شاہی خاندان پر ضرب : برطانوی ایوان بالا کے خاتمے کا انتخابی منشور

ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کی وفات کے ساتھ ہی برطانوی عوام میں موجود ملکہ اور شاہی خاندان کا احترام تاریخ کا حصہ بننے جارہا ہے

برطانوی سیاست میں لیبر پارٹی نے ایک نیا دھماکہ کردیا ہے۔ لیبر پارٹی کے قائد کیئر اسٹارمر نے اعلان کیا ہے کہ لیبر پارٹی اقتدار میں آکر ایوانِ بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز کا خاتمہ کردے گی۔ اس کے لیے وہ اقتدار میں آکر فوری طور پر عمل درآمد کریں گے۔ واضح رہے کہ اِس وقت لیبر پارٹی اپوزیشن میں ہے اور اس وقت کے سروے کے نتائج کے مطابق لیبر پارٹی کی مقبولیت حکمران جماعت کنزرویٹو پارٹی سے زیادہ ہے، اور آئندہ آنے والے انتخابات میں لیبر پارٹی کی جیت کے امکانات روشن ہیں۔ لیبر پارٹی نے نئے برطانیہ کے نام سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے جس میں معیشت، تعلیم، صحت اور سیاسی اصلاحات کو اولیت حاصل ہے۔

سیاسی اصلاحات کے لیے لیبر پارٹی نے سابق برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا ہے اور اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ اب بغیر کسی اصلاحات کے پہلے ہی قدم کے طور پر ہاؤس آف لارڈز کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔ ہاؤس آف لارڈز برطانوی سیاست میں ایک کلیدی حیثیت کا حامل ہے، یہ نہ صرف ایوانِ بالا ہے بلکہ دراصل برطانیہ پر بادشاہت کا اصل حکمران ادارہ بھی یہی ہے۔ بادشاہ یا ملکہ کے بعد ہاؤس آف لارڈز ہی دراصل مملکت کو بادشاہ کے تابع کرتا ہے۔ ماضی میں قدیم برطانوی ریاست میں دراصل ہاؤس آف لارڈز ہی پارلیمان تھا کہ جہاں تاجِ برطانیہ کے فیصلے اور قانون سازی ہوا کرتی تھی۔

ہاؤس آف لارڈز کے تمام کے تمام اراکین قدیم ریاست سے لے کر آج تک غیر منتخب یا نامزد کردہ ہیں۔ ماضی میں ہاؤس آف لارڈز جاگیر داروں (یعنی جن کو بادشاہ نے مملکت کی جاگیر عطا کی تھی اور وہ وہاں سے خراج یا ٹیکس وصول کرتے تھے)، کلیسا یا چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں اور بادشاہ کے مشیروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ تینوں یعنی جاگیردار، کلیسا کے نمائندے اور بادشاہ مل کر ریاست کی قانون سازی کرتے تھے۔ انقلابِ فرانس کے بعد بدلتے حالات کے تحت جمہوریت اور جمہوری اصولوں کے لیے ریاست کے نظم و نسق میں بھی کچھ ترامیم کردی گئیں اور باقاعدہ طور پر جمہوریت رائج کرنے کے بجائے ایک ہائی برڈ قسم کا نظام بنایا گیا کہ جہاں جمہوریت کے نام پر پارٹیوں کو الیکشن لڑنے کی آزادی تو دی گئی لیکن الیکشن لڑنے کے بعد بننے والی حکومت کا وزیراعظم بادشاہ کے نائب کے طور پر امورِ مملکت چلائے گا۔ اس نظام کے تحت پہلا الیکشن 1708ء میں ہوا، جس کے بعد سے بتدریج جمہوریت پروان چڑھتی رہی لیکن تاحال برطانوی ریاست میں بنیادی چیزیں مروجہ جمہوری اقدار کی مکمل نفی ہیں جس میں سے ایک بادشاہت اور دوسری ایوانِ بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز کے تمام غیر منتخب اراکین ہیں۔

