نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری کا معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیا ہے۔ پہلی بار قومی سیاست میں ان کی تقرری پر جو سیاسی میدان سجا، اور تجزیوں، تبصروں اور افواہوں کا جو کھیل کھیلا گیا وہ کسی بھی طور پر ریاست اور ملک کے مفاد میں نہیں تھا۔ کچھ لوگ تو اس معاملے میں کسی مہم جوئی کے منتظر تھے، مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔ دونوں کی تقرری میں سینیارٹی کے اصول کو بھی مدنظر رکھا گیا جو اچھی روایت ہے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب ملک کا سیاسی بحران بہت سنگین ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اس بحران کو محض سیاسی نہیں بلکہ ریاستی بحران کے ساتھ بھی جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو ٹکرائو نظر آرہا ہے وہ بھی سنجیدہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت داخلی، علاقائی اور عالمی محاذوں پر کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان حالات میں حکومت، حزبِ اختلاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان عدم ٹکرائو کی پالیسی ہی ہمیں آگے کی طرف لے کر جاسکتی ہے، جبکہ محاذ آرائی، ٹکرائو یا مہم جوئی کی پالیسی کسی بھی صورت میں ریاستی مفاد میں نہیں ہوسکتی۔
نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ساحر شمشاد کی پیشہ ورانہ حیثیت اور ساکھ کو سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں اہم تقرریوں پر کہیں سے بھی کوئی بڑے اعتراضات سننے کو نہیں ملے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی، علمی و فکری پنڈت توقع رکھتے ہیں کہ نئے فوجی سربراہ اپنی اور ادارے کی پالیسی کی بنیاد پر ایسے اقدامات کریں گے جو سیاسی اور سیکورٹی سے جڑے معاملات میں مؤثر اور شفافیت پر مبنی ہوں گے۔ بالخصوص ایسے معاملات جو اسٹیبلشمنٹ کے تناظر میں تنقیدی پہلو کے زمرے میں آتے ہیں ان سے گریز کیا جائے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ ملکی سیاسی منظرنامے پر جو دھند چھائی ہوئی ہے اورمعاشی سطح کے جو مسائل ہیں ان کو بھی کم کرنے کا موقع مل سکے گا، کیونکہ سیاسی استحکام ہی ہمیں معاشی استحکام کی طرف لے جاسکتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر ہماری ریاست اور نئی عسکری قیادت علاقائی اور عالمی سطح کے چیلنجوں سے بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئے آرمی چیف کے سامنے کیا بڑے چیلنج ہیں؟
(1)پہلا چیلنج یہ ہے کہ معاشرے میں جو تقسیم سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نظر آتی ہے اسے کم کیا جائے۔ بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کے تناظر میں سوشل میڈیا پر جو تنائو، ٹکرائو یا ردعمل نوجوانوں میں غالب نظر آتا ہے اس کو ہر صورت میں اور ترجیحی بنیادوں پر کم ہونا چاہیے۔ یہ تاثر کہ ہمارے سیاسی معاملات میں اوپر سے لے کر نیچے تک اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، اسی لیے ہر معاملے میں جائز و ناجائز اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، اس تاثر یا رائے کو درست سمت میں لے جانا ہوگا۔ نوجوانوں کی سطح پر ایک مثبت سمت کا تعین ہی ملک کے سیاسی اور ریاستی مفاد میں ہے۔
(2) جنرل قمرجاوید باجوہ کے بقول اسٹیبلشمنٹ نے ادارہ جاتی سطح پر یہ طے کرلیا ہے کہ اب مستقبل میں وہ کوئی سیاسی کردار ادا نہیں کرے گی۔ یہ ایک بنیادی نوعیت کا مسئلہ ہے اور دیکھنا ہوگا کہ نئے آرمی چیف خود کو اور اپنے ادارے کی پالیسی یا عملی اقدامات کوکس حد تک داخلی سیاست سے علیحدہ رکھ سکیں گے۔ اعلان اور عملی اقدامات میں فرق ہوتا ہے اور دیکھنا ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ اس پالیسی پر کس حد تک عمل درآمد کرتی ہے۔ بالخصوص داخلی سیاست کے مسائل سے اسٹیبلشمنٹ خود کو علیحدہ کرے اور سیاسی فریقین کو سیاسی مسائل خود حل کرنے دے۔ اگر سیاسی فریقین اسٹیبلشمنٹ کی طرف جھکیں یا اُس سے مدد طلب کریں تو بھی اسٹیبلشمنٹ غیر جانب دارانہ پالیسی کو ہی مقدم رکھے۔
