تذکرہ مدائنِ حدیث

امام المحدثین محمد بن احمد بن عثمان الذہبی ؒ (1274ء۔ 1348ء) مشہور محدث اور مورخ ہیں۔ آپ کے علمی مقام کو آپ کے معاصر علماء نے اور بعد میں آنے والوں نے بھی کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ امام ذہبی ؒ نے ادب و نحو، قرات سبعہ، تاریخ، حدیث اور اجازات کے لیے کثرت سے مختلف شہروں کے علمی سفر کیے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپ کے شیوخ کی تعداد تین ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے۔ آپ نے 112 خواتین سے بھی سماع و استفادہ کیا۔ اسی طرح آپ کے تلامذہ کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔

امام ذہبیؒ نے اپنی پوری زندگی تحصیلِ علم اور تصنیف، تالیف اور تدوینِ کتب میں صرف کی۔ آپ کی کتابوں کی تعداد 200 سے زائد ہے جن میں سے 183 تاریخ، رجال، اختصارات اور منتقیات پر مشتمل ہیں۔ چند مشہور کتابوں کے نام درجِ ذیل ہیں:تذکرۃ الحفاظ، الاشارۃ الی وفیات الاعیان المنتقی من تاریخ الاسلام، تاریخ الاسلام ووفیات مشاہیر الاعلام، معین فی طبقات المحدثین، معرفۃ القراء علی الطبقات، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، تجرید اسماء الصحابہ، تذہیب تذویب الکمال فی اسماء الرجال۔

امام ذہبیؒ نے علوم الحدیث اور تاریخ کی مختلف انواع کے بارے میں لکھا ہے۔ آپ کی ایک گراں قدر تصنیف ”الامصار ذوات الآثار“ ہے۔ اس کتاب میں مختلف شہروں میں علم الحدیث کی کیا صورتِ حال رہی، کب حدیث پہنچی، کن نفوس نے اس علم کی خدمت کی، کب تک کس شہر میں یہ علم رہا، کب یہ علم اس شہر سے رخصت ہوتا چلا گیا، اور اس کے متعلقات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

امام ذہبیؒ نے اپنے اس رسالے میں 32 شہروں کے بارے میں اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ لکھا ہے۔ جیسا کہ ”ہمذان“ کے بارے میں لکھتے ہیں: ”یہ سنت کا گڑھ ہے۔ اس کی صالح بن احمد حافظ اور شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ دیلمی نے تاریخ لکھی۔ یہ شہر 255ھ میں علماء سے بھرا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں کی ریاستِ علم حافظ ابو علاء عطار اور ان کی اولاد پر ختم ہوئی۔ پھر تاتاریوں اور چنگیزیوں نے اسے تاخت و تاراج کردیا۔“

یہ کتاب پہلی بار 1985ء میں دار ابن کثیر سے شائع ہوئی اور اس کتاب کےمحقق عبدالقادر ارنائووط نے جابجا اس میں مفید حواشی کا اضافہ کیا۔ ہمارے پیش نظر اس محقق نسخے کا اردو ترجمہ بعنوان ”تذکرہ مدائن حدیث“ ہے۔ مترجم محمد اسد اللہ خالد، جی۔ سی۔ یونیورسٹی (لاہور) میں ایم۔ فل کے طالب علم ہیں اور عربی زبان کے نامور استاد ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کے لائق اور ذہین تلامذہ میں سے ہیں۔ عربی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ و سیرت سے بھی خاص شغف رکھتے ہیں۔

پیش نظر کتاب کی ترتیب حسبِ ذیل ہے: شروع میں فاضل مترجم نے امام ذہبیؒ کے حالاتِ زندگی (نام و نسب، ذہبی کی وجہ تسمیہ، ولادت، تحصیلِ علم، علمی اسفار، شیوخ و اساتذہ، اقران، تعلیم و تدریس، سیرت و اخلاق، افکار و نظریات، علماء کی آراء، اولاد، وصال) اور علمی آثار (قرات، حدیث، مصطلح الحدیث و آدابہ، عقائد، اصول فقہ، فقہ، رقائق، التاریخ والتراجم، مختصرات و منتقیات، تخاریج، مشیخات، اربعینات، ثلاثیات، عوالی، اجزاء)پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد ترجمہ متن، حواشی، مصادر و مراجع اور آخر میں ”الامصار ذوات الآثار“ کا عربی متن دیا ہے۔ فاضل مترجم نے جن حواشی کا اردو ترجمہ کیا ہے ان کے سامنے علامت (ط) لکھ دی ہے۔ علاوہ ازیں خود بھی کچھ حواشی تحریر کیے ہیں۔

یہ کتاب محمد اسد اللہ خالد اور ادارئہ فکر جدید کی باہمی کاوش کا نتیجہ ہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر فاضل مترجم و ناشر ہر دو لائق تحسین و قابلِ مبارک باد ہیں۔