برطانوی قانون کے تحت الیکشن میں واضح اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو بادشاہ یا ملکہ باقاعدہ طور پر حکومت سازی کی دعوت دیتے ہیں، اور یہ حکومت دراصل بادشاہ کے نائب کے طور پر اُن کو تفویض کی جاتی ہے کہ جہاں مروجہ صدیوں پرانے طریقے کے مطابق ہفتے میں ایک دن وزیراعظم بادشاہ کو امورِ مملکت کے بارے میں بریفنگ دیتا یا صلاح مشورہ کرتا ہے۔ اسی طرح بادشاہ کے پاس وزیراعظم سمیت پوری پارلیمنٹ کو فارغ کرنے کا اختیار ہے، تاہم وزیراعظم کو بادشاہ کی جانب سے معزول کرنے کا واقعہ صرف ایک بار ہوا جب 1834ء میں بادشاہ ولیم چہارم نے وزیراعظم لارڈ میلبورن کو اُن کے عہدے سے برطرف کردیا تھا۔

گوکہ برطانوی بادشاہت اب ایک نمائشی بادشاہت ہے کیونکہ شاہی خاندان نے امورِ مملکت میں اپنی مداخلت کو بتدریج کم کردیا ہے، لیکن تاحال ایوانِ بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز ایک ایسا ادارہ ہے جہاں سے ریاست کی پالیسی کو باقاعدہ طور پر شاہی خاندان کی مرضی سے چلایا جاسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہاؤس آف لارڈز کے تمام اراکین بادشاہ کے نمائندے اور غیر منتخب ہیں۔ برطانوی سیاست میں اس حوالے سے ایک صدی سے زائد عرصے سے جدوجہد جاری ہے اور برطانوی لیبر پارٹی اس کی سرخیل ہے، لیبر پارٹی کی طویل عرصے سے خواہش ہے کہ برطانیہ میں مکمل جمہوریت کو قائم کیا جائے، اور اس کے لیے ہاؤس آف لارڈز کی حیثیت ختم کرنا ضروری ہے تاکہ کوئی بھی قانون سازی صرف منتخب نمائندوں کے ذریعے سے کی جاسکے اور کوئی غیر منتخب قوت اس میں رخنہ نہ ڈال سکے۔

دنیا بھر کی جمہوریتوں میں ایوانِ زیریں کے ساتھ ایوانِ بالا موجود ہوتا ہے، اس کی بنیادی وجہ آبادی کے ساتھ ساتھ تمام اکائیوں کو قانون سازی کے عمل میں برابر کی شراکت داری کا احساس دلوانا ہے۔ دنیا بھر میں ایوانِ زیریں آبادی کے تناسب سے نشستوں پر بنائے جاتے ہیں جبکہ ایوانِ بالا آئینی اکائیوں کی برابری کی بنیاد پر… اسی لیے ایوانِ بالا میں نشستوں کی تعداد ایوانِ زیریں سے کم ہوتی ہے۔ لیکن برطانوی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں صورت حال اس کے برعکس ہے جہاں ایوانِ بالا کی نشستوں کی تعداد ایوانِ زیریں سے بھی زیادہ ہے۔ اس وقت برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے اراکین کی تعداد 800 ہے جبکہ ایوانِ زیریں یعنی ہاؤس آف کامنز کے اراکین کی تعداد 650 ہے۔ ہاؤس آف لارڈز کے زیادہ تر اراکین کی رکنیت تاحیات ہے۔

برطانوی سیاست میں ہاؤس آف لارڈز کے اثر کو کم کرنے کی تحریک ایک سو سال سے زائد عرصے سے جاری ہے، جس میں پہلی کامیابی 1911ء میں ہوئی جب پارلیمانی ایکٹ 1911 کے ذریعے قانون میں ترمیم کرکے ہاؤس آف کامنز سے پاس کردہ بجٹ کو ایوانِ بالا کی جانب سے ویٹو یا مسترد کرنے کے اختیار کو ختم کرکے اسے تین پارلیمانی سیشن تک محدود کردیا گیا۔ اس کے بعد بتدریج اس کو کم کرکے 1949ء میں ایک پارلیمانی سیشن تک محدود کردیا گیا۔ اسی طرح بادشاہ کی جانب سے براہِ راست نامزدگی کے خاتمے، تاحیات رکنیت اور موروثی رکنیت کے خاتمے، جمہوری جماعتوں کی ایوانِ بالا میں نمائندگی اور ایوانِ بالا کے رکن کی نااہلی کے لیے پارلیمانی کمیشن کے بجائے سپریم کورٹ کو اختیار دینا، اسی طرح رکن کی نااہلی کا دائرئہ کار وغیرہ آئینی اصلاحات کے بعد بہت حد تک تبدیل تو ہوچکے ہیں لیکن اس میں سب سے بڑا قدم ایوانِ بالا کو مکمل جمہوری قالب میں ڈھالنا اور اس کا حجم کم کرکے مروجہ جمہوری روایات کے مطابق بنانا ہے۔