(3) اگلا برس ملک میں نئے انتخابات کا ہے۔ ہمارے ہاں عمومی طور پر انتخابات کی شفافیت اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر ایک لمبی کہانی موجود ہے۔ نئی عسکری قیادت کا اصل اور بڑا امتحان 2023ء کے عام انتخابات کی شفافیت اور خود کو ان انتخابات کے عمل سے دور رکھنا ہے۔ سیاسی انجینئرنگ، سیاسی مہم جوئی یا کسی سیاسی فریق کی حمایت یا مخالفت کی پالیسی سے گریز ہی اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ کو مضبوط بناسکے گا۔ عام انتخابات کا یہی معرکہ ثابت کرے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کس حد تک خود کو سیاسی معاملات سے الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی پر قائم رہی ہے۔
(4) اسی طرح ملک میں تمام سیاسی فریقین کے ساتھ یکساں پالیسی، بلوچستان کے لوگوں کو قومی دھارے میں لانا، فاٹا اور وزیرستان میں پی ٹی ایم کو قومی معاملات کا حصہ بنانا، سب کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ، انسانی حقوق کی پاس داری، اور ایجنسیوں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کا ازالہ بھی ان کی پالیسی کا اہم حصہ ہونا چاہیے، تاکہ سیاسی بحران، انتشار یا ناراضی کے جو معاملات ہیں ان کو ختم یا کم کیا جاسکے۔
(5) سول ملٹری تعلقات کابحران زیادہ سنگین ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کو ایک بہتر شکل دی جائے، اور اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی کرداروں کے درمیان راستہ نکالا جائے، اور یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ یہاں اسٹیبلشمنٹ سیاسی نظام کو چلنے نہیں دیتی۔ اس کی ایک عملی شکل یہ ہے کہ نیشنل سیکورٹی کونسل کی تشکیل ہونی چاہیے جہاں خارجہ پالیسی اور بالخصوص سیکورٹی کے معاملات پر اُس کا کردار مشاورت پر مبنی ہونا چاہیے۔ اسی طرح توجہ کا بنیادی مرکز نیشنل سیکورٹی پالیسی کو بنایا جائے، اور اس میں جو جیو معیشت، جیو تعلقات اورگورننس سے جڑے معاملات، بالخصوص بھارت سمیت علاقائی ممالک سے تعلقات کو فوقیت دی گئی ہے اس پر سیاسی اورعسکری اتفاقِ رائے سمیت عمل درآمد کا ترجیحی مؤثر نظام ہونا چاہیے۔
(6) ہماری عسکری قیادت کو یہ بات اچھی طرح سمجھنی چاہیے کہ ہمارا بحران سیاسی نہیں بلکہ ریاستی سطح کا ہے، اداروں کے درمیان ٹکرائو یا ایک دوسرے کے معاملات میں کی جانے والی مداخلتوں کے سبب ہم ادارہ سازی کے عمل کو کمزور کررہے ہیں۔ ہر ادارہ اگر اپنے سیاسی، انتظامی، آئینی اور قانونی دائرۂ کار میں رہ کر کام کرے تو درست سمت کا تعین ہوسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ رکھ سکے گی؟ اگرچہ فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم نے یہ بات اسی برس فروری میں طے کرلی تھی کہ فوج خود کو سیاسی معاملات سے علیحدہ رکھے گی۔ لیکن اس بات کی تردید ہمیں چودھری مونس الٰہی کے ایک انٹرویو میں سننے کو ملی جس میں اُن کے بقول ہمیں مارچ میں تحریک عدم اعتماد کے دوران جنرل باجوہ نے ہی تحریکِ انصاف کی حمایت کے لیے کہا تھا۔ اس لیے یہ کہنا آسان ہے کہ ہمارا سیاست میں اب کوئی کردار نہیں ہوگا، مگر عملی طور پر فوج خود کو کیسے سیاست سے دور رکھ سکے گی؟ یہ خود ایک بڑا سوال ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان فوری انتخابات کے حوالے سے جو بحث یا ٹکرائو نظر آرہا ہے اُس میں کیا اسٹیبلشمنٹ کوئی کردار ادا کرے گی؟