حضرت عمرؓ کو خلافت سنبھالنے کے بعد یہ اطلاع ملی کہ لوگ ان کی سختی سے خوف زدہ ہیں، تو انہوں نے لوگوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی جس میں حمد و ثنا کے بعد فرمایا ’’مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ لوگ میری سختی سے خوف زدہ ہیں، اور میری درشتیِ طبع سے ڈرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ عمر اُس وقت بھی ہم پر سختی کرتا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے، اور اُس وقت بھی سختی کرتا تھا جب ابوبکرؓ ہمارے خلیفہ تھے، اب تو تمام اختیارات اس کے پاس چلے گئے ہیں، اب نہ جانے اس کی سختی کا کیا حال ہوگا۔
تو سن لیجیے کہ جس شخص نے بھی یہ بات کہی ہے اس نے سچ کہا ہے۔ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا تو آپؐ کا غلام اور خادم رہا، یہاں تک کہ آپؐ بحمداللہ مجھ سے راضی ہوکر دنیا سے تشریف لے گئے۔ اور اس معاملے میں مَیں تمام لوگوں سے زیادہ خوش قسمت ہوں۔ پھر ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالی تو میں اُن کا خادم اور مددگار رہا، میں اپنی سختی کو اُن کی نرمی کے ساتھ ملائے رکھتا تھا۔ اور اُس وقت تک ننگی تلوار بنا رہتا تھا جب تک وہ مجھے نیام میں نہ کردیں، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں بھی اس حال میں اٹھایا کہ بحمداللہ وہ مجھ سے راضی تھے، اور میں اس معاملے میں تمام لوگوں سے زیادہ خوش قسمت ہوں۔
اب مجھے تمہارے معاملات سونپے گئے ہیں، یاد رکھو کہ اب اس سختی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، لیکن یہ صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو مسلمان پر ظلم اور زیادتی روا رکھیں۔ رہے وہ لوگ جو دین دار، راست رو اور سلیم الفکر ہیں، میں اُن پر خود اُن سے زیادہ نرم ہوں، ہاں البتہ جو شخص کسی پر ظلم کرنا چاہے میں اُسے اُس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک اُس کا ایک رخسار زمین سے ملاکر اس کے دوسرے رخسار پر پائوں نہ رکھ دوں اور وہ حق کا اعلان نہ کردے۔
لوگو! تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمہاری اجتماعی آمدنی میں سے ایک حبہ تم سے نہ چھپائوں، اور تمہارا مجھ پر یہ حق ہے کہ میں تمہیں ہلاکت میں نہ ڈالوں، اور جب تم مسلمانوں کے کام کی وجہ سے گھر سے باہر ہو تو جب تک تم لوٹ نہ آئو، میں تمہارے بچوں کا باپ بنارہوں۔
یہ کلمات کہہ کر میں اپنے اور تمہارے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں‘‘۔
(مفتی محمد تقی عثمانی۔ تراشے)