ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ’’ڈیفالٹ‘‘ کا خطرہ ہے
ملک میں اس وقت دو ہی خبریں ہیں،پہلی یہ کہ کیا تحریک انصاف قومی اسمبلی میں واپس آئے گی یا صوبائی اسمبلیوں سے بھی باہر نکل جائے گی؟ دوسری یہ کہ کیا پاکستان نادہندہ ہوجائے گا، یا اس سے بچ جائے گا؟ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے 26 نومبر کو راولپنڈی کے جلسہ عام میں تمام اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے اور پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑنے کا جو اعلان کیا گیا تھا اگرچہ اس پر ابھی تک کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے، لیکن حتمی تاریخ دی جارہی ہے۔ تاہم پارٹی میں اندرونی اختلافات کی اطلاعات بھی ہیں۔ اگر پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں تو ملک میںقبل از وقت نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہوجائے گا، لیکن نگران حکومت کی مدت آئین میں دی گئی طے شدہ میعاد سے بڑھ بھی سکتی ہے، جس کی وجہ ملکی معاشی صورت حال ہے۔
عمران خان نے استعفوں کا اعلان کرکے سیاست میں ترپ کا پتا کھیلا ہے، اب اُن کے لیے بھی یہ چیلنج ہے کہ وہ کھیل اپنے حق میں کس طرح تبدیل کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت بھی شش و پنج اور بے یقینی کا شکار ہے، اس کے اثرات وفاق میں مخلوط حکومت کی کارکردگی پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔ مجموعی طور پر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ہے، اس وقت مخلوط حکومت اور عمران خان کے اتحادی سب اپنے اپنے سیاسی دائو پیچ لڑا رہے ہیں اور بارگیننگ ہورہی ہے اور ہوا کا رخ دیکھا جارہا ہے۔ عمران خان پر اسمبلیاں توڑنے اور اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے اعلان سے سیاسی دبائو ہے۔ اُن کی اتحادی جماعتیں فوری طور پر عام انتخابات کی طرف نہیں جانا چاہتیں۔
ملکی سیاست میں ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ عمران خان نے پہلی مرتبہ پی ڈی ایم سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا۔ پی ڈی ایم کو مثبت جواب دینا چاہیے، امکان ہے کہ مذاکرات کا راستہ کھل جائے۔ حکومت کی جانب سے اسحاق ڈار اور تحریک انصاف کی جانب سے شبلی فراز ابتدائی طور پر مذاکرات کے ٹی اور آرز بنانے کے لیے بات چیت کی ابتدا کرسکتے ہیں۔
ملک میں دوسرا بڑا اور اہم سوال معیشت سے متعلق اٹھایا جارہا ہے۔ ماہرین خدشات ظاہر کررہے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر گررہے ہیں جس سے بیرونی قرضوں کی بروقت ادائی نہ ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، آئی ایم ایف پروگرام میں مزید سخت شرائط آسکتی ہیں۔ قرضوں کی بروقت ادائی ممکن بنانے کے لیے رواں مالی سال میں 28 ارب ڈالر درکار ہیں جبکہ 2024ء میں یہ رقم بڑھ کر 32 ارب ڈالر ہوجائے گی۔ پاکستان کے پاس ایک ہی سہارا ہے کہ دوست ملک قرضے مؤخر کرانے میں مدد دیں۔ اس وقت پاکستان اپنے کُل قرضوں کا 30 فیصد مقروض ہے، اس سب کے باوجود حکومت دعویٰ کررہی ہے کہ دیوالیہ پن محض اپوزیشن کا پروپیگنڈا ہے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ جب بیرونی قرضوں کی قسطیں اور ان پر سود کی ادائی ناممکن ہوجائے تو یہ دیوالیہ پن کی علامت ہی ہے۔ اندرونی قرضوں سے چھٹکارے کا ایک حل مقامی کرنسی چھاپ کر وقتی طور پر مسئلہ حل کرنا ہے، لیکن یہ ملک میں افراطِ زر بڑھا دے گا۔ ناقابلِ تردید حقائق یہ ہیں کہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا حجم زیادہ ہونے سے ملک کا تجارتی خسارہ تین ارب ڈالر بڑھنے کا امکان ہے، جس سے ملک میں مہنگائی کی شرح 25 سے 27 فیصد ہوگی۔ اگر زرمبادلہ کے ذخائر میں خاطر خواہ بہتری نہ آئی تو اس کا اثر ان درآمدات پر پڑ سکتا ہے۔