کیونکہ جب اسٹیبلشمنٹ یہ کہتی ہے کہ ہمارا حکومتی تبدیلی میں کوئی کردار نہیں تو یہ ممکن بات نہیں لگتی کہ معاملات اس حد تک سیاسی تنہائی میں ہوئے ہیں۔ کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت ہو یا حزبِ اختلاف… دونوں ہی مسائل کے حل کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں یا اُس سے ہی مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو ہی مجبور کررہے ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر نئے انتخابات کا ماحول پیدا کرے، اسی طرح حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے رہی ہے کہ وہ خود عمران خان سے عملاً سیاسی طور پر نمٹنے کی کوشش کرے۔ اسحاق ڈار اور کچھ دیگر مسلم لیگی برملا کہتے ہیں کہ ہمیں حکومتی تبدیلی اور اقتدار کی منتقلی کی صورت میں کہا گیا تھا کہ ہم اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت کی پشت پر ہوں گے اور عمران خان سے نمٹنا بھی ہماری ذمہ داری ہوگی۔ اس تناظر میں اب نئے آرمی چیف پر ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سیاسی کھیل سے
خود کو دور رکھیں۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف… دونوں کو یہ واضح پیغام دیا جائے کہ اپنے سیاسی معاملات خود حل کریں اور ہمیں بلاوجہ مت الجھائیں۔ لوگوں میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں جو سخت ردعمل آیا ہے اُس کو اس تناظر میں دیکھا جائے کہ جب سیاسی معاملات میں ایک حد سے آگے بڑھ کر الجھا جائے گاتو اس کا ردعمل بھی سامنے آئے گا۔
ایک بات طے ہے کہ کوئی بھی سیاسی فریق یا ادارہ اکیلا ملک کے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ یہ عمل مختلف فریقوں کی مشترکہ کوششوں سے ہی جڑا ہوا ہے۔ اس لیے ہر ادارے کی اپنی اہمیت ہے اور ان کو ساتھ لے کر چلنے میں ہی ہماری بقا ہے۔ اسی طرح عسکری قیادت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلاوجہ خود کو میڈیا کے محاذ پر بھی ایسے معاملات میں نہ الجھائے یا ایسے لوگوں کے ساتھ خود فریق نہ بنے جو میڈیا میں موجود رہ کر سیاست کررہے ہیں یا سیاسی جماعتوں یا گروہوں کی معاونت میں پیش پیش ہیں۔ کیونکہ یہ افراد یا ادارے بھی بلاوجہ اداروں کو اپنی سیاست میں گھسیٹتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ ہمارے ادارے اپنے مخصوص ایجنڈے کی بنیاد پر میڈیا کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ متبادل آواز یا تنقید کے پہلوئوں کو مثبت اور تعمیری طور پر لیا جانا چاہیے، وگرنہ آزادیِ صحافت کے نام پر اداروں کو داخلی اور خارجی محاذ پر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیکورٹی کے تناظر میں فوج اور اس کے ادارے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے عناصر سے جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں، نمٹنے کے لیے طاقت کے استعمال کو آخری حربہ سمجھے، جبکہ پہلی اور بنیادی ترجیح ایسے لوگوں کے ساتھ مکالمہ، بات چیت اور دو طرفہ تعاون ہونا چاہیے۔ البتہ ایسے لوگ جو تنقید اور تضحیک کے فرق کو نظرانداز کرکے تضحیک کے پہلوئوں کو نمایاںکرتے ہیں اُن کی گرفت ہونی چاہیے۔ اس لیے فوجی قیادت کے سامنے داخلی، علاقائی اور عالمی مسائل کی بنیاد پر بہت سے چیلنج ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط حکمت عملی درکار ہے۔ لیکن جو تضاد اور تقسیم معاشرے میں موجود ہے اس سے نمٹے بغیر آگے کا راستہ مشکل ہوگا۔ اس لیے مسئلے کا حل محض ردعمل کی حکمت عملی نہیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر اور مسائل کے زیادہ گہرائی سے تجزیے کے بعد اتفاقِ رائے پر مبنی ایجنڈا درکار ہے، اور ایسا کرنا ہی ملکی مفاد میں ہوگا۔