چینیوں کا دعویٰ ہے کہ فضا میں منڈلاتے ان کے ریڈار بردار طیاروں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں
امریکی وزارتِ دفاع نے انسانی تاریخ کے سب سے ہلاکت خیز بمبار طیارے بی 21 ریڈر (B-21Raider)کی رونمائی کردی۔ یہ دراصل تباہ کن بموں سے آراستہ، اڑتا ہوا غیر مرئی (stealth)کمپیوٹر ہے جو پائلٹ اور فضائی عملے کے بغیر بھی محوِ پرواز رہ سکتا ہے۔
امریکی فضائیہ نے 2011ء میں دورمار حملہ آور بمبار یا Long Range Strike Bomber (LRSB) پروگرام شروع کیا، جس کا مقصد ایسے بمباروں کی تیاری تھا:
٭ جو امریکہ سے اڑان بھر کر ایندھن کے لیے کہیں رکے بغیر دنیا کے کسی بھی حصے میں اپنے ہدف کو خاک کرسکیں۔
٭طیارے جدید ترین ریڈار سے اوجھل رہیں۔
٭ان بمباروں پر ایسے حساس ریڈار اور طاقتور کمپیوٹر نصب ہوں جو پرواز کے دوران فضا، سمندر اور زمین پر دشمن کی تنصیبات اور اثاثوں کی نوعیت اور مقام کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرکے ضروری کارروائی کے لیے یہ معلومات بروقت اپنے قریب ترین اڈوں کو بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
٭پرواز کے دوران اگر فضائی جنگ المعروف dog fightکا مرحلہ آجائے تو یہ بمبار اپنے آپ کو یا دوست لڑاکا طیاروں کو دشمن کی چالوں سے باخبر رکھ سکیں۔
٭ان پر 20 ٹن وزن کا روایتی یا جوہری ہتھیار لادا جاسکتا ہو۔
٭پرواز کا نظام کچھ اس طرح ترتیب دیا جائے کہ ڈرون کی طرح عملے کے بغیر بھی انھیں اڑایا جاسکے۔
چار سال کے طویل عرصے تک جاری رہنے والی اس تحقیق پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے اور جولائی 2015ء میں بمبار کی تیاری کا ٹھیکہ امریکہ کے اسلحہ ساز ادارے نارتھ رُپ گرو مین (Northrop Grumman)کو عطا ہوا۔ نیویارک کے بازارِ حصص میں NOCکے نشان یا ticker پر فروخت ہونے والے اس کمپنی کے تیار کردہ بی 2 اسپرٹ (B-2 Spirit) بمبار طیارے امریکی فضائیہ گزشتہ 25 سال سے استعمال کررہی ہے۔ افغانستان اور عراق میں ان طیاروں کا بہیمانہ استعمال کیا گیا۔
سات سال کی جستجو کے بعد جمعہ 2 دسمبر کو پام ڈیل (Palmdale)شہر (ریاست کیلی فورنیا) میں واقع نارتھ رُپ گرومین فیکٹری پر اس طیارے کی تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن نے کہا کہ بی 21 ریڈر کی تیاری امریکہ کی ایک کلیدی و تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) کامیابی ہے، اور یہ طیارہ امریکہ کے لیے دیرپا فوائد کا شاہکار ہے۔ تین دہائیوں کی محنت و جستجو نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طیارہ خوب سے خوب تر کے مرحلے سے گزر رہا ہے اس لیے اس کی بہت سی خصوصیات کو اِس وقت بیان کرنا قبل از وقت ہے، تاہم یہ بات بہت اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی 21 ریڈر امریکہ کے موجودہ بمبار بیڑے میں انتہائی اہم اضافہ ہے۔ جنرل آسٹن نے فخریہ انداز میں کہا کہ طویل فاصلے تک مار کرنے والا دنیا کا کوئی بمبار کارکردگی کے اعتبار سے فی زمانہ اِس کا ہمسر نہیں۔ انہوں نے طیارے کی پائیداری سے متعلق کہا کہ اسے اب تک کے سب سے زیادہ مین ٹین ایبل (maintainable)بمبار کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔
اسلحہ ساز ادارے لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin) کے بنائے ہوئے ایف 22 ریپٹر اور ایف 35 لڑاکا طیاروں کی طرح بی 21 میں بھی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جو طیارے کے نشان کو اس کی شکل اور اس کے بنائے گئے مواد کے ذریعے نمایاں نہیں ہونے دیتی ہے اور دشمنوں کے لیے اس کا پتا لگانے کو مشکل بناتی ہے۔ طیارہ ساز کمپنی کے مطابق ریڈار سے بچنے کی ٹیکنالوجی کے پچاس برسوں کا نچوڑ اس طیارے کی تیاری میں شامل کیا گیا ہے، اور نظام میں مزید بہتری لاکر طیاروں کو پوشیدہ رکھنے کے لیے اضافی الیکٹرانک پردے تان دیے گئے ہیں۔ کمپنی پُراعتماد ہے کہ بہترین ریڈار اور حساس ترین دفاعی نظام کو بھی بی 21 بمبار طیارہ تلاش کرنے یا اس کی نشاندہی کرنے میں بہت مشکل ہوگی۔
