکہ ’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘ کی قائل ہیں، اپنے مرحوم والد کے منصب کو آگے بڑھنے کے لیے زینے کے طور پر استعمال نہیں کیا بلکہ ذاتی صلاحیتوں اور محنت سے اپنا مقام بھی بنایا ہے اور اپنے نیک نام خاندان کا نام روشن تر کیا ہے۔ شرعی حجاب میں رہتے ہوئے انہوں نے متحرک زندگی گزاری ہے اور ہر شعبے میں سرگرم کردار ادا کیا ہے، حجاب ان کے لیے کسی احساسِ کمتری کا سبب نہیں بنا، بلکہ انہوں نے اسے اپنی عزت و تکریم میں اضافے کا سبب جانا ہے اور پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ اسے اپنی شخصیت کا حصہ بنایا ہے۔ آپ 2002ء سے 2007ء تک پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ایوانِ زیریں ’قومی اسمبلی‘ کی رکن رہیں،2015ء سے 2018ء تک اسلامی نظریاتی کونسل کی رکن بھی رہیں۔ حلقہ خواتین جماعت اسلامی کی فعال رہنما اور انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین کی صدر ہیں۔ یہ یونین اقوام متحدہ کی معاشی و معاشرتی کونسل میں باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ متعدد قومی و بین الاقوامی کانفرنسوں میں اسلام، عورت اور خاندان کے موضوعات پر مقالات پیش کرچکی ہیں۔ جہاں بھی گئیں اپنی شخصیت کے گہرے نقوش مرتب کیے، چنانچہ 2014ء میں ترکیہ کی خاتونِ اوّل نے ’’نمایاں مسلم خاتون‘‘ اور 2019ء میں ملائشیا کے صوبے کلنتان کی حکومت نے ’’مسلم خاتون رہنما‘‘ کے اعزاز سے نوازا۔ 2015ء سے 2020ء تک ہر سال انگریزی روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ نے ملک کی پچاس بااثر خواتین کی فہرست میں ان کا نام شامل کیا۔ قبل ازیں تعلیم کے میدان میں بھی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرتی رہیں۔
زیر نظر کتاب ’’خاندانیت‘‘ ان کی پی ایچ ڈی کی تحقیق ’’اسلام کا خاندانی نظام اور عصری تہذیبی تحدیات‘‘ کا پہلا حصہ ہے، جب کہ دوسرا حصہ ’’خاندان اور عصرِ حاضر کے تقاضے‘‘ کے نام سے زیر طبع ہے۔ کتاب’’ادارۂ معارف اسلامی‘‘ جیسے باوقار ادارے نے شائع کی ہے جس کی بنیاد عظیم مفکرِ اسلام، مفسرِ قرآن اور تحریکِ اسلامی کے قائد مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلامی علوم کی تحقیق و تصنیف اور اشاعت و ترویج کی خاطر رکھی تھی۔ کتاب کا انتساب ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی اپنے آباء و اجداد، والدین، عزیز و اقارب اور احباب سے گہری وابستگی کا اظہار ہے، اسی طرح آٹھ صفحات پر محیط اظہارِ تشکر میں بھی جہاں انہوں نے اپنے خاندان کا نہایت جچے تلے الفاظ میں تعارف کرایا ہے وہیں محترم اساتذۂ کرام سے لے کر گھر کی خادمائوں تک شاید ہی کوئی تعلق دار رہ گیا ہو جس سے ڈاکٹر صاحبہ نے عجز و انکسار سے اظہار ِممنونیت ضروری نہ سمجھا ہو۔ یہ حوالہ ان کی زندگی کے ایک خوشگوار پہلو کی عکاسی کرتا ہے۔ کتاب کا ’پیش لفظ‘ ادارۂ معارف اسلامی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حافظ ساجد انور نے تحریر کیا ہے، جب کہ ’تقدیم‘ کے عنوان سے پروفیسر خورشید احمد کی نہایت وقیع تحریر میں کتاب اور مصنفہ کے علاوہ موضوع کے مختلف پہلوئوں کا سیر حاصل جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ کتاب سے متعلق ان کی رائے ہے کہ
’’یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک مستند دستاویز ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی معلومات سے بھی مالا مال ہے جو صرف خاندان اور سماج ہی نہیں بلکہ دوسرے معاشرتی اور تہذیبی ایشوز پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقالے کا کینوس بہت وسیع ہو گیا ہے اور اپنے موضوع پر اس کی حیثیت ایک انسائیکلوپیڈیا کی ہو گئی ہے جس کے صفحات پر بکھری ہوئی معلومات کا یہ انمول خزانہ قاری اور کل کے محقق کے لیے مطالعہ، تفکر اور تحقیق کے لیے بڑا لوازمہ پیش کرتا ہے، البتہ اس کا یہ پہلو نظر نداز نہیں کیا جا سکتا کہ موضوعات کا یہ تنوع قاری کا فوکس مرکزی خیال سے کہیں کہیں ہٹا سکتا ہے۔‘‘
کتاب کے ’مقدمہ و تعارف‘ میں مصنفہ نے اپنی تحقیق کی تفصیلات، اہداف و مقاصد، طریق تحقیق اور ذرائع تحقیق وغیرہ سے متعلق آگاہی دی ہے۔ اس تحریر کے اختتام پر وہ مادرِ علمی جامعہ پنجاب سے متعلق یوں رقم طراز ہیں:
’’مجھے اندرون و بیرونِ ملک سفر میں مختلف جگہوں پر تحقیق کا موقع ملا ہے مگر جو شان اس مادرِ علمی کی ہے وہ کہیں اور نہیں ملتی۔ مجھے امید ہے کہ جلیل القدر اساتذہ کی رہنمائی میں میری یہ کوشش اس جامعہ کے وقار میں اضافے کا سبب ہوگی اور جدید چیلنجز کے جواب میں اس جامعہ کی طرف سے یہ خوش آئند اقدام تصور کیا جائے گا۔ ہم مغرب کو علامہ اقبال کی زبان میں یہ پیغام بھی پہنچا سکیں گے ؎
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا‘‘
’’خاندانیت‘‘ چار ابواب پر مشتمل ہے، جسے مزید فصول میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بلا مبالغہ سیکڑوں ذیلی عنوانات کے تحت موضوع کے ایک ایک پہلو پر قاری کو تفصیلی معلومات مہیا کی گئی ہیں۔ صرف ان عنوانات ہی پر ایک نظر ڈال لینے سے مصنفہ کے مطالعے کی وسعت اور تحقیق میں گہرائی کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ دورانِ تحقیق محض ڈگری کے حصول کی خاطر تکنیکی تقاضے پورے کرنے پر توجہ مرکوز نہیں رکھی گئی بلکہ نہایت سنجیدگی، محنت اور عرق ریزی سے تحقیق کا حق ادا کیا گیا ہے جس کا نتیجہ ہے کہ موضوع کے کسی پہلو سے تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔ کتاب جامعیت کا مرقع ہے اور اپنے اندر بھرپور مقصدیت سموئے ہوئے ہے۔ ادارۂ معارفِ اسلامی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد انور گوندل کے قلم سے کتاب کے پس ورق پر مصنفہ کا مختصر مگر جامع تعارف بھی شامل ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ توقع ہے کہ اہلِ علم اور موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں کتاب کی خاطر خواہ پذیرائی کی جائے گی۔