ایک مشکل یہ ہے کہ تباہ کن سیلابوں سے ملک کا دو تہائی حصہ تاحال متاثر ہے اور زرعی پیداوار دینے سے قاصر ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشی منظرنامہ بے یقینی کا شکار ہے۔ ملک اس وقت یقیناً مشکل معاشی صورت حال سے دوچار ہے، اس پر قابو پانے کی کوششوں میں حصہ لینے کے بجائے بعض عناصر یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ پاکستان اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ حکومت نے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ایسا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں ہے، اس حوالے سے پروپیگنڈے کا مقصد ملکی معیشت کے بارے میں بے یقینی کو ہوا دینا ہے، ملکی معیشت کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر سری لنکا سے اس کا موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا، حکومت کفایت شعاری کے اقدامات کررہی ہے، غیر ضروری اخراجات ختم کیے جارہے ہیں، حکومتی اقدامات سے کرنٹ اکائونٹ خسارے میں کمی اور ایف بی آر کے ریونیو اہداف کے حصول میں کامیابی ہوئی ہے، معاشی مشکلات کے اس دور میں مالیاتی ایمرجنسی اور ڈیفالٹ کا بے بنیاد پروپیگنڈا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے حربہ ہیں۔ یہ مؤقف وزارتِ خزانہ کے ترجمان کا ہے، جسے تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں، البتہ حقائق سے نظریں چرانا بھی درست نہیں ہے۔
ہر سو یہی تذکرہ ہے کہ عمران خان ملک میں جلد انتخابات کے انعقاد کے لیے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑ دیں گے اور یہ کسی بھی وقت ممکن ہے۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال ایسی نہیں کہ نئی روایات رقم کی جائیں یا نئی محاذ آرائی کے لیے کمر کس لی جائے۔ سنجیدہ حلقوں میں یہ سوچ بچکانہ اندازِ فکر کے طور پر لی گئی ہے، اس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں، اور سب سے بڑی وجہ ملک کی معاشی نمو اور خزانے کے علاوہ تجارتی خسارے پر کنٹرول نہ ہونا بھی ہے۔ عمران خان بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ کرنے والے ہیں، تو پھر سب یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ دو سو معاشی ماہرین اور دیگر شعبہ جات کے ماہرین کی مہارت سے ساڑھے تین سال کی حکومت میں کوئی ایک بھی ایسا کام کیوں نہ کرسکے جس کی بنا پر قوم انہیں نجات دہندہ تسلیم کرتی؟
انہی کے دور میں تو 44 ارب ڈالر قرض لیا گیا تھا، اب وہ چاہتے ہیں کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں جس سے ملک بحران میں گھر جائے، لیکن ان کی جماعت کے اندر سے آوازیں آرہی ہیں کہ مہنگائی کے باعث انتخابی سیاست مشکل ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں اور اگر عدلیہ انہیں بحال کردے تو کیا ہوگا؟ عمران خان اور پرویزالٰہی کی سوچ اور حکمتِ عملی میں ہم آہنگی نہیں پائی جارہی، جس کی دیگر وجوہات اپنی جگہ مگر اب عمران خان جس فیس سیونگ کے چکر میں تھے اس کی ایک ہی راہ کھلی ہے کہ مارچ اپریل 2023ء میں پہلے انتخابات کی بات ہو اور پھر اسمبلی توڑنے کی یا مستعفی ہونے کی۔ آئین کہتا ہے کہ دفعہ 224 کے تحت اگر اسمبلی برخاست ہو، گویا مدت پوری کرکے برخاستگی ہونے سے 120 دن قبل کوئی نشست خالی ہو تو پھر ضمنی انتخاب نہیں ہوگا، گویا نشست خالی رہے گی اور مدت پوری ہوگی۔جب یہ وقت آئے گا تو پھر دیکھیں گے۔ مگر یہ اٹل حقیقت ہے کہ خیبر پختون خوا اور نہ ہی پنجاب اسمبلی کی اکثریت ابھی کوئی الیکشن چاہتی ہے، اور چونکہ تحریک انصاف گہرے پانیوں میں جاتی دیکھی جاسکتی ہے تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ الیکشن ایک سال مؤخر تو ہوسکتے ہیں مگر اپنی مدت سے ایک دن پہلے بھی ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
ان حالات کا تجزیہ یہی ہے کہ مسلسل جاری رہنے والی سیاسی محاذ آرائیوں نے ملک کو کمزور کردیا ہے۔ سیاسی تنائو ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ سیاسی رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سیاسی جنگ کا اگلا مرحلہ فیصلہ کُن ہوگا، لیکن ان کی یہ جنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ سیاسی رویّے ایسے ہیں کہ مخالفین کو حریف کے بجائے دشمن تصور کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ اسی طرح کے سیاسی رویوں سے بھری پڑی ہے اور یہ سیاسی روایت کا حصہ بن چکے ہیں۔ عدم برداشت اور جمہوری اقدار کی پامالی بھی ان ہی میں شامل ہے۔ جو لوگ اقتدار میں ہیں وہ حزبِ اختلاف کے ساتھ بات کرنے کو ترجیح نہیں دیتے، جبکہ حزبِ اختلاف کے لوگ اکثر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔
بہت کم ایسا ہوا کہ یہ دونوں ایک صفحے پر تھے، جیسا کہ باہمی اتفاقِ رائے سے آئین کی 18ویں ترمیم کو اپنایا گیا تھا، لیکن پاکستان کی سیاست نے زیادہ تر حکومت اور حزبِِ اختلاف کے درمیان شدید کشمکش اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے کی کوششوں کو ہی دیکھا ہے۔ نہ ختم ہونے والے سیاسی جھگڑوں نے ہی اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی منظرنامے میں واپسی اور اس میں مداخلت کرنے کے راستے بھی کھولے ہیں۔ ملک اس وقت معاشی گرداب میں گھرا ہوا ہے، معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ بھی یہی غیر مستحکم سیاسی صورت حال ہے۔ حالیہ ’ہائبرڈ تجربے‘ نے فوج کو قومی معاملات میں غیر رسمی اور وسیع کردار ادا کرنے کا موقع دیا لیکن جمہوریت مستحکم نہیں ہوئی۔ ملکی سیاست اس وقت معاشی مسائل اور سماجی تبدیلیوں کے محاصرے میں ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی شہرکاری، متوسط طبقے کی شرح میں اضافہ، متنوع اور متحرک سماج کا اُبھر کے سامنے آنا اور ٹیکنالوجی کی بدولت عوام میں شعور آنے جیسی تبدیلیاں بہت اہم ہیں۔ان تبدیلیوں کے بعد نئے سیاسی نظام کو وجود میں آنا چاہیے تھا
لیکن یہ اب بھی اپنی پرانی حالت میں ہی ہے۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ متوسط طبقے اور نوجوانوں کی نمائندہ جماعت ہے، اسکو عمومی سیاست سے ہٹ کر سیاست کرنی تھی، اس کے برعکس یہ مخصوص گروہ کی جماعت بن کر رہ گئی اور اقتدار میں آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے بغیر حکومت کرنے میں ناکام رہی۔دوسری جماعتوں کی طرح اس میں بھی سیاسی اشرافیہ، مقامی بااثر افراد اور مفادات کے پیچھے بھاگنے والے مخصوص افراد شامل ہوگئے۔ یہ لوگ ماضی میں انہی دو جماعتوں کا حصہ تھے جن کی بدعنوانی کی عمران خان مذمت کرتے رہے تھے، ایسے لوگوں کو لے کر انہوں نے مصلحت کی سیاست کی ایک نئی روایت قائم کی، پارٹی کی تنظیم پر شخصیت کو ترجیح دی گئی، یہی وجہ تھی کہ تحریک انصاف بھی پرانی جماعتوں سے مماثلت رکھنے لگی۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ سماجی اور سیاسی ماحول میں کوئی اہم تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ سیاست ہمیشہ سیاسی اشرافیہ کے درمیان ایک مقابلہ ہی رہے گی۔اس پورے معاملے کی عکاسی پاکستان کے مایوس کن معاشی ریکارڈ سے بھی ہوتی ہے۔ ملک کے بڑھتے ہوئے بجٹ اور ادائیگیوں کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے اصلاحات کرنے اور اندرونی وسائل بڑھانے کے بجائے ان سب جماعتوں نے قرضے لینے کو ترجیح دی۔ سرد جنگ اور اس کے بعد ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات کی وجہ سے ہمیں جو بیرونی امداد ملی اُس نے ہمارے اندر بیرونی امداد پر انحصار کرنے کی عادت پیدا کردی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت جو دیہاتوں اور شہروں کی اشرافیہ کی نمائندگی کرتی ہے وہ معاشی اصلاحات لانے، وسائل کی تقسیم اور اپنے بااثر حامیوں پر ٹیکس عائد کرنے سے گریز کرتی ہے۔ ہر حکومت نے دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے آئی ایم ایف کی امداد پر انحصار کیا، نتیجتاً ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا۔ ان قرضوں کو ادا کرنا ناممکن لگ رہا ہے۔ قرضوں کا یہ بوجھ معیشت کو نہ صرف مفلوج کررہا ہے بلکہ اس سے مہنگائی کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ہر حکومت نے ہمیشہ معاشی معاملات سے نمٹنے کے لیے ایسے راستے کا انتخاب کیا ہے جو اسے آسان لگا۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک ایک کے بعد دوسرے معاشی بحران کا شکار ہورہا ہے، کیوںکہ سیاسی اشرافیہ ایسے کسی اقدام کا خیر مقدم نہیں کرتی جس سے اُن کی سیاسی حیثیت یا مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہو۔ ساتھ ہی ان کی معاشی پالیسیاں اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ عوامی وسائل پر دراصل اشرافیہ قابض ہے۔ اس کا پریشان کن پہلو یہ ہے کہ پاکستان غیر فعال سیاست، بڑھتے ہوئے حکومتی چیلنجز، طویل مدتی معاشی انتظام اور ریاستی اداروں پر سے عوام کے عدم اعتماد کی جس دلدل میں دھنسا ہوا ہے، ان جماعتوں کے پاس اس سے نکلنے کے لیے کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