اس طیارے کے ”اوصافِ حمیدہ“ سامنے آتے ہی NOC کے حصص 15.27 ڈالر مہنگے ہوگئے اور خبر کے ساتھ ہی حصص یافتگان نے کروڑوں کمالیے۔
دوسری طرف چینیوں کا دعویٰ ہے کہ فضا میں منڈلاتے ان کے ریڈار بردار طیاروں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ چینی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ ان کے Liuریڈار سے خارج ہونے والی طاقتور برق مقناطیسی (Electromagnetic) شعاعیں کئی سو کلومیٹر دور موجود جہازوں کا سراغ لگالیتی ہیں۔ یہ ریڈار چینی ماہر ڈاکٹر Liu Yongtan نے کئی سال پہلے غیر مرئی آبدوزوں کا پتا چلانے کے لیے بنایا تھا جسے مزید ترقی دے کراسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین طیاروں کو ”بےنقاب“ کرنے کے قابل بنادیا گیا ہے۔ ڈاکٹر لیو کا کہنا ہے کہ ان کے ریڈار کی شعاعوں کا تعاقب کرنا دشمن کے ریڈار شکن نظام کے بس کی بات نہیں۔ گویا غیر مرئی نظام کی چلمن کو تار تار کرنے والا ان کا دفاعی نظام خود غیر مرئی اور ریڈار شکن حملوں سے محفوظ ہے۔ امریکی ماہرین نے چین کے اس دعوے کو شیخی اور لن ترانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے اسٹیلتھ نظام کو مزید مؤثر و بہتر کردیا گیا ہے جبکہ چینی اب تک پرانی و متروک ٹیکنالوجی کے توڑ میں سرگرداں ہیں۔
بی 21 کی ساخت میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اِس وقت موجود ہتھیاروں کے ساتھ مستقبل میں ایجاد ہونے والے ہتھیار اُن پر لادے اور داغے جاسکیں۔ اس منفرد اور امتیازی صلاحیت کے لیے ماہرین ”اوپن سسٹم آرکی ٹیکچر“ کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں۔ اس طیارے پر 20 سے 25 ٹن وزنی اسلحہ لادا جاسکتا ہے اور روایتی کے ساتھ جوہری بم اور میزائیل برسانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ طیارے کی ٹنکیوں میں ایندھن ذخیرہ کرنے کی گنجائش 8000 میل تک کے سفر کے لیے کافی ہے۔ امریکی وزیردفاع نے اپنی تقریر میں بغیر عملہ پرواز کی صلاحیتوں کا ذکر نہیں کیا لیکن امریکی فضائیہ کی ترجمان محترمہ این اسٹیفنک نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ضرورت پڑنے پر یہ طیارہ عملے کے بغیر بھی اڑایا جاسکے گا تاہم فی الحال اس کی اڑان عملے کے ساتھ ہوگی۔ اسٹیفنک صاحبہ نے بی 21 بمباروں کو امریکی فضائیہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔
اس وقت 6 طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جس کے بعد آزمائشی پروازوں کا سلسلہ شروع ہوگا، اور پہلی حقیقی پرواز اگلے سال کے وسط تک متوقع ہے۔ قیمت کا تخمینہ تقریباً 75 کروڑ 30 لاکھ ڈالر فی طیارہ ہے۔ امریکی فضائیہ 100 ایف21 خریدنے کی خواہش مند ہے۔ ابتدا میں خیال تھا کہ قیمت 55 کروڑ کے قریب ہوگی۔
امریکہ جیسے امیر ملک کے لیے ایک طیارے پر 75 کروڑ ڈالر خرچ کردینا بہت مشکل نہیں، لیکن دولت کی ریل پیل کے باوجود ساڑھے پانچ لاکھ بے گھر امریکی سڑکوں کے کنارے اور پُلوں کے نیچے رات بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکی شعبہ زراعت کے مطابق کورونا کی وبا سے پہلے ایک کروڑ 37 لاکھ خاندانوں کو غذا کے معاملے میں اطمینان نصیب نہیں تھا، یا یوں کہیے کہ دس فیصد امریکی گھرانے Food insecurityکا شکار تھے۔ وبا کے بعد نانِ شبینہ کے حوالے سے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا امریکیوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ ان گھروں میں رہنے والے معصوم بچوں کی تعداد ایک کروڑ 30 لاکھ ہے۔ (حوالہ NPR)
