شمالی امریکہ میں مسلمانوں کی تنظیم دعوت دین کی تاریخ
قارئینِ گرامی! جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہورہا ہے، ہمارا آج کا کالم ذرا غیر روایتی و غیر سیاسی نوعیت کا ہے۔ یہ شمالی امریکہ کے اُن سخت جانوں کے بارے میں ہے جنھوں نے اقامتِ دین کی جدوجہد کے ذریعے حصولِ خوشنودیِ رب کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ اپنی کاوشوں کو صحیح سمت میں رکھنے کے لیے دستور میں یہ بات بھی صراحت سے درج کردی گئی کہ سارا کام قرآن و سنت کے مطابق ہوگا۔ یعنی:
٭تمام سرگرمیاں کھلے عام، شفاف اور قانون کے مطابق ہوں گی۔
٭نصب العین کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال، دھوکہ دہی، جھوٹ، جبر اور خفیہ و غیر قانونی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
٭جماعت کا نظام مشاورت سے چلے گا اور ہر سطح کی قیادت کو شفاف طریقے پر منتخب کیا جائے گا۔
٭ناگزیری کی قباحتوں سے بچنے کے لیے کسی فرد کا ایک منصب پر لگاتار دو مدت سے زیادہ رہنا ممکن نہیں۔
٭مالی معاملات کو شفاف رکھنے کے لیے آزاد و غیر جانب دار آڈیٹر کی رپورٹ ایک لفظ، حرف اور ہندسے کی تبدیلی کے بغیر ارکانِ جماعت کو پیش کی جاتی ہے۔
٭مالیات کا ایسا ہی نظام ذیلی اداروں کے لیے بھی ہے۔
اسلامی تحریک یہاں ارتقائی مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے۔ امریکی جامعات میں مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (MSA)بہت عرصے سے سرگرم تھی۔ پاکستان کی اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ افراد جب اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ اور کینیڈا آئے تو وہ ایم ایس اے کا دست و بازو بن گئے، ساتھ ہی جمعیت کا حلقہ احباب قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر انیس احمد اور ڈاکٹر طلعت سلطان اس حلقے کی باری باری سربراہی فرماتے رہے۔ اس دوران مانٹریال (کینیڈا) میں سابقینِ جمعیت نے اپنی اصلاح کے لیے مطالعے کا نظام قائم کیا جسے اسلامی اسٹڈی سرکل کا نام دیا گیا جو ”حلقہ“ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ سلسلہ 1968ء سے 1977ء تک اسی طرح چلتا رہا۔ امریکہ کا حلقہ احباب اور کینیڈا کا حلقہ زیرتعلیم سابقین جمعیت پر مشتمل تھا۔ ان طلبہ کی اکثریت نے تعلیم کے اختتام پر وطن واپس جانے کے بجائے امریکہ میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ نوجوان تارکینِ وطن کی تعداد میں 1971ء کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا اور 1977ء میں حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (ICNA)کا قیام عمل میں آیا۔ شمالی امریکہ سے مراد ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا ہے۔
تنظیم کے قیام کے بعد بھی کچھ عرصے تک اس کا انداز حلقے والا رہا، یعنی تمام سرگرمیاں اردو میں۔ چار پانچ سال بعد جناب ظہیر الدین کے دورِ امارت میں تمام مرکزی پروگرامات انگریزی میں شروع ہوئے لیکن خواتین کے اکثر پروگرامات اب بھی اردو میں ہوتے ہیں۔
