آزادکشمیر میں 31 سال بعد بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ بہ حسن وخوبی مکمل ہوگیا۔ مظفرآباد اور پونچھ ڈویژن میں انتخابات ہوچکے ہیں، جبکہ میرپور ڈویژن میں انتخابات ہونا باقی ہیں۔ مرحلہ وار انتخابات کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ وفاقی حکومت نے عمران خان کے لانگ مارچ کا عذر پیش کرتے ہوئے امن وامان برقرار رکھنے کے لیے اضافی نفری دینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ وفاقی حکومت کے اس انکار کے بعد انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑ گیا تھا، مگر یہ خطرہ ٹل گیا اور حکومت انتخابات کے ہر صورت انعقاد کے فیصلے پر قائم رہی۔
ان انتخابات میں تین مین اسٹریم جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا جن میں آزادکشمیر کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور وفاق کی حکمران جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی شامل تھیں۔ ریاستی جماعت مسلم کانفرنس نے نیم دلی سے ان انتخابات میں حصہ لیا مگر اپنے نام اور وجود کا اظہار کرنے میں کامیاب رہی۔ انتخابی نتائج میں تینوں بڑی جماعتوں نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور ان کی کمزوریاں بھی عیاں ہوکر سامنے آئیں۔ ان نتائج سے سیاسی جماعتوں کو اپنی پالیسیوں کی اصلاح کا موقع ملے گا۔
انتخابات کا پہلا مرحلہ غیر معمولی طور پر پُرامن گزر گیا۔ ماضی کے برعکس تصادم، سرپھٹول اور دھینگا مشتی کے واقعات نہ ہونے کے برابر رہے، جس سے ثابت ہورہا تھا کہ عوام نے امکانات اور مواقع کی اس بند کھڑکی کے کھلنے پر حد درجہ سنجیدگی اور ارفع شعور کا مظاہرہ کیا۔ انہیں اندازہ تھا کہ اعلیٰ سیاسی قائدین نے بادلِ نخواستہ یہ کڑوا گھونٹ پیا ہے اور اگر اس موقع پر عوام نے کسی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا تو عوام کے لیے امکان اور موقع کی یہ کھڑکی کھلنے سے پہلے ہی بند ہوجائے گی۔ اس ماحول میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ پُرامن گزر گیا اور اس حوالے سے تمام خدشات غلط ثابت ہوئے۔ یوں اکتیس سال بعد جمہوریت کا بنیادی تقاضا پورا ہوگیا۔ اس منزل کو قریب لانے اور اس مرحلے کو گزارنے میں کئی کرداروں کا کریڈ ٹ مسلمہ ہے۔ ان میں پہلا کریڈٹ چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب سعید اکرم راجا کو جاتا ہے جنہوں نے ادارہ جاتی دبائو رکھ کر اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ عدلیہ کا دبائو ہی تھا کہ سیاست دانوں کے عذرہائے لنگ کارگر نہ ہوسکے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ آزادکشمیر کے عوام نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا جذبہ بحال اور برقرار رکھ کر اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ جمہوری نظام کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ عوام نے امن وامان کا مسئلہ پیدا نہ کرکے اس حوالے سے تمام خدشات کو جھٹک کر رکھ دیا۔
بلدیاتی انتخابات اب آزادکشمیر میں ایک خواب وخیال ہوکررہ گئے تھے مگر اعلیٰ عدلیہ نے اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ حیلوں بہانوں سے تمام اسٹیک ہولڈرز نے اس دن کو ٹالنے کی کوشش کی، اور یہ کوشش بھی احمد ندیم قاسمی کی زبان میں فطری ہی تھی:
یہ ارتقا کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے ہیں
آزادکشمیر کے منظر پر دہائیوں سے چھائے ہوئے سیاست دان اب اس طاقت اور اختیار میں شراکت کے تصور سے بھی خوف کھانے لگے تھے، اسی لیے وہ مختلف بہانوں سے انتخابات کو ٹالتے چلے آرہے تھے۔ ہر سیاسی جماعت اپنے منشور میں بلدیاتی انتخابات کو شامل کرتی، ہر سیاست دان انتخابی تقریروں میں بھی اس کا مژدہ سناتا، مگر جونہی وہ فیصلہ سازی کی پوزیشن میں آتا اپنا وعدہ فراموش کردیتا۔ اس سے آزادکشمیر کی سیاست اور برائے نام سی جمہوریت مزید کمزور، جمود کا شکار اور کرپشن زدہ ہوتی چلی گئی۔ چہروں کی تبدیلی کا عمل مشکل سے مشکل تر ہوگیا اور موروثی سیاست کی جڑیں اور پنجے کچھ اور گہرے ہوکر رہ گئے۔ عام آدمی سیاست سے لاتعلق اور مایوس ہوتا چلا گیا اور سیاست چند گھرانوں اور اُن کے عشاق اور خوشہ چینوں کا کام بن کر رہ گئی۔ سیاست میں چاپلوسی اور رشوت کا عنصر بڑھ گیا کیونکہ میرٹ اور صلاحیت کی کلی کو کھلنے سے پہلے ہی مرجھانے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ ہر سیاسی جماعت کے دیدہ زیب منشور کی کاپیوں میں جوانوں کے نام سے خوبصورت دعووں پر مبنی ایک باب موجود رہا، مگر نوجوانوں کی سیاست میں عملی شرکت کے دروازے مقفل رکھے گئے کہ تین چار دہائیوں سے تشکیل پانے والے سیاسی کلب میں کوئی اجنبی، غیر مگر باصلاحیت شخص پائوں نہ رکھنے پائے۔ اب بھی انتخابات کا عمل بادل نخواستہ ہی آگے بڑھایا جارہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی اس میں کوئی قید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ کا دبائو اور نگرانی نہ ہوتی تو آج آزادکشمیر کے نوجوان اور مڈل کلاس سیاسی کارکن سر پکڑ کر اپنی قسمت کا رونا رو رہے ہوتے، کیونکہ سیاسی کلب کے ارادے تو کسی طور پر بھی انتخابات منعقد کرانے کے نہیں تھے۔ چار وناچار سب کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔ اس سے آزادکشمیر کی سیاست جوہڑ سے دوبارہ آبِ رواں بنے گی اور سیاست کا جمود ختم ہوگا، نسل در نسل سیاسی منظر پر قبضہ جمائے چہرے دھندلانے کا عمل تیز ہوگا کیونکہ جمہوری سیاست میں کوئی امام، پیشوا، ظل سبحان اور ناگزیر اعظم نہیں ہوتا، یہ ایک پہاڑی ندی ہوتی ہے جو رواں رہتی ہے اور راستے کی رکاوٹوں میں اپنا راستہ خود بناتی چلی جاتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات سے اُبھرنے والی قیادت کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا کہ حکمرانوں نے نئے خون کا راستہ روک کر ایک بڑی غلطی کی ہے اور معاشرے کے آگے بڑھنے کے سفر کو روک رکھا ہے۔