حال ہی میں صدر بائیڈن نے نوجوانوں کے اُن قرضوں کا کچھ حصہ معاف کرنے کا اعلان کیا ہے جو انھوں نے اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے لیے تھے۔ امریکی صدر کے اس فیصلے کے خلاف ریپبلکن ارکانِ کانگریس نے عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دائر کردی کہ اس ”فراخدلی“ سے امریکی سرکار کے مالی خسارے میں اضافہ ہوگا۔ عدالت نے فیصلہ ہونے تک قرض معافی کی کارروائی روک دی ہے۔
”اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر“ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے، کہ ایک طرف معصوم بچوں سمیت کروڑوں افراد نانِ شبینہ سے محروم ہیں، خون جمادینے والی سردی میں پانچ لاکھ سے زیادہ افراد اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ پلوں کے نیچے خیمہ زن ہیں اور 75 کروڑ ڈالر ایک طیارے پر خرچ کیے جارہے ہیں۔
اس جنون میں امریکہ اکیلا نہیں۔ ابھی چند دن پہلے خبر آئی تھی کہ 2035ء تک چین کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 1500 سے تجاوز کرجائے گی۔ اس دہائی کے آغاز پر چین کے پاس 200 جوہری ہتھیار تھے۔ گزشتہ برس یعنی 2021ء میں چین نے بین البراعظمی سمیت مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے 135منجنیقی (Ballistic) میزائیلوں کا تجربہ کیا، ان میں سے کئی آواز سے تیز رفتار (Hypersonic) میزائیل بھی شامل ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران اگست 1945ء میں امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بم پھینکے تھے۔ ان حملوں میں ڈھائی لاکھ معصوم نہتے شہری موقع پر ہی راکھ بن گئے۔ ہنستے بستے یہ دو شہر ان معنوں میں صفحہِ ہستی سے مٹ گئے کہ یہاں کی مٹی اور مائیں آج تک بانجھ ہیں۔ ان شہروں میں گھاس اگتی ہے نہ خواتین کی امید بندھتی ہے، اور اگر کوئی بدنصیب کونپل پھوٹ بھی اٹھے تو وہ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہوتی ہے۔ ان دو بموں سے ہونے والی تباہی کو جاپانی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ اگر ہزاروں بموں سے لیس قوتوں کے درمیان جنگ چھڑی تو دنیا کا کیا حشر ہوگا، اس تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے، جبکہ ہلاکت خیزی کے اعتبار سے جاپان پر گرائے جانے والے بم دورِ جدید کے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں پھلجھڑی اور پٹاخوں سے زیادہ نہ تھے۔
جوہری ہتھیار کے ساتھ ان بموں کو داغنے کے لیے میزائیلوں کی تیاری بھی عروج پر ہے۔ چین آواز سے کئی گنا تیز دوڑنے والے میزائیل بناچکا ہے جسے Hypersonic کہتے ہیں۔ آواز کی رفتار 20 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں 1235 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ چینی ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے Mach-5میزائیل آواز سے پانچ گنا تیز سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی وزارتِ دفاع کے مطابق چین Mach-5 ٹیکنالوجی کو مزید ترقی دے کر Fractional Orbit Bombardment System (FOBS) پر کام کررہا ہے۔ زمین کے مدار کے گرد گھومتا یہ تیز رفتار ہائپر سانک میزائیل دنیا کے کسی بھی حصے میں اپنے ہدف کو آن کی آن میں بھسم کرسکے گا۔ چین کی ان کوششوں سے چچا سام پوری طرح آگاہ اور ان کے سائنس دان نہلے پر دہلہ جمانے کے لیے پُرعزم نظر آرہےہیں۔
یہ چشم کشا ایجادات بلاشبہ خالقِ کائنات کی عظمت کا شاہکار ہیں کہ جس نے اپنی حکمت اور کمالِ مہربانی سے خاک کے اس پُتلے کو شوکت و حشمت عطا کی۔ لیکن انسان خداداد صلاحیتوں اور فیاضیِ رب سے عطا کردہ قیمتی و نادر وسائل کو اپنی ہی تباہی کا سامان بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ واقعی انسان اپنے رب کا ناشکرا، جلدباز اور انجام کے بارے میں تجاہلِ عارفانہ کا شکار ہے۔
………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