اکنا امریکہ کی مرکزی تحریک ہے لیکن عرب، افریقی، بنگلہ دیشی، ترک، ہند چینی (ملائشیا انڈونیشیا اور برونائی) اور چینی مسلمانوں نے علیحدہ تنظیمیں بھی قائم کی ہوئی ہیں۔ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد نہیں بلکہ ثقافتی تنوع کی بنا پر علیحدہ سرگرمیاں ضروری ہیں۔ مختلف مسلم ممالک اور بڑی مسلم آبادی والے ممالک جیسے ہندوستان سے اب پورے کے پورے خاندان امریکہ منتقل ہورہے ہیں اور معمر لوگوں اور گھریلو خواتین کے لیے انگریزی سیکھنا ممکن نہیں، چنانچہ مقامی زبانوں میں سرگرمیاں ضروری ہیں۔ بنگلہ دیش، مصر، شام، چین اور کئی دوسرے ممالک کی حکومتیں اسلامی تحریکوں کے بارے میں معاندانہ رویہ رکھتی ہیں، اور موذیوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے بھی یہ ضروری ہے۔
نائن الیون سانحے کے بعد دوسری اسلامی تنظیموں کی طرح اکنا بھی ”نظرِ کرم“ کا شکار ہوئی لیکن شفاف مالیاتی نظام، تحریری دستور اور اجتماعات کی دستاویزی روداد کی بنا پر حاسدوں کی چالیں ناکام رہیں۔ یہاں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات تو محض اسباب تھے۔ اکنا کے خلاف چالیں اُس نے ناکام بنائی ہیں کہ جس کی چالوں کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ شفافیت کو مزید موثر بنانے کے لیے 2005ء میں کینیڈا کی شاخ کو اکنا سے علیحدہ کردیا گیا۔ امریکہ اور کینیڈا کے قوانین کے فرق اور ان کی تشریح میں ممکنہ ابہام سے بچنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا۔ اب اکنا کینیڈا ایک علیحدہ تنظیم کے طور پر کام کررہی ہے جس کا اکنا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں، لیکن نظریاتی ہم آہنگی اور اخلاص پر مبنی تعلقات کی گرم جوشی برقرار ہے۔
اکنا نے اپنی سرگرمیوں کو متنوع، مربوط اور موثر بنانے کے لیے کئی ذیلی ادارے قائم کیے ہیں۔ یہ ادارے مرکزی مجلس شوریٰ کی جانب سے طے کردہ اہداف اور طریقہ کار کے مطابق کام کرتے ہیں، تاہم اکثر اداروں کے آزاد ایگزیکٹو بورڈ ہیں۔
خدمتِ خلق کے لیے ہیلپنگ ہینڈ (Helping Hand) امریکہ سے باہر سرگرم ہے، دنیا کے 85 ممالک میں ہیلپنگ ہینڈ کا نظم قائم ہے۔ شامی مہاجرین کی دیکھ بھال لبنان، اردن اور ترکیہ میں قائم کیمپوں سے ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کے لیے اقوام متحدہ سے منظور شدہ تنظیموں کے تعاون سے خدمتِ خلق کا کام جاری ہے۔ پاکستان کے سیلاب زدگان کو ہیلپنگ ہینڈ نے ابتدا میں ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کی۔ اب بے گھر افراد کی آبادکاری کے لیے مکانات تعمیر کیے جارہے ہیں۔
اکنا ریلیف امریکہ میں خدمتِ خلق کے علاوہ قدرتی آفات کے دوران مدد فراہم کرتی ہے۔ ہنگامی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے امریکی حکومت نے فیڈرل ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی (FEMA)کے نام سے ایک ادارہ قیام کیا ہے۔ اکنا ریلیف ”فیما“ کی فہرست کا حصہ ہے اور کئی مواقع پر اکنا ریلیف کی خدمات کو وفاقی سطح پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ اکنا ریلیف کا بڑا کارنامہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے مختلف شہروں میں شیلٹر ہومز کی تعمیر ہے۔ اِن گھروں میں اُن بے سہارا خواتین کو طعام و قیام کے علاوہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ جیل سے رہا ہونے والی خواتین بھی مستقل انتظام سے قبل شیلٹر ہوم میں قیام کرتی ہیں۔ شیلٹر ہوم میں رہائش کے لیے مسلم و غیر مسلم سب کے حقوق یکساں ہیں۔
غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا کام Why Islam کے ذمے ہے جو فون کے ذریعے اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان لائنوں پر انگریزی کے علاوہ ہسپانوی زبان میں بھی گفتگو ہوسکتی ہے۔ وائی اسلام نے امریکہ کی بڑی بڑی شاہراہوں پر اسلام کے پیغام پر مشتمل بل بورڈز بھی نصب کیے ہیں۔
