صدرِ پاکستان کے ریفرنس پر عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ
ملکی مفاد کے تحفظ کے لیے گزشتہ ہفتے ایک نمایاں فیصلہ سامنے آیا، اس فیصلے کی روشنی میں اب پارلیمنٹ میں بھی قانون سازی ہونے جارہی ہے۔ سینیٹ میں تو اس سے متعلق بل پاس ہوچکا ہے، اب قومی اسمبلی میں اسے پیش کیا جائے گا۔ معاملہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ریکوڈک منصوبے کے نئے معاہدے کو قانونی اور ماحولیاتی اعتبار سے درست قرار دیتے ہوئے اِس کی توثیق کردی ہے اور قانون سازی کی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے یہ فیصلہ سنایا ہے۔ مختصر فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ آئین قومی اثاثوں کے خلافِ قانون معاہدے کی اجازت نہیں دیتا، تاہم اِس معاہدے کی کوئی شق خلافِ قانون نہیں ہے اور نہ ہی یہ معاہدہ سپریم کورٹ کے 2013ء کے فیصلے کے خلاف ہے۔ یہ معاہدہ ماحولیاتی اعتبار سے بھی درست ہے، اِس سے متعلق بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لیا گیا اور منتخب اسمبلی نے بھی اِس پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔ فیصلے کی اہم بات یہ ہے کہ فارن انویسٹمنٹ بل صرف بیرک گولڈ کے لیے نہیں ہے بلکہ 50 کروڑ ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کرنے والی ہر کمپنی کے لیے ہے۔
وزیراعظم کی سفارش پر صدرِ مملکت نے ریکوڈک کے اِس نئے معاہدے کی قانونی حیثیت کے تعین اور توثیق کے لیے سپریم کورٹ میں 18 اکتوبر کو ریفرنس بھجوایا تھا۔ فیصلہ چار ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ ریکوڈک ریفرنس میں دو سوالات پوچھے گئے تھے، پہلا سوال یہ تھاکہ نیا معاہدہ سپریم کورٹ کے ریکوڈک کیس کے 2013ء کے فیصلے سے متصادم تو نہیں؟ یا حکومت کو ایسے کسی معاہدے سے منع تو نہیں ہے؟ اور یہ کہ نئے معاہدے کے حوالے سے مجوزہ فارن انویسٹمنٹ پروٹیکشن اینڈ پروموشن بل 2022ء کا نفاذ آئین و قانون سے متصادم یا پبلک پالیسی کے خلاف تو نہیں ہے؟ اِس کیس میں سپریم کورٹ کی معاونت عالمی ماہرین نے بھی کی۔ عدالت نے لکھاکہ ماہرین کی رائے کے بعد ہی وفاقی و صوبائی حکومت نے معاہدہ کیا تھا، معدنی وسائل کی ترقی کے لیے سندھ اور خیبر پختون خوا کی حکومتیں قانون سازی کرچکی ہیں اور صوبے معدنیات سے متعلق قوانین تبدیل بھی کرسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق بیرک کمپنی کی جانب سے عدالت کو یقین دلایا گیا ہے کہ تنخواہوں کے قانون پر مکمل عمل درآمد کے ساتھ ساتھ مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائے گا جبکہ علاقے میں سوشل منصوبوں پر سرمایہ کاری بھی کی جائے گی۔ بینچ کے فاضل جسٹس یحییٰ آفریدی نے صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے دو میں سے ایک سوال پر اپنی رائے دینے سے گریز کیا اور دوسرے سوال پر بینچ کے دیگر ممبرز کی رائے سے اتفاق کیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی ریفرنس کے دوسرے سوال پر اپنی خاموشی کی وجہ تفصیلی فیصلے میں لکھیں گے۔