لیبر پارٹی نے ان اصلاحات کو نافذ کرنے کا اعلان اُس وقت کیا ہے جب بادشاہ چارلس کو بادشاہت سنبھالے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا، اور ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کی وفات کے ساتھ ہی برطانوی عوام میں موجود ملکہ اور شاہی خاندان کا احترام تاریخ کا حصہ بننے جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جدید ریاست میں بادشاہت سے بیزاری کے ساتھ ایک مضبوط و مستحکم شخصیت کی اس ادارے میں کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ ملکہ الزبتھ نے بطور ملکہ طویل عرصے یعنی 70 سال سے زائد حکمرانی کی، یوں وہ تین نسلوں کی نمائندہ ملکہ تھیں اور اُن کا احترام تین نسلوں میں نمایاں تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ اُن کی شخصیت اُن کی زندگی تک بڑے تنازعات سے بچی رہی۔ موجودہ بادشاہ چارلس کی زندگی خود ماضی میں تنازعات کا شکار رہی جس میں شہزادی ڈیانا اور ان کے تعلقات، اور پھر طلاق، شہزادی ڈیانا کی موت اور موجودہ ملکہ سے ان کی شادی نے نہ صرف شاہی اقدار و روایات کا خاتمہ کیا بلکہ بطور بادشاہ ادارے کو بھی کمزور کیا ہے۔ اب ملکہ کی موت کے بعد بادشاہ کے دوسرے بیٹے شہزادہ ہیری جو کہ ملکہ کی زندگی میں ہی شاہی ذمے داریوں سے معذرت کرکے کینیڈا اور بعد ازاں امریکہ منتقل ہوچکے ہیں، کی جانب سے نیٹ فلیکس پر اپنی زندگی اور شاہی خاندان سے علیحدگی کو دستاویزی فلم کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم دراصل خود شاہی خاندان کے خلاف ایک بہت بڑی چارج شیٹ ہے۔

برطانوی ریاست کو معیشت کے علاؤہ ایک اور بہت بڑا چیلنج اب اسکاٹ لینڈ کی جانب سے کھلم کھلا علیحدگی کی دھمکی ہے۔ گوکہ اس ضمن میں برطانوی سپریم کورٹ بروئے کار آیا اور اس نے ایک عدالتی حکم کے ذریعے اسکاٹ لینڈ کی حکومت کو کسی بھی قسم کا علیحدگی کا ریفرنڈم کروانے سے عارضی طور پر تو روک دیا ہے لیکن اسکاٹ لینڈ کی حکمران جماعت نے اس کے جواب میں اعلان کیا ہے کہ آئندہ آنے والے انتخابات ہی دراصل ریفرنڈم ہوں گے جو کہ اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا اسکاٹ لینڈ کو برطانیہ کا حصہ رہنا ہے یا نہیں۔ اس طرح معیشت کے ساتھ ساتھ اب ریاست کو سیاست کے محاذ پر بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر برطانوی بادشاہت، ہاؤس آف لارڈز پر کوئی زد پڑتی ہے تو اس کا اثر محدود نہیں بلکہ لامحدود ہوگا، جس کے نتیجے میں نہ صرف اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی بلکہ خود برطانوی ریاست سے بادشاہت کے ساتھ ساتھ سماجی فلاحی ریاست کا بھی خاتمہ ہوگا۔ برطانیہ کا مستقبل آئندہ آنے والے دنوں خاص طور پر نئے الیکشن کے نتائج پر منحصر ہے۔ اگر لیبر پارٹی بر سرِ اقتدار آئی تو شاید اب وہ اس کام کو کرگزرے، اور اس کے ساتھ ہی لیبر پارٹی کے انتخابی منشور کے مطابق نئے برطانیہ کا جنم ہوگا۔