مختلف مساجد، پارکوں، لائبریریوں اور دوسرے عوامی مقامات پر دعوت کے لیے open houseکا اہتمام کیا جاتا ہے، یہ سرگرمیاں gain peaceکے بینر تلے ہوتی ہیں جو ایک کُل وقتی ادارہ ہے۔
گزشتہ چند سالوں سے نومسلموں کو ملّی دھارے میں لانے کے لیے Embraceکے نام سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اسلام قبول کرنے والے افراد خود کو نومسلم کے بجائے revertsیا واپس آنے والے کہتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اللہ نے انھیں مسلمان پیدا کیا تھا لیکن وہ راستہ بھول گئے، اور اب ان کے رب نے انھیں فطری عقیدے کی طرف لوٹا دیا ہے۔ کل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک صاحب نے بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ جب اسلام قبول کیا تو بلانوش ہونے کی بنا پر میری سب سے بڑی آزمائش ترکِ شراب تھی۔ میں نے شراب ایک دم چھوڑنے کے بجائے اس سے بتدریج نجات حاصل کی۔ پہلے مرحلے پر میں نے گیہوں کی شراب (Beer)کے بجائے شیمپین پینی شروع کردی۔ شیمپین مہنگی ہے اس لیے مقدار کم ہوگئی۔ مزید کمی نماز کے اوقات سے آگئی کہ میں نشے کی حالت میں نماز کیسے پڑھتا؟ بعد عشا ہی کو یہ شوق پورا ہوسکتا تھا۔ کچھ دن بعد شروع ہونے والے رمضان نے رات کو بھی شراب نوشی ناممکن کردی۔ الحمدللہ
نوجوانوں میں کام کے لیے Young Muslim Brothersاور Youg Muslim Sisters سرگرم ہیں۔ کونسل برائے سماجی انصاف خصوصی (CSJ)عدل و مساوات اور شہری حقوق کے تحفظ کا کام کرتی ہے۔ حقوق کی آگاہی کے لیے سیمینارز اور ورکشاپس کے ساتھ انصاف کی فراہمی اور مظلوموں کی عدالتوں کے ذریعے دادرسی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اکنا نے کام میں آسانی کے لیے امریکہ کو چار زون میں تقسیم کیا ہے۔ حالیہ کنونشن کا اہتمام جنوب وسطی (South Central) زون کی طرف سے کیا گیا تھا۔ یہ زون ٹیکساس (Texas)، لوزیانا(Louisiana)، اوکلاہوما(Oklahoma) اور آرکنساس (Arkansas)ریاستوں پرمشتمل ہے۔ یہ چاروں ریاستیں ریپبلکن پارٹی کے مضبوط گڑھ ہیں اور یہاں قدامت پسندوں کی اکثریت ہے۔ ان چار ریاستوں سے منتخب ہونے والے تمام کے تمام آٹھوں سینیٹرز کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے، جبکہ ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کے مجموعی 13 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 38ہے۔
گزشتہ صدی کی نویں دہائی تک ہم جنس پرستی المعروف LGBT، اسقاط (میرا جسم میری مرضی)، اسکولوں میں عبادت کی اجازت، سرکاری نصاب کی تطہیر وغیرہ کے معاملے پر قدامت پسند اور مسلمان ہم خیال تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے 1984ء میں رونالڈ ریگن، 1988ء میں جارج بش اور 2000ء میں جارج بش جونیئر کی حمایت کی، لیکن نائن الیون کے بعد صورتِ حال بالکل بدل گئی اور ریپبلکن پارٹی کے قدامت پسند کھل کر مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہوگئے، حتیٰ کہ 2016ء کی انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگادیں گے۔
دلچسپ بات کہ جب صدر ٹرمپ نے انتخابی وعدہ وفا کرتے ہوئے 2017ء میں مسلمانوں پر پابندی کا صدارتی حکم جاری کیا، اُس وقت مسلمانوں کی حمایت میں سب سے پُرجوش آواز LGBT افراد کی تھی۔ اسقاط کی حامی خواتین بھی اس مہم میں پیش پیش تھیں۔ اِس وقت بھی فرانس میں حجاب پر پابندی کے خلاف LGBTافراد سرگرم ہیں۔
