یہ مغرب کا وہ چہرہ ہے جو شاید آج اتنا نمایاں نہیں جتنا کہ کل یعنی مستقبل میں ہوگا
مغرب کی جدید سیکولر تہذیب کا ایک بڑا نعرہ عورت کی آزادی اور حقوقِ نسواں ہے۔ مغرب یہ سمجھتا ہے کہ عورت کو اس کے حقوق جو کہ مغرب کی نظر میں غصب کرلیے گئے ہیں، جب تک نہ دلوائے جائیں گے معاشرے کی ترقی اور صحت بہتر نہیں ہوگی۔ اس مقصد کے لیے مغرب نے حقوقِ نسواں کی تحاریک دنیا بھر میں برپا کروائیں اور عورت کو یہ احساس دلوایا کہ مغرب کی گود میں ہی عورت کے حقوق کا تحفظ ہے، اور اس تحفظ کو ایک نیا نام ”اعلیٰ ترین معیارِ زندگی“ کا بھی دیا گیا.. ایک ایسی دنیا کا تصور جہاں کوئی پریشانی، بھوک، غربت، دکھ اور غم نہ ہو۔ یہ مغرب کا ایک ایسا نعرہ ہے جس پر اِس وقت پوری دنیا میں حقوقِ نسواں کی تحاریک برپا ہیں، اور ان کا بنیادی مقصد عورت کو دکھ اور پریشانی سے نجات دلوانا ہے جس میں وہ مغرب کی نظر میں پوری دنیا میں مبتلا ہے۔ اس سُکھ، آزادی اور عورت کے حقوق کے لیے مغرب کی عورت کو بطور مثال جا بہ جا پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن کیا مغرب میں واقعی ایسی صورتِ حال ہے کہ جہاں مغرب کی نظر میں عورت کو تقریباً تمام حقوق حاصل ہیں؟اس سوال کا جواب خود مغرب ہی دے رہا ہے۔
گزشتہ دنوں برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن اور سٹن ٹرسٹ نے نوجوانوں کی نفسیاتی صحت کے حوالے سے ایک سروے کیا جس میں 13 ہزار سے زائد نوعمر افراد سے معلومات حاصل کی گئیں۔ اس سروے کے نتائج نہ صرف حیرت انگیز ہیں بلکہ مغرب کے مستقبل کی پیش بندی بھی کررہے ہیں۔ سروے کے نتائج کے مطابق نصف سے زائد نوعمر لڑکیاں ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔ ایک چوتھائی یعنی 25 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے نفسیاتی مسائل کے باعث خود پر تشدد کیا۔ 54 فیصد لڑکیاں شدید نوعیت کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں۔ 11 فیصد نے بتایا کہ سالِ گزشتہ انہوں نے خودکشی کی کوشش کی ہے۔ اس تحقیق میں لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان بھی ایک دلچسپ موازنہ موجود ہے۔ لڑکوں میں خود پر تشدد کی شرح 11 فیصد اور خودکشی کی کوشش کی شرح 5 فیصد ہے، یعنی لڑکیوں کے مقابلے میں نصف ہے۔ تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ خود پر تشدد کرنے والوں کی اکثریت کا تعلق طبقہ امراء سے تھا۔ اور جن کے والدین کی آمدن نسبتاً کم ہے اُن میں یہ رجحان بھی کم پایا گیا۔ سٹن ٹرسٹ کے چیئرمین کے مطابق تقریباً 44 فیصد نوجوان اِس وقت شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، جبکہ سال 2017ء میں یہ شرح 35 فیصد اور سال 2007ء میں 23 فیصد تھی۔ سال 2021ء میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق نوعمر لڑکے لڑکیوں میں خود پر تشدد کی شرح میں 6 سال کے عرصے میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔
مغرب اپنی تمام تر مادی ترقی، حقوق، آزادیِ اظہارِ رائے اور سوشل سیکورٹی کے باوجود بھی انسان کی زندگی میں سکون نہیں لا سکا ہے
سٹن ٹرسٹ اور یونیورسٹی کالج لندن کی اس رپورٹ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کیا یہ نفسیاتی مسائل محض کورونا کی وبا کی وجہ سے ہیں، یا ان میں اضافے کی وجہ کورونا ہے؟ لیکن محققین نے اس کو نوجوان نسل میں ایک بڑھتا ہوا رجحان قرار دیا اور محض کورونا اس میں اضافے کی وجہ نہیں بلکہ نوجوان نسل میں خود پر تشدد اور خودکشی کے رجحانات میں اضافے کو شدید تشویشناک قرار دیا ہے۔
یہ مغرب کا وہ چہرہ ہے جو شاید آج اتنا نمایاں نہیں جتنا کہ کل یعنی مستقبل میں ہوگا، کیونکہ جب یہ نوعمر نسل موجودہ نسل کی جگہ پر کاروبارِ زندگی سنبھالے گی تو اس کے اصل اثرات تب نظر آنا شروع ہوں گے۔ اس کا خوفناک اثر مغرب پر ظاہر ہونا شروع ہوچکا، اور مغرب کے مستقبل کے حوالے سے اب ان کے مفکرین شدید پریشان ہیں، کیونکہ حکومتی اقدامات کے باوجود مغرب میں نفسیاتی مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہے ہیں اور اس وقت مغرب کی آزاد عورت.. جوکہ حقوقِ نسواں کا رول ماڈل ہے.. شدید نفسیاتی عوارض کا شکار ہے۔ ایک عورت کے نفسیاتی بیمار ہونے کا مطلب ہے ایک خاندان کی ذہنی صحت پر شدید قسم کے اثرات کا مرتب ہونا۔ مغرب اپنی تمام تر مادی ترقی، حقوق، آزادیِ اظہارِ رائے اور سوشل سیکورٹی کے باوجود بھی انسان کی زندگی میں سکون نہیں لا سکا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ وہ عورت.. جس کے حقوق اور بہتر زندگی کا راگ مغرب پوری دنیا میں الاپ رہا ہے.. خود آج مغرب میں جس کرب میں مبتلا ہے اس کا اندازہ خود مغرب کو بھی نہیں ہے۔ یہ محض اعداد و شمار سے مزین ایک رپورٹ نہیں بلکہ بین السطور مغرب کی ناکامی کا اعلان ہے کہ وہ مادی ترقی کے گرداب میں پھنس کر انسان کی روحانی ضروریات سے غافل ہوگیا، اور اس کا نتیجہ روز ایک نئی تباہی کی صورت میں مغرب میں ظہور پذیر ہورہا ہے۔ مغرب کے مفکرین خود مغرب کے ڈھلوان پر ہونے کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ مغرب کا یہ زوال محض سرمایہ دارانہ نظام کا زوال نہیں بلکہ پوری مغربی تہذیب کا زوال ہے۔ مغرب کا سماج آج اپنے مسائل کے حل کے لیے خود دوسری جانب دیکھ رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے نظری جواب کے حامل کوئی ایک ٹھوس معاشرتی مثال کو بطور ریاست پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ مغرب کا زوال تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے لیکن پریشان حآل انسانیت کو ایک نئے نظام اور تہذیب و تمدن کی تلاش ہے جو عورت سے لے کر مرد تک کو اس دکھ سے آزاد کرسکے۔ عمل کی اس دنیا میں جو نظری کے ساتھ عملی مثال بھی پیش کرے گی مستقبل یقیناً اُس تہذیب کا ہی ہوگا۔