وہ اِک گھڑی جو…

سرکار، دربار اور اخبار ہی میں نہیں، پچھلے دنوں سات سمندر پار بھی ’گھڑی‘ کا بڑا چرچا رہا۔گھڑی کی اصطلاح نہ جانے کس نے گھڑی؟ مگر صاحب! جس نے بھی گھڑی، خوب گھڑی۔ کثیرالمعانی لفظ ہے۔ یوں تو قرار دینے والوں نے ایک گھنٹے کے دو بٹا پانچ حصے، یعنی چوبیس منٹ کو ’گھڑی‘ قرار دیا تھا۔ گویا دن اور رات کے چوبیس گھنٹوں کا ساٹھواں حصہ ’گھڑی‘ ٹھیرا۔ مگر اصطلاحاً گھڑی سے مراد وقت لیا جاتا ہے۔ زمانہ بھی، گھنٹہ بھی، موقع بھی اور لمحہ یا لحظہ بھی۔کسی ’گھنٹہ گھر‘ کی چوکھٹ پرغافل بیٹھ کرگھنٹے گھنٹے بھر بعد یہ شعر پڑھیے۔ غفلت دورکرنے کے لیے اکسیر ہے۔ پُرکھوں کا نسخہ ہے، کبھی آزما کر دیکھیے گا:

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گَردُوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی

چلیے،گھڑیال پرتو بعد میں بات کرلیں گے۔ فی الحال تو اقبالؔ کے زیرِ استعمال رہنے والی یہ دو قیمتی گھڑیاں ملاحظہ فرمائیے:

مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

لمحہ بھر یا لحظہ بھرچمک کر ڈوب جانے کی زندگی پانے پر ’’صبح کا ستارہ‘‘ اقبالؔ سے اپنی قسمت کا گلہ کرتا ہے:

نہ یہ خدمت، نہ یہ عزت، نہ یہ رفعت اچھی
اِس گھڑی بھر کے چمکنے سے تو ظلمت اچھی

نثر میں بھی اس طرح کے فقرے ملتے ہیں: ’’جس گھڑی بابا نے گھور کر دیکھا تو خوف کے مارے کاٹو تو بدن میں لہو نہ تھا‘‘۔

’’گھڑی بھر کو قرار نہ آنا‘‘ بھی ’لمحہ بھر‘ کے قرار کے معنوں میں آتا ہے۔ انتظار میں ’گھڑیاں گنی‘ جاتی ہیں۔ قریب المرگ شخص کو ’گھڑی بھر کا مہمان‘ بتایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ ’گھڑی میں تولہ، گھڑی میں ماشہ‘ ہوتے رہتے ہیں۔ اس محاورے سے مراد ’غیر مستقل مزاج‘ لوگ ہیں۔ بعض لوگ ذرا سی بات پر خوش اور ذرا سی بات پر غضب ناک ہوجاتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ’گھڑی میں اولیا، گھڑی میں بھوت‘ کہلاتے ہیں۔ زمانے کے معنوں میں بھی اقبالؔ ہی کا یہ شعر زباں زدِ خاص و عام ہوا:

یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

ہمارے ہاں وقت بتانے کے آلے کو بھی گھڑی کہا جاتا ہے۔ اس گھڑی کی کئی قسمیں ہیں۔ دھوپ گھڑی، آبی گھڑی، ریت گھڑی، دیوارگھڑی، میز کی گھڑی، جیب کی گھڑی اورکلائی کی گھڑی، وغیرہ وغیرہ۔ محفل میں بیٹھ کر بار بار کلائی کی گھڑی دیکھنا خلافِ تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ اگر کوئی نادان ایسا کرنے لگے تو کوئی نہ کوئی دانا اُس سے کانا پھوسی کرکے سمجھا دیتا ہے: ’’گھڑی گھڑی گھڑی مت دیکھو‘‘۔ دو بار ’گھڑی گھڑی‘ کہا جائے تو اس کا مطلب ’دم بہ دم، لحظہ بہ لحظہ بار بار‘ لیا جائے گا۔

گھڑی اگر غلط وقت بتانے لگے تو اس کا وقت ٹھیک کرنے کے لیے اسے صحیح وقت سے ملا لیا جاتا ہے۔ اس کو ’گھڑی درست کرنا‘ کہتے ہیں۔ درست کرنے پر بھی گھڑی درست نہ ہو، یا آپ کی گھڑی آپ کی کاری گری کی بدولت مزید خراب ہوجائے تو اسے ’گھڑی ساز‘ کے پاس لے جائیے۔ وہ ’گھڑی بھر‘ میں آپ کی ’گھڑی کی مرمت‘ کر ڈالے گا۔ ورنہ ریل کی پٹری پر ڈال آئیے۔ اگلے وقتوں میں ’گھڑی ملانے‘ یا ’گھڑی درست کرلینے‘ کا ایک آسان نسخہ بھی تھا۔ اُس زمانے کے بڑے لوگ وقت کے بڑے پابند تھے۔ ان کو آتے جاتے دیکھ کر لوگ اپنی گھڑیاں ملا لیا کرتے تھے۔ کیا ہی اچھا زمانہ تھا۔
مبارک، سعد اور اچھے لمحے کو ’سہانی گھڑی‘ کہا جاتا ہے۔ مگر جس لمحے آپ نے کوئی بُرا فیصلہ کر ڈالا اور اُس فیصلے کا بھگتان آپ نے اور پوری قوم نے بھگت ڈالا تو ایسا فیصلہ کرنے کے وقت کو ’منحوس گھڑی‘ کہا جاتا ہے۔ اپنے کیے پر پچھتانے والا دوسروں سے پوچھتا پھرتا ہے کہ ’’وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب میں نے یہ فیصلہ کیا تھا؟‘‘ کبھی کبھی ایسی ’گھڑی بھاری‘ بھی پڑ جاتی ہے۔ گھڑی بھاری ہونے کا ایک مفہوم تو’کٹھن وقت آجانا‘ ہے۔ دوسرا مفہوم ان ساعتوں کے گراں قدر اورقیمتی ہونے کا ہے۔ ’ساعت‘ بھی گھڑی ہی کو کہا جاتا ہے۔ ایک بار شبنمؔ رومانی نے اِن گنہگار آنکھوںکے سامنے اور اِن گنہگار کانوں کو سناتے ہوئے (جو اس شعر کو سننے کے گنہگار ہوئے) کراچی کے ایک مشاعرے میں علی الاعلان فرمایا تھا:

تمام عمر کی آوارگی پہ بھاری ہے
وہ اِک گھڑی جو تِری یاد میں گزاری ہے

مگر بعد کو شبنمؔ نے ’اِک گھڑی‘ کے الفاظ ’ایک شب‘ سے بدل دیے۔ یہ تبدیلی ہمیں خوش نہ آئی۔ وہی الفاظ اچھے لگے جو ان کے منہ سے پہلی بار سنے تھے۔ ہماری رائے میں ’اِک گھڑی‘ کے پوری عمر پر بھاری ہونے کا مبالغہ زیادہ بلیغ ہے۔ خیرآج شبنمؔ کی یہ غزل یاد آگئی ہے تو برسبیلِ تذکرہ اسی غزل کا ایک اور اچھا شعر ملاحظہ فرما لیجے۔ اس شعر کا ہمارے موضوع سے تو کوئی تعلق نہیں، مگر ’اُن‘ سے متعلق تو ہے نا:

مجھے یہ زَعم کہ میں حُسن کا مصور ہوں
اُنھیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے

بر سبیلِ تذکرہ یہ بھی نوٹ کر لیجے کہ ’زَعم‘ کے ’ز‘ پر زبر ہے۔

آئیے حسبِ وعدہ گھڑیال پر بھی بات کرلیں۔ یوں تو ـ’گھڑیال‘ مگرمچھ کو کہتے ہیں، اورآج کل گھنٹہ گھر کی گھڑی یا دیواری گھڑی کو بھی گھڑیال کہہ دیا جاتا ہے۔ صدر، کراچی کی ’گھڑیالی بلڈنگ‘ اپنے گھنٹہ گھر کی وجہ سے اس نام سے مشہور تھی، اب اس کی وجہِ شہرت اس عمارت میں پائی جانے والی بکثرت ہومیوپیتھک دواؤں کی دکانیں ہیں۔ مگر اصطلاحی گھڑیال دراصل وہ گھنٹہ تھا جو امرائے شہر کے یا مندروں کے دروازوں پر لٹکا رہتا اور ہر گھنٹے بعد اس پر چوٹ ماری جاتی، جس سے وقت یا پہر گزرنے کی اطلاع سب کو ہوجاتی۔ اُس زمانے میں ’گھڑیال کا کٹورا‘ بھی ہوتا تھا۔ وقت کا حساب کرنے کے لیے ایک کٹورے کے پیندے میں چھید کرکے پانی سے بھری ہوئی ناند میں چھوڑ دیا جاتا۔ کٹورا اتنا بڑا اور سوراخ ایسا ہوتا تھا کہ گھنٹے بھر میں پانی سے لبریز ہوکر ناند میں غرق ہوجاتا۔ اُس کی غرقابی کی خوشی میں گھڑیال بجادیا جاتا۔ حضرتِ ذوقؔ اسی ترکیب سے آسمان کو غرق کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ خیر گزری کہ صبر و ضبط سے کام لیا اور آسمان ڈوبنے سے بچ گیا، ورنہ حضرت تو ڈبو ہی چکے ہوتے:

نہ کرتا ضبط میں گریہ تو اے ذوقؔ اِک گھڑی بھر میں
کٹورے کی طرح گھڑیال کے، غرق آسماں ہوتا

گھڑیال بجانے والے کو بھی ’گھڑیالی‘ کہا جاتا تھا۔آناً فاناً موت کے لیے ہندی میں ایک محاورہ ہے ’’گھڑی میں گھڑیال‘‘۔ یہ اشارہ ہے اس طرف کہ ہندوؤں میں جب کوئی انتہائی طویل العمر مرد یا عورت مرجائے تو اس کی ارتھی جلانے کے لیے (غالباً مارے خوشی کے) گھڑیال بجاتے ہوئے شمشان گھاٹ لے جاتے ہیں۔گھڑیال بجانے سے گاؤں بھر کو اس قریب المرگ کی وفات کی اطلاع ہوجاتی ہے۔ تو اے گھڑی گھونٹ صاحبو! موت کسی بھی لمحے آسکتی ہے۔ آئے گی تو ’گھڑی میں گھڑیال‘ بجنے لگے گا۔