اس علاقے میں خواتین سمیت اکنا کے ارکان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے، جو زیادہ تر ہیوسٹن اور ٹیکساس کے دوسرے بڑے شہر ڈیلس (Dallas) کے رہائشی ہیں۔ ٹیکساس انتہائی پھلتا پھولتا علاقہ ہے۔ یہ امریکہ کی واحد ریاست ہے جہاں تنخواہوں سے ریاستی ٹیکس نہیں کاٹا جاتا۔ اسی بنا پر امریکہ کے دوسرے علاقوں سے کئی کارپوریشنیں اپنے صدر دفاتر اور کارخانے ٹیکساس منتقل کررہی ہیں۔ حال ہی میں ٹویٹر فیم ایلون مسک برقی کار بنانے والے ادارے ٹیسلا کا صدر دفتر یہاں لے آئے ہیں۔ کاروبار کے ساتھ دوسری ریاستوں سے افراد بھی یہاں کی رہائش اختیار کررہے ہیں۔ گزشتہ دس سال کے دوران ٹیکساس کی آبادی ڈھائی کروڑ سے بڑھ کر 2 کروڑ 91 لاکھ ہوگئی جس کی وجہ سے کانگریس کے لیے ٹیکساس کی نشستوں میں دو کا اضافہ ہوگیا۔
نومبر کی آخری جمعرات کو شکر گزاری (Thanksgiving)کا تہوار منایا جاتاہے، اور جمعرات سے اتوار تک تعطیل رہتی ہے، چنانچہ تین روزہ کنونشن کا آغاز 25 نومبر کو نماز جمعہ کے ساتھ ہوا۔ ہفتہ اور اتوار کو فجر کی نماز کے بعد تذکیر کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ بیٹھک ہیوسٹن کے میریٹ ہوٹل میں جمی جہاں خواتین سمیت چار ہزار کے قریب افراد نے شرکت کی۔ کنونشن کا مرکزی خیال یا theme ”عادلانہ معاشرے کی تشکیل“ تھا۔ سارے امریکہ سے آئے مقررین نے دنیا بھر میں مسلم اُمّہ اور انسانیت کو درپیش مصائب، امریکہ کی مسلم امت کے مسائل، مسلم معاشرے کے قیام اور اقامتِ دین کی اہمیت اور اس کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی۔
طوالت کے خوف سے تمام مقررین کی تقاریر کا خلاصہ پیش کرنا یہاں ممکن نہیں، تاہم امریکہ کے مشہور عالم دین اور شعلہ بیان مقرر امام سراج وہاج کی تقریر نے دلوں کو خوب گرمایا۔ انھوں نے حاضرین سے پوچھا کہ یہاں پیدائشی مسلمان کتنے ہیں؟ حسبِ توقع وہاں موجود تقریباً ہر شخص نے ہاتھ اٹھادیا۔ اس کے بعد انھوں نے دریافت کیا کہ یہاں revertsکتنے ہیں؟ تو مقرر سمیت چار پانچ ہاتھ بلند ہوئے۔ سراج وہاج نے دلگیر لہجے میں کہا: ”دوستو! جب ہزاروں پیدائشی مسلمانوں کے مجمعے میں گنتی کے reverts بیٹھے ہوں تو ایک عادلانہ معاشرہ کیسے قائم ہوگا! دعوت، اقامتِ دین کا پہلا مرحلہ ہے اور اس کام میں ہم کتنے سنجیدہ ہیں اِس کا اندازہ اس برادری میں واپس آنے والوں کی تعداد دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ ہر مسلمان کم ازکم ایک شخص تک تو دعوت پہنچائے۔ “
امام صاحب نے کہا کہ ”نبیِ مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار قسم کھاکر کہا تھا کہ وہ شخص مومن نہیں جس کے شر سے اُس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ ذرا دیکھیے آپ کے گھر میں چھوٹے بچے بھی پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت اور ذکرِ رسولؐ سے آپ کا گھر جگمگا رہا ہے، لیکن چار انچ کی دیوار کے دوسری جانب آپ کا پڑوسی ہدایت سے محروم ہے۔ حق تلفی بھی شر کی ہی ایک شکل ہے۔ دعوت سے پہلوتہی کرکے ہم اپنے پڑوسیوں کو اُن کے حق سے محروم کررہے ہیں۔ دوستو! ہمسائیگی کا حق ادا کرو کہ یہ اللہ کے آخری نبیؐ کا حکم ہے۔“
………………..
اب آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