مذہبی آزادی… امریکہ کا دہرا معیار

محسن انسانیت، مخبر صادق، حضرت محمدؐ کا ارشاد گرامی ہے ’’اَلْکُفْرُ ملَّۃ واحدہ‘‘۔ کافر ایک ملت ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ ہزار برس کی تاریخ اس ارشاد گرامی کی تصدیق و تائید سے بھری پڑی ہے۔ تازہ مثال اس ضمن میں یہ سامنے آئی ہے کہ یک محوری دنیا کے مدار مہام امریکہ کی وزارت خارجہ کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں ان ممالک کی فہرست شامل ہے جن میں مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس فہرست میں پاکستان کا نام تو شامل ہے مگر بھارت کا نام عنقا ہے، اسی طرح سعودی عرب اور ایران تو اس فہرست کا حصہ ہیں مگر اسرائیل کا پوری رپورٹ میں کہیں تذکرہ تک نہیں۔ ہم انکار نہیں کرتے پاکستان میں بھی مذہبی آزادیوں کے معیار کے منافی اکا دکا واقعات رونما ہو جاتے ہیں مگر یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اور ایسے واقعات کو یک طرفہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، ان میں عموماً غلط فہمی کا عنصر بھی نمایاں ہوتا ہے اور بعض اوقات فریق ثانی کی غلطی کو بھی خاصا دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھار سامنے آنے والے ایسے واقعات سے خود امریکہ اور مغربی دنیا کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں، اس لیے اگر پاکستان جیسا ملک جہاں غیر مسلم اقلیتوں کو مسلمان اکثریت سے زیادہ تحفظ اور حقوق حاصل ہیں، اس کا نام اگر مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک میں شامل ہو سکتا ہے تو خود امریکہ بہادر کا نام بھی اس سے باہر نہیں رکھا جانا چاہئے…!

امریکی وزیر خارجہ نے یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ جو ممالک مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہیں، پر امن اور خوش حال ہوتے ہیں ہم ان حقوق کی ہر ملک میں احتیاط سے نگرانی کرتے ہیں بجا ارشاد کہ آزادیوں اور انسانی حقوق کی پاسداری امن و خوش حالی کا سبب ہے مگر امن و ترقی کا یہ واحد سبب ہر گز نہیں اس کے بہت سے دیگر اسباب بھی اہمیت رکھتے ہیںاور پھر امن و خوش حالی اگر اسی کا نام ہے جو بھارت میں نظر آتی ہے تو ہمیں معاف رکھیں ہم اس کے بغیر ہی بھلے۔ امریکی وزیر موصوف نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ہم ان حقوق کی ہر ملک میں ’’احتیاط‘‘ سے نگرانی کرتے ہیں واہ کیا خوب احتیاط ہے کہ بھارت جہاں آئے روز مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے ان گنت واقعات رونما ہوتے ہیں ذرائع ابلاغ جن کی تفصیلات سے برے پڑے ہیں مگر امریکی محکمہ خارجہ نے اس قدر ’’احتیاط‘‘ سے نگرانی کی ہے کہ اسے بھارت میں مذہبی آزادی کی کوئی خلاف ورزی کہیں نظر نہیں آئی۔ حالانکہ اقوام متحدہ نامی عالمی ادارے نے ابھی کم و بیش تین ہفتے قبل جنیوا میں اپنے ایک جائزہ اجلاس میں بھارت میں انسانی حقوق کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں واضح الفاظ میں بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کی ناگفتہ بہ صورت حال کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے اس جائزہ اجلاس میں بحث کے دوران یہ حقائق نمایاں ہو کر سامنے آئے کہ بھارت میں متنازع انسداد دہشت گردی قانون (یو اے پی اے) کے غلط استعمال، مذہب کی بنیاد پر منفی امتیازی سلوک، مسلمانوں کے خلاف زیادتی اور جنسی تشدد کی شکایات عام ہیں، رکن ممالکت امریکہ، چین، سعودی عرب، نیپال، آسٹریلیا اور سوئٹزر لینڈ نے مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا، خود امریکہ جس کی وزارت خارجہ کی رپورٹ میں بھارت کو مذہبی آزادی سے متعلق نیک پاک قرار دیا گیا ہے، اس جائزہ اجلاس میں شریک اس کے سفیر شیل ٹیلر نے رائے دی کہ دہشت گردی کے قانون، یو اے پی اے اور اس طرح کے دیگر قوانین انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافیوں اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف وسیع پیمانے پر استعمال کئے جا رہے ہیں بھارت اس کی روک تھام کے لیے اقدامات کرے کیونکہ قانونی تحفظ حاصل ہونے کے باوجود بھارت میں صنفی اور مذہبی بنیادوں پر تفریق اور تشدد کا سلسلہ عروج پر ہے اور انسداد دہشت گردی قوانین کے ذریعے بلاوجہ لوگوں کو طویل عرصہ تک حراست میں رکھا جاتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ مذہبی آزادی سے متعلق رپورٹ میں بھارت کو نیک چلنی کا سرٹیفکیٹ دیئے جانے کے بارے میں ہم اگر عرض کریں گے تو شاید شکایت ہو گی کہ مسلمان ہونے کا تعصب بول رہا ہے مگر خود امریکہ کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے اپنی وزارت خارجہ کی جاری کردہ اس رپورٹ کو ناقابل فہم ہی قرار نہیں دیا بلکہ شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا ہے۔ کمیشن کی چیئرپرسن نوری ترکل نے اپنی وزارت خارجہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محکمہ خارجہ کی جانب سے بھارت کو مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی والے ملک کے طور پر تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں کیونکہ یہ واضح طور پر ایسے ممالک کے معیارات پر پورا اترتا ہے محکمہ خارجہ کے اس طرز عمل سے کمیشن کو سخت مایوسی ہوئی ہے وزیر خارجہ نے ہماری سفارشات پر عمل نہیں کیا اور مذہبی آزادی کی ان خلاف ورزیوں کی سنگینی کو نظر انداز کیا ہے جس کے ثبوت کمیشن اور محکمہ خارجہ دونوں کے پاس موجود ہیں۔ یہ بات پیش نظر رہنا چاہئے کہ امریکی کمیشن گزشتہ تین سال سے مسلسل سفارشات کر رہا ہے کہ بھارت کو مذہبی آزادی کے حوالے سے خاص تشویش والے ممالک میں شامل کیا جائے مگر امریکی وزارت خارجہ اپنے مخصوص مفادات اور رجحانات کے سبب ایسا کرنے سے گریزاں ہے جس سے بھارت میں انتہا پسند سوچ کے حامل وزیر اعظم نریندر مودی اور اس کے زیر سرپرستی کام کرنے والی آر ایس ایس اور ہندتوا کی علم بردار دوسری انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے جنہوں نے بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج ظلم و ستم کی انتہا کئے ہوئے ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کی اس رپورٹ سے متعلق پاکستانی حکومت کا طرز عمل بھی قابل فہم نہیں جو شاید امریکہ کے خوف سے مرعوب ہو کر اس رپورٹ کے بارے میں ’’ٹک ٹک دیدم۔ دم نہ کشیدم‘‘ کا رویہ اپنائے چپ سادھے بیٹھی ہے۔ ہم گزارش کریں گے کہ پاکستانی وزارت خارجہ نہ صرف اس امریکی رپورٹ کو واضح الفاظ میں مسترد کرنے کا اعلان کرے بلکہ امریکہ سے اس ضمن میں باضابطہ احتجاج بھی کیا جانا بھی لازم ہے…!!!

(حامد ریاض ڈوگر)