سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے واضح طور پر ’’ڈیفالٹ‘‘ کا اشارہ دے دیا
حالیہ سیلاب کی تباہی سے متاثر ہونے والے شہریوں کا پرسانِ حال کون ہے؟ ان کی بہت بڑی تعداد پانچ چھ ماہ بعد اب سردی کا موسم شروع ہوجانے پر انسانی بدانتظامی کا سامنا کررہی ہے۔ حکومتوں نے پہلے انہیں ریسکیو کرنے میں تاخیر کی، اس کے بعد ریلیف کا کام تاخیر سے شروع کیا، اور اب بحالی کا عمل سست روی کا شکار ہے، جس کے باعث متاثرہ علاقوں اور شہریوں کی بحالی کے منصوبوں پر آنے والی لاگت میں غیرمعمولی اضافہ ہوتا جارہا ہے جو ایک اندازے کے مطابق51 فی صد تک بڑھ گیا ہے۔ پاکستان نے اس باب میں عالمی مالیاتی اداروں، قرض دینے والے شراکت داروں اور ڈونر اداروں سے مدد کی اپیل کی ہے جس کے باعث حکومت کو اگلے تین سال میں تقریباً 13ارب ڈالر حاصل ہونے کی امید اور توقع ہے۔ یہ تخمینہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشاورت سے لگایا گیا ہے جس کے تحت پاکستان کو تقریباً10 ارب ڈالر امداد کی فوری ضرورت ہے، جس میں سے 7 ارب 9 کروڑ ڈالر سندھ، اور باقی رقم بلوچستان کو ملے گی۔
یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیںکہ پاکستان اس وقت بدترین معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے، ملک میں افراطِ زر کی شرح بلندیوں کو چھو رہی ہے، جب کہ زرِمبادلہ کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہورہے ہیں اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملک کے ڈیفالٹ کی طرف جانے کا واضح اشارہ دیا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت سے بجا طور پر یہ پوچھا جانا چاہیے کہ وہ جس ایجنڈے پر حکومت میں آئی تھی، وہ ایجنڈا کدھر ہے؟ ملک میں خطِ غربت سے نیچے جانے والے افراد کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عام آدمی کا جینا محال کردیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کرکے کاروباری سرگرمیوں کو مزید منجمد کردیا ہے۔ توقع تھی کہ ڈالر کی قیمت کم ہوگی، مگر نہیں ہوئی۔ اس کی ایک وجہ ہے، حکومت تمام سرکاری اور کاروباری حضرات کے اثاثے چیک کرے، گھروں میں چھاپے مارے تو وہاں سے اربوں مالیت کے ڈالر مل سکتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے غیر ضروری طور پر منافع کی خاطر ڈالر خرید رکھے ہیں، مگر ابھی تک حکومت کی طرف سے معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے سنجیدہ اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہے۔ شہباز حکومت کے پاس کوئی ترپ کا پتا نہیں جو وہ کھیل سکے۔ نوازشریف اگر اب واپس بھی آجائیں تو صورتِ حال کو سنبھال نہیں پائیں گے۔ سیاست دانوں کو اس طرح بے دست و پا کرکے جس طرح مداخلت نہ کرنے کا اب اعلان کیا گیا ہے، بہتر ہوتا ایسے لوگ کٹہرے میں کھڑے کیے جاتے جنہوں نے سیاست دانوں کو دھرنوں اور کنٹینرز کی راہ دکھاکر ملک کے حالات خراب کیے اور جنہوں نے ایسے سیاست دانوں کا ساتھ دیا۔
اس ملک کا دوسرا بڑا المیہ آئی ایم ایف سے معاہدے ہیں، جن کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ پاکستان نے 2019ء میں عمران خان حکومت کے دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج شروع کیا تھا جس کی نویں قسط تاحال موصول نہیں ہوسکی جو پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے اس لیے بھی اہم اور ضروری ہے کہ اس کی مدد سے ہمارا ادائیگیوں کا توازن برقرار رہے۔ حکومتی معاشی ٹیم اس ضمن میں پالیسی بنا کر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ایک مربوط پروگرام تشکیل دینا چاہتی ہے اور یہ بیرونی قرضوں سے چھٹکارا پانے کا بھی ایک بہترین موقع ہے۔
قومی معیشت پچھلے کئی برسوں سے مختلف مقامی اور بین الاقوامی اسباب کی بنا پر جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے،اس کے باعث مہنگائی و بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن صورتِ حال میں جلد بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ ان اسباب میں کورونا کی عالمی وبا کے بعد روس یوکرین جنگ، پیٹرول اور گیس کا بحران اور پھر پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کے اثرات، نیز سیاسی افراتفری خاص طور پر اہم ہیں۔مروجہ سرمایہ دارانہ معاشی نظام میں شرحِ سود کو معاشی کنٹرول کا آلہ تصور کیا جاتا ہے۔مہنگائی بڑھ رہی ہو تو شرحِ سود بڑھا کر مہنگائی میں کمی کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن اس سے معاشی سرگرمی میں بھی کمی واقع ہوتی ہے جس سے قومی پیداوار گھٹتی اور کساد بازاری و بے روزگاری بڑھتی ہے۔ حالات نے ہماری قومی معیشت کو اسی کیفیت سے دوچار کررکھا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں غیر متوقع طور پر شرح سود15 سے بڑھا کر 16 فی صد کردی ہے، یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ مہنگائی کا دبائو بڑھ رہا ہے، یہ دبائو اگلے سال بھی جاری رہ سکتا ہے۔ امسال درآمدات 20.6،برآمدات 9.8،جبکہ ترسیلاتِ زر 9.9ارب ڈالر رہیں، رواں مالی سال کے ابتدائی چار مہینوں میں جاری کھاتے کا خسارہ کم ہو کر 2.8 ارب ڈالر پر آ گیا،رواں مالی سال شرح نمو 2فیصد جبکہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جی ڈی پی کے تقریباً 3 فیصد رہنے کی توقع ہے،اوسط مہنگائی 21 سے 23 فیصد رہنے کا امکان ہے،بیرونی کھاتے کی دشواریاں برقرار ہیں،بجلی کی پیداوار میں بھی مسلسل پانچویں مہینے کمی ہوئی اور یہ 5.2 فیصد تک گر گئی ہے۔ سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ توانائی اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں بالترتیب 35.2اور 35.7فیصد اضافہ ہوا،مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 0.7 فیصد سے بڑھ کر ایک فیصد ہوگیا۔ جو اعلامیہ جاری کیا گیا اُس میں کہا گیا کہ شرح سود بڑھانے کا مقصد مہنگائی کے رجحان کو روکنا، مالی استحکام کو درپیش خطرات پر قابو پانا اور زیادہ پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ ہموار کرنا ہے، کیونکہ معاشی سست روی کے دور میں مہنگائی کو مسلسل عالمی اور رسدی دھچکوں کے سبب تحریک مل رہی ہے جس سے لاگت میں اضافہ ہورہا ہے۔ زری پالیسی کے ذریعے سے اس صورتِ حال کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ تاہم شرح سود میں اضافے پر کاروباری حلقوں نے جو پہلے ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گراوٹ، توانائی کی شدید قلت اور گرانی سے دوچار ہیں، سخت بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے۔ اس فیصلے کو وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان نے غیر دانش مندانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ ان کے معاشی تجزیے کے مطابق دنیا کے اہم ممالک ملائشیا کی2.25، چین کی 3.85، بھارت کی 4.5 اور بنگلہ دیش کی5.5 فیصد کی نسبت پاکستان کی شرحِ سود بہت زیادہ ہے۔ اس شرح پر کون قرض لے گا اور اپنی صنعتیں چلائے گا؟ جب ہماری ملکی معاشی صورتِ حال انتہائی غیر مستحکم ہے اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھل رہے،گیس اور بجلی کی قلت سے کارخانے بند ہورہے ہیں، زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے ہماری مصنوعات عالمی منڈی میں مسابقت کے قابل نہیں ہیں، ان حالات میں شرحِ سود میں مزید اضافہ معیشت کو بالکل ہی زمیں بوس کردے گا۔
وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کا یہ مؤقف درست ہے۔ بہتر یہی ہے کہ قومی معیشت کو، درپیش چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لائق بنانے کے لیے صنعتی و کاروباری حلقوں اور ملک کے ممتاز اقتصادی ماہرین کی مشاورت سے غیرمعمولی اقدامات عمل میں لائے جائیں جو قومی معیشت کو مزید زبوں حالی سے بچاتے ہوئے استحکام کی راہ پر گامزن کرسکیں۔ وزیر خزانہ کو اس مقصد کے لیے فوری پیش رفت کرنی چاہیے۔ قومی معیشت پچھلے کئی برسوں سے مختلف مقامی اور بین الاقوامی اسباب کی بنا پر جس دلدل میں پھنسی ہوئی ہے، اس کے باعث مہنگائی و بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے اور صورتِ حال میں جلد بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
توانائی کے بحران کے باعث مسائل کا شکار پاکستان اس شعبے میں درپیش مشکلات دور کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے اور اس کے لیے ہر اُس دروازے پر دستک دینے اور دستِ تعاون تھامنے کو تیار ہے جہاں سے اسے توانائی بحران سے نکلنے کے لیے مدد ملنے کی امید ہو۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبے میں شامل ہونے کا اولین مقصد ہی پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے چین کی مدد سے نئے منصوبے شروع کرنا تھا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اسی لیے ترکیہ کے دورے میں میزبان ملک کے سرمایہ کاروں کو توانائی کے شعبے میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ استنبول شپ یارڈ میں پاک بحریہ کے لیے ملگیم کارویٹ جہاز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان توانائی کے لیے درکار پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر بہت زیادہ زرمبادلہ صرف کرتا ہے، لہٰذا وہ ترکیہ کے سرمایہ کاروں کو دعوت دیتے ہیں کہ آئیں مل کر زیادہ کاربن کے اخراج سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے درآمدی بلوں کو ختم کریں اور قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ واضح رہے کہ رواں مالی سال جولائی تا اکتوبر پاکستان کی تیل کی کل درآمدات 6.05 ارب ڈالر رہیں جس میں بجلی پیدا کرنے کے لیے فرنس آئل بھی شامل ہے۔ یہ درآمدی بل ایسے وقت میں بڑھا جب درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں کمی کا رجحان غالب ہے۔ تیل کے درآمدی بل کی وجہ سے حکومتی خزانے پر شدید دبائوہے، ایسے میں دونوں ملکوں کے درمیان شمسی، ہائیڈل اور ونڈ انرجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا مثبت نتائج کا حامل ہوگا، قابلِ تجدید توانائی میں منتقلی کا یہ قدم تجارتی تعلقات کو دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی شراکت داری میں تبدیل کرسکتا ہے۔ پاک بحریہ کے لیے پہلے کارویٹ پی این ایس بابر کی لانچنگ اور دوسرے جہاز پی این ایس بدر کا منصوبہ تزویراتی شراکت میں اہم سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈیفا لٹ کا خطرہ
حکومت کے پاس ڈالر موجود نہ ہونے کے باعث ملک میں کسی قسم کا خام مال نہیں آرہا۔ معاشی ماہرین متفق ہیں کہ ڈیفالٹ کی فالٹ لائن بہت قریب ہے، اس وقت 4 ملین ڈالر کی ایل سیز التوا کا شکار ہیں، بینکوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ ایل سیز نہ کھولیں کیوں کہ ڈالر نہیں۔ ملک میں معاشی بحران بگڑتا جارہا ہے، آئی ایم ایف نے بھی ٹیکس کلیکشن نہ بڑھانے تک مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ امپورٹ بڑھاتے ہیں تو ٹیکس کلیکشن نہیں ہوگی، امپورٹ نہیں بڑھائیں گے تو ڈالرز کی مقدار موجود نہیں۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کا ڈیفالٹ رسک خطرناک سطح پر پہنچ گیا ہے، دسمبر کے بانڈز کی ادائی کے بعد بھی ڈیفالٹ کا خطرہ ختم نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے پر عمل نہ کرنے سے ڈیفالٹ کا رسک بڑھا ہے۔