آزادکشمیر :بھارت کا اگلا ہدف؟

بھارت نے 5 اگست 2019ء کے بعد اپنے سیاسی کرتوت چھپانے کے لیے ایک جست آگے لگاکر آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو موضوع بنانا شروع کردیا ہے

بھارتی فوج کی شمالی کمانڈ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اوپندرا ڈیوڈی نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے احکامات ملتے ہی فوج آزادکشمیر حاصل کرنے کی طرف پیش قدمی کرے گی۔ فوجی کمانڈر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے کسی بھی وقت کنٹرول لائن پر سیز فائر ٹوٹ سکتا ہے مگر بھارتی فوج بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ اس سے کچھ ہی پہلے بھارت کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے بھی کشمیر کی سرزمین پر کھڑے ہوکر آزادکشمیر کو موضوع بحث بنایا تھا۔ راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ بھارت گلگت بلتستان کی طرف بڑھتا رہے گا۔ انہوں نے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام پر مظالم کا رونا بھی رویا تھا۔

بھارت کے فوجی حکام کی طرف سے آزادکشمیر کو مسلسل موضوع بحث بنانا گہری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ بھارت نے 5 اگست 2019ء کے بعد اپنے سیاسی کرتوت چھپانے کے لیے ایک جست آگے لگاکر آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو موضوع بنانا شروع کردیا ہے۔ یہ محض زبانی کلامی موضوع ہی نہیں بلکہ دہلی کے ایوانوں میں اس کے لیے منصوبہ بندی بھی تیز ہوگئی ہے۔ بھارتی فوجی حکام کی طرف سے کنٹرول لائن پر سیز فائر ختم ہونے کے خدشات ایسے موقع پر ظاہر کیے جارہے ہیں جب پاکستان کے عسکری اداروں میں قیادت کی تبدیلی ہورہی ہے۔ کشمیر سے دلچسپی رکھنے والے کئی دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگار مسلسل اس بات کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کرنے کے بعد اب آزادکشمیر بھارت کا اگلا ہدف ہے، اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ 5 اگست2019ء کے بعد بھارت نے تسلسل اور تواتر کے ساتھ آزادکشمیر کو حاصل کرنے اور چھیننے کی بات کرنا شروع کی ہے۔ گوکہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان اس قسم کی مہم جوئی خودکشی کے مترادف ہے، مگر ماضی کے آئینے میں دیکھیں تو بھارت کے لیے کشمیر کی شناخت ختم کرنا ناممکن اور ناقابلِ عمل فیصلہ دکھائی دیتا تھا۔ اس کی بہت سی ٹھوس وجوہات بھی تھیں جن میں پہلی وجہ تو یہ تھی کہ بھارت کو ایک سیکولر جمہوری اور کثیرالقومی اور کثیر المذہبی ملک سمجھا جاتا تھا، اور اس ڈھانچے کے اندر مختلف قوموں کو الگ شناخت کی تمام ضمانتیں بھارت کی جنگِ آزادی کے ہیروز نے دی تھیں۔ کشمیر کی الگ حیثیت بھی انھی میں شامل تھی۔ یہ شق بھارت کی دوسری اہم شخصیت پنڈت جواہر لعل نہرو نے کشمیر کے مقبول لیڈر شیخ عبداللہ کے ساتھ عہد و پیمان کے بعد بھارتی آئین میں دی تھی۔ اس کی دوسری وجہ یہ بیان کی جارہی تھی کہ کشمیر بین الاقوامی طور پر ایک متنازع مسئلہ ہے جس کو خود بھارت اقوام متحدہ میں لے کر گیا ہے، اور اقوام متحدہ میں اس کی متنازع حیثیت اب بھی بحال ہے۔ سو بھارت عالمی رائے عامہ کو نظرانداز کرتے ہوئے کشمیر کی حیثیت کو یک طرفہ طور پر چھیڑنے کی جرات نہیں کرسکے گا۔ پاکستان، چین اور مسلمان ملکوں کی طرف سے ردعمل کا ایک انجانا خوف بھی اس فیصلے کے نہ ہونے کا ایک جواز تھا۔ برسوں پہلے بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کی بات کو افسانہ اور دیوانے کی بڑ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بھارت میں ایک سخت گیر ہندو قیادت نے انہونی کو ہونی کر دکھایا۔ نریندرمودی جیسے انتہا پسند شخص نے نہ کشمیر کی متنازع حیثیت کی پروا کی، نہ عالمی اداروں کا روگ پالا، اور نہ پاکستان اور چین کی پروا کی۔ ایک روز سب منہ دیکھتے رہ گئے اور بھارت نے کشمیر کی شناخت ختم کردی، اور ایسا کرتے ہوئے انسانیت کے معیار اور تقدس کو بھی یوں پامال کیا کہ 80 ہزار لوگوں کو لاک ڈائون کرکے گھروں میں بند کردیا۔ ضمیر جاگنا تو دور کی بات ہے، دنیا کے ضمیر نے اس انسانیت سوز عمل پر معمولی سی جھرجھری بھی نہیں لی۔

اس قدم سے حوصلہ پاکر بھارت نے اگلے ہدف کے طور پر گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کو چُن لیا ہے۔ بھارت کی کسی سویلین یا فوجی شخصیت کا کشمیر کا دورہ ہو اور اس میں آزادکشمیر کو چھیننے اور چھڑانے کی بات نہ ہو، پانچ اگست کے بعد یہ ناممکن ہوکر رہ گیا ہے۔ نریندر مودی سے راجناتھ سنگھ تک تمام بھارتی حکمرانوں کی تقریریں ایسے ہی دعووں سے بھری ہوتی ہیں۔ یہ کشمیر کی الگ شناخت کے خاتمے کی طرح قطعی جذباتی، سیاسی یا انتخابی نعرے بازی نہیں بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنا ایک نیا ایجنڈا اور ہدف طے کررہی ہے اور اس کے لیے ذہن سازی کررہی ہے۔ مودی نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ہم کشمیر کو اتنا ترقی یافتہ بنائیں گے کہ پاکستانی کشمیر کے لوگ خود ہم سے ملنے کی تمنا کریں گے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی کشمیر شاخ کے صدر رویندر رینا نے کچھ ہی عرصہ قبل کنٹرول لائن پر ٹیٹوال کے قصبے میں وادی نیلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب اُن گھروں پر بھی بی جے پی کے جھنڈے لہراتے نظر آئیں گے۔ کچھ ہی دن پہلے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ بھارت کا اصل مقصد گلگت بلتستان کی طرف بڑھنا ہے۔

بھارت نے اپنے لیے آزادکشمیر کو ایک ہدف کے طور پر چُن لیا ہے۔ یہ الگ بات کہ بھارت کی اس مہم جوئی کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ بھارت کے ان عزائم کو ناکام بنانے کا ایک اہم راستہ چین اور پاکستان کا اسٹرے ٹیجک تعاون ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک ایسا دفاعی تعاون کہ کسی ایک ملک پر جارحیت کو دوسرے ملک پر حملہ سمجھا جائے۔ بھارت میں اس کو دو محاذوں کی جنگ کہا جاتا ہے اور اس پر اُن کی تیاریاں بھی جاری ہیں۔ امریکہ تعاون کی اس پرت کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یعنی چین اور بھارت کی جنگ ہو یا پاکستان اور بھارت کی، اس میں کسی تیسرے ملک کو دخل اندازی نہ کرنے کردی جائے۔ ہر دو صورتوں میں جنگ کا پانسہ چین اور پاکستان کی طرف پلٹ سکتا ہے۔ مغرب اس وقت پاکستان اور چین کے درمیان اس باریک اور نادیدہ تعلق کو توڑنا چاہتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ بھارتی دانشور پروین ساہنی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ بھارت اور چین کی جنگ کی صورت میں چین 72 گھنٹوں میں بھارتی فوج کی چین آف کمانڈ کو توڑ کر منتشر کرسکتا ہے۔ یہ معتدل اور متوازن سوچ رکھنے والے بھارتی دفاعی ماہر کی طرف سے کی جانے والی ایک بہت بڑی بات ہے، اور اگر اس میں پاکستان بھی شامل ہوجائے تو پھر کیا منظر اُبھرے گا اس کا تصور مشکل نہیں۔

اس وقت امریکہ کشمیر پر کچھ نیم دلانہ قسم کی سفارت کاری اور کچھ مبہم اشارات اور بیانات کے ذریعے پاکستانیوں کا دل خوش کررہا ہے، جبکہ حقیقت میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو کسی مشکل میں عملی مدد ملنے کا امکان صفر سے بھی کم